حدیث میں انا اغنی الشرکاء عن الشرک کا مطلب کیا ہے؟

حدیث میں انا اغنی الشرکاء عن الشرک کا مطلب کیا ہے؟

مسئلہ:
از حافظ امام بخش مدرس دارالعلوم آبادانیہ تیغیہ سرکارنہی شریف۔ ضلع مظفرپور (بہار)
سوال (۱) مشکوٰۃ شریف ص ۴۵۶ میں ہے:
(باب الریاء والسمعۃ) قال اللّٰہ تعالٰی: انا اغنی الشرکاء عن الشرک (الی) ترکتہ وشرکہ۔
۔ اس حدیث شریف کا مطلب بیان فرمایا جائے۔
(۲) مذکورہ بالا حدیث میں انا اغنی الشرکاء عن الشرک پر جو حاشیہ ہے اس کا مطلب بھی واضح فرمایا جائے۔
الجواب: حدیث شریف مسئول عنہ اور اس کا مطلب نیز ترجمہ نیچے لکھا جاتا ہے۔
وقال اللہ تعالٰی: انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا اشرک فیہ معی غیری ترکتہ وشرکۃ
(مشکوٰۃ شریف باب الریاء والسمعۃ ص ۴۵۴)
ترجمہ: جو لوگ اپنے ماتحتوں سے شرک کرواتے ہیں معبودیت میں خود شریک گردانتے ہیں اور جو لوگ شریک کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان شرکاء کی نسبت ان مشرکین کے اعمال شرکیہ سے زیادہ غنی (یعنی بے پروا) ہوں لہٰذا ان کو مقبول نہیں بناتا (تو) جس نے کوئی عمل کیا جس میں میرے غیر کو شریک کر دیا (خواہ ریاء و سمعہ) ہی کے طور پر کیوں نہ ہو تو میں اس شریک کنندہ کو اور اس کے عمل شرک کو نامقبول بنا کر چھوڑ دیتا ہوں۔
شرکاء کی دو قسمیں ہیں:
(الف) قسم اول: وہ شرکاء ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے آپ کو بھی شریک سمجھتے ہیں۔ (جو عابدان کو عبادت میں شریک کرے تو اس کا یہ فعل شرک اکبر ہے۔)
(ب) قسم دوم: وہ شرکاء ہیں جو عبادت میں اپنی شرکت تو نہیں چاہتے مگر وہ اس کے متمنی اور خواہش مند رہتے ہیں کہ عابدین انہیں دکھا سنا کر عبادت کیا کریں۔ یہ بھی ایک قسم کا شریک فی العبادت ہوتا ہے لہٰذا یہ بھی شرکاء ہوئے۔

(ایسی ریاء والی بات شرک اصغر ہے)
انا اغنی الشرکاء
یں شرکاء سے مراد عام شرکاء لئے جائیں تاکہ دونوں قسموں کو شامل ہو جائے اور ترکتہ وشرکہ۔ میں شرک سے مراد شرکت لیا جائے تاکہ شرک اصغر اور شرک اکبر دونوں قسموں کو حاوی ہو جائے۔
فائدہ: مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ مشکوٰۃ شریف کی مذکورہ حدیث کے حاشیہ پر دونوں جگہوں پر ضمیر ھم سے مراد شرکاء ہی ہیں۔
دونوں قسموں کے شرکاء چونکہ اپنی سربلندی اسی شرکت فی العبادۃ سے سمجھتے ہیں اس لئے وہ اس دنیوی اور اپنی مزعوعہ عزت افزائی کے لئے اس شرکت کے خواستگار اور محتاج ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے غنا اور لاپرواہی بالکل ہی نہیں۔ اس کے برخلاف بندے کی مخلصانہ طاعت و عبادت سے عابدین کی سربلندی اور عزت ہوتی ہے‘ نہ کہ اللہ تعالیٰ کی۔ وہ تو غنی بالذات ہے عزت و فضل میں ہماری طاعت کا محتاج نہیں۔


غنی ذاتش از طاعت جن و انس ب
ری ذاتش از تہمت ضد و جنس


(۱) اعتراض: حدیث شریف کی مذکورہ بالا توضیح پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ انا اغنی الشرکاء میں اغنی اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مفضل اور شرکاء مفضل علیہم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کثرت کنندگان عابدین کی طاعت سے اللہ تعالیٰ اور شرکاء دونوں کو غنا ہے۔ اللہ عزوجل کو زیادہ اور شرکاء کو کم۔ حالانکہ شرکاء کو مطلقاً غنا نہیں۔ اس لئے کہ یہ لوگ اپنی مزعومہ بلندی کا معیار انہیں اعمال شرکیہ کو سمجھتے ہیں تو یہ لوگ اس کے محتاج ہوئے نہ کہ اس سے مستغنی۔ جب ان میں غنا ہے ہی نہیں تو اللہ تعالیٰ کو اغنی نہیں کہہ سکتے۔
جواب محشی، مذکورہ بالا اعتراض کا جواب اس طرح دیا ہے کہ علی فرض ان لھم غنی یعنی یہاں شرکاء کے لئے فرض غنا ماننے کی صورت میں کلام ہو رہا ہے کہ شرکاء کے لئے بھی بندوں کے اعمال شرکیہ سے بالفرض غنا تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان کے بالمقابل اللہ تعالیٰ کے لئے زیادہ غنا ہے کہ اس کا غنا ذاتی ہے‘ اور یہ شرکاء ممکن ہیں اور ممکن اپنی ذات اور اپنے وجود اور اپنے تمام صفات غنا وغیرہ میں محتاج الی الواجب ہوتا ہے‘ اور محتاج کو غنا ملا تو پھر واجب کے غنا کے بالمقابل ادنیٰ اور اقل ہو گا۔ (یہاں سے حاشیہ کا مطلب بھی واضح ہو گیا۔)

کتبہ: محمد اویس حسن غلام جیلانی جہانگیری،
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۶۵/۶۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top