حضرت سیّدہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہیں تھیں رضی اللہ عنہما

حضرت سیّدہ حضرت ابوبکر سے ناراض نہیں تھیں رضی اللہ عنہما

رافضی لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کر دی تھی کہ حضرت ابوبکر میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیّدہ کو رات ہی میں دفن کر دیا جس سے معلوم ہوا کہ سیّدہ ان سے راضی نہیں ہوئی تھیں اور ان لوگوں کے مابین صلح صفائی نہیں ہوئی تھی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہلسنّت کی معتبر کتابوں سے یہ ہرگز ثابت نہیں کہ حضرت فاطمہ زہراء نے یہ وصیت کی تھی کہ حضرت ابوبکر میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں۔ یہ رافضیوں کا افتراء و بہتان ہے اس لئے کہ وہ ایسی وصیت کیسے کر سکتی تھیں جبکہ نماز جنازہ پڑھانے کا حق بحیثیت امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ہی کو تھا اسی لئے امام حسین رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے حاکم مروان بن حکم کو اور ایک روایت میں سعید بن عاص کو حضرت امام حسن کا جنازہ پڑھانے سے نہیں روکا اور فرمایا کہ اگر شریعت کا حکم ایسا نہ ہوتا تو میں جنازہ کی نماز تمہیں نہ پڑھانے دیتا۔
(اشعۃ اللمعات جلد سوم ص ۴۵۴)
اور جب نماز جنازہ پڑھانے کا حق خلیفتہ المسلمین ہی کو تھا تو حضرت سیّدہ کسی کی حق تلفی کی وصیت ہرگزنہیں کر سکتیں۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی وصیت کی نسبت حضرت سیّدہ کی جانب غلط ہے البتہ انہوں نے مرض الموت میں یہ وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد مجھے بے پردہ مردوں کے سامنے نہ نکالیں اس لئے کہ اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی بے پردہ نکالتے تھے‘

تو حضرت ابوبکر کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس نے حضرت سیّدہ کے جنازے کے لئے لکڑیوں کا ایک گہوارہ بنایا جس کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں لہٰذا ان کی وصیت انتہائی شرم و حیا کے سبب سے تھی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خاص نہ تھی بلکہ عام تھی اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت سیّدہ کو رات ہی میں دفن کر دیا‘ اور حضرت سیّدہ کے جنازہ میں حضرت ابوبکر صدیق کا شریک نہ ہونا بخاری یا صحاح کی کسی روایت سے ثابت نہیں بلکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ان کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر صدیق ہی نے پڑھائی جیسا کہ طبقات ابن سعد میں امام شعبی اور امام نخعی سے دو روایتیں مروی ہیں:
عن الشعبی قال صلی علیھا ابوبکر رضی اللہ عنہ و عن ابراھیم قال صلی ابوبکر ن الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اللہ وکبر علیھا اربعاً۔
حضرت امام شعبی اور ابراہیم نخعی نے فرمایا کہ حضور کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر نے پڑھائی اور نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں‘ اور اگر جنازہ میں شریک نہ ہونا مان بھی لیا جائے تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو بلانے کے لئے کسی کو نہ بھیجا ہو تو حضرت ابوبکر نے سمجھا ہو کہ اس میں کوئی مصلحت ہے اس لئے شریک نہ ہوئے ہوں‘ اور حضرت علی نے یہ خیال کیا ہو کہ وہ خود آئیں گے اور رات کا وقت تھا اس لئے ان کی شرکت کے بغیر تجہیز و تکفین کر دی۔ کذاذکرہ السمھودی فی تاریخ المدینۃ۔
(اشعۃ اللمعات جلد سوم ص ۴۵۴)
اور اگر رافضی کسی بات کو نہ مانیں اور جنازہ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ حضرت سیّدہ کی وصیت ہی کو ٹھہرائیں تو پھر ان کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا کہ سیّدہ کی نماز جنازہ صرف سات آدمیوں نے پڑھی جیسا کہ رافضیوں کی معتبر کتاب جلاء العیون میں کلینی سے روایت ہے کہ ’’از امیر المومنین صلوات اللہ علیہ روایت کردہ است کہ ہفت کس برجنازہ فاطمہ نماز کردند ابوذر و عمار و حذیفہ و عبداللہ بن مسعود و مقداد و من امام ایشاں بودم۔‘‘ امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: صرف سات آدمیوں نے فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی، ابوذر، سلمان، عمار، حذیفہ، عبداللہ بن مسعود، مقداد اور میں ان کا امام تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ صرف سات آدمیوں نے حضرت سیّدہ کی نماز جنازہ پڑھی اور مندرجہ ذیل حضرات ان کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عقیل بن طالب، حضرت جعفر بن طالب، حضرت قیس بن سعد، حضرت ایوب انصاری، حضرت ابوسعید خدری، حضرت سہل بن حنیف، حضرت بلال، حضرت صہیب،

حضرت براء بن عاذب اور حضرت ابوارفع رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ تیرہ حضرات جن کو رافضی بھی مانتے ہیں اور یہ لوگ نماز جنازہ میں شریک نہ ہوئے ان کے بارے میں وہ کیا کہیں گے؟ کیا حضرت سیّدہ ان سے بھی ناراض تھیں؟ کیا انہوں نے یہ بھی وصیت کر دی تھی کہ میرے جنازہ میں امام حسن و امام حسین بھی شریک نہ ہوں جو ان کے لاڈلے اور چہیتے بیٹے تھے؟ لہٰذا ماننے پڑے گا کہ جنازہ میں شریک ہونے نہ ہونے کو رضامندی یا ناراضگی کی بنیاد بنانا ہی غلط ہے ورنہ حضرات حسنین کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ ان حضرات سے بھی حضرت سیّدہ ناراض تھیں اور جنازہ میں شریک نہ ہونے کے لئے وصیت کر گئی تھیں توثابت ہوا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت سیّدہ کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی تو اس کو آپ کا حضرت سیّدہ کی ناراضگی کی دلیل ٹھہرانا غلط ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۰۳/۱۰۲/۱۰۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top