حضرت صدیق اکبر کو حضرت علی سے افضل کیوں قرار دیا گیا؟اہل فترت کی کتنی قسمیں ہیں؟کیا حضرت صدیق اکبر نے بچپن میں بت شکنی کی؟

حضرت صدیق اکبر کو حضرت علی سے افضل کیوں قرار دیا گیا؟
اہل فترت کی کتنی قسمیں ہیں؟
کیا حضرت صدیق اکبر نے بچپن میں بت شکنی کی؟

مسئلہ: از عطاء اللہ سسہنیاں کلاں ضلع گونڈہ
زید کہتا ہے کہ حضرت مولائے کائنات جناب علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے تھے اور زمانۂ بچپن ہی سے کفر وشرک سے پاک تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے کافر تھے اس کے بعد ایمان لائے تو پھر اس صورت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابہ سے افضل کیوں قرار دیا گیا اور کس خوبی سے ان کو خلیفہ اوّل بنایا گیا؟ فضیلت کے لحاظ سے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اوّل ہونا چاہئے تھا۔ قرآن و حدیث سے حوالہ ملنا چاہئے۔ بینوا توجروا۔
الجواب: سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ابنیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ہونا تمام علماء اہلسنّت کے نزدیک مسلم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ار شاد فرماتا ہے:
وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo
(پ:۳۰)
اور بہت اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ ستھرا ہو۔ تمام مفسرین کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت کریمہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی اور اتقیٰ یعنی سب سے بڑا متقی و پرہیزگار انہیں کو کہا گیا ہے‘ اور پھر پارہ ۲۶؍ میں یوں ہے:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ
عنی بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت و فضیلت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ متقی وپرہیزگار ہو۔ ان دونوں آیت کریمہ کے ملانے سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ سے افضل ہیں چنانچہ مشہور کتاب شرح عقائد نسفی ص ۱۰۷ میں ہے:
افضل البشر بعد نبینا ابوبکر الصدیق ثم عمر الفاروق ثم عثمان ذوالنورین ثم علی المرتضیٰ۔
۔ یعنی تمام نبیوں کے بعد بشروں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان ذوالنورین پھر حضرت علی مرتضیٰ ہیں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین‘ اور امام جلیل خاتم الحفاظ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تاریخ الخلفاء میں فرماتے ہیں:
اجمع اھل السنۃ ان افضل الناس بعد رسول اللّٰہ ابوبکر ثم عصر ثم عثمان ثم علی ثم سائر العشرۃ ثم باقی اھل بدر ثم باقی اھل احد ثم باقی اھل البیعۃ ثم باقی الصحابۃ ھٰکذا حکی الاجماع علیہ ابومنصور البغدادی۔


یعنی علمائے اہلسنّت کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں آپ کے بعد حضرت عمر پھر حضرت عثمان پھر حضرت علی پھر عشرۂ مبشرہ پھر اہل بدر پھر اہل احد پھر باقی اہل بیت پھر باقی تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ابوالمنصور بغدادی نے اجماع اسی طرح نقل کیا ہے۔
روی البخاری عن ابن عمر قال کنا نخیر بین الناس فی زمان رسول اللّٰہ نخیر ابا بکر ثم عمر ثم عثمان وزادالطبرانی فی الکبیر فیعلم بذٰلک النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولاینکرہ
یعنی روایت کیا ہے امام بخاری نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ فرماتے ہیں کہ ہم آپس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو افضل الصحابہ شمار کیا کرتے تھے پھر حضرت عمر کو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو بتلایا کرتے تھے۔ طبرانی نے اتنا اور زیادہ کیا ہے کہ سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو جانتے تھے اور ناپسند نہ فرماتے تھے۔ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے صاحبزادے حضرت محمد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے:
اخرج البخاری عن محمد بن علی ابن طالب قال قالت لابی ای الناس خیر بعد رسول اللّٰہ قال ابوبکر قلت ثم من قال عمرو خشیت ان یقول عثمان قلت ثم انت قال ما انا الارجل من المسلمین۔
یعنی محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے دریافت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر۔ میں نے کہا ان کے بعد فرمایا: حضرت عمر ہیں اور میں ڈرا کہ اب حضرت عثمان کو فرمائیں گے۔ میں نے عرض کیا: پھر آپ افضل ہیں؟ تو آپ نے (خاکساری کے طور پر) فرمایا کہ میں تو ایک مسلمان ہوں (بخاری) اس کے علاوہ اور بھی حدیثیں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضیلت بعد الانبیاء کے متعلق پیش کی جاسکتی ہیں مگر بخوف طوالت اتنے ہی پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے زید کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کافر کہنا زید کی جہالت و نادانی ہے اس لئے کہ اہل فترت یعنی جنہیں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت نہ پہنچی تین قسم پر ہیں: اوّل موحد: جنہیں ہدایت ازلی نے اس عالمگیر اندھیرے میں بھی راہ توحید دکھائی جیسے قس بن ساعدہ، زید بن عمرو بن نفیل اور زہیر بن ابی سلمہ شاعر وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم۔ دوم مشرک: کہ اپنی جہالتوں اور ضلالتوں سے غیر خدا کو پوجنے لگے جیسے کہ اکثر عرب۔ سوم: غافل کہ انہماک فی الدنیا کے سبب انہیں اس مسئلہ سے کوئی بحث نہ ہوتی‘

اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ قسم دوم وسوم میں سے نہ تھے بلکہ قسم اوّل کے لوگوں میں سے تھے اس لئے کہ چند برس کی عمر میں ان کے والد ماجد حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ جو بعد میں صحابی ہوئے زمانۂ جاہلیت میں انہیں بت خانے لے گئے اور بتوں کو دکھا کر فرمایا:
ھذہ الھتک السم العلٰی فاسجدلھا
یعنی یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہیں انہیں سجدہ کرو۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر گئے لیکن سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قضائے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور بت کی عاجزی وبت پرستوں کی جہالت ظاہر کرنے کے لئے ارشاد فرمایا:
انی جائع فاطعمنی۔
یعنی میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔ وہ کچھ نہ بولا۔ آپ نے پھر کہا انی عارفا کسنی یعنی میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا۔ پھر وہ کچھ نہ بولا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر فرمایا میں تجھے پتھر مارتا ہوں۔
فان کنت الھا فامنع نفسک
یعنی اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا وہ اب بھی خاموش رہا آخر بقوت صدیق پتھر مارا تو وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گر پڑا۔ آپ کے والد ماجد واپس آ رہے تھے۔ یہ ماجرا دیکھ کر کہا: اے میرے بچے یہ کیا کیا؟ فرمایا: وہی جو آپ دیکھ رہے ہیں‘ تو وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ حضرت ام الخیر رضی اللہ عنہا (جو بعد میں صحابیہ ہوئیں) کے پاس لائے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے سنا کہ ہاتف کہہ رہا ہے:
یاامۃ اللّٰہ علی التحقیق ابشری بالولد العتیق اسمہ فی السماء الصدیق لمحمد صاحب ورفیق
یعنی اے اللہ کی سچی بندی! تجھے خوشخبری ہو اس بچے کی‘ اس کانام آسمان میں صدیق ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یار و رفیق ہے۔
رواہ القاضی ابوالحسین احمد بن محمد الزبیدی بسندہ فی معالی الفرش الی عوالی العرش‘
اور امام اجل سیدی ابوالحسن علی بن عبدالکافی تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الصواب ان یقال ان لاصدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ لم یثبت عنہ حالۃ کفر باللّٰہ تعالٰی کما ثبت عن غیرہ ممن امن وھوالذی سمعناہ من اشیاخنا ومن یقتدی بہ وھو الصواب۔
یعنی درست یوں کہنا ہے کہ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کی حالت ثابت نہیں جیسا کہ دیگر ایمان والوں سے یہ حالت ثابت ہے‘ اور یہ وہ بات ہے جس کو ہم نے پیران عظام اور مقتدایان کرام سے سنا ہے‘ اور یہی درست ہے‘ اور سیّدنا امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لم یزل ابوبکر بعین الرضامنہ
امام قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
اختلف الناس فی مرادہ بھٰذا الکلام فقیل لم یزل مومنا قبل البعثۃ وبعدھا وھوا الصحیح المرتضیٰ
یعنی امام ابوالحسن اشعری

کے مذکورہ بالا کلام کی مراد میں لوگوں نے اختلاف کیا اور کہا گیا مطلب یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اعلان نبوت سے پہلے اور اس کے بعد مومن تھے اور یہی بات صحیح اور پسندیدہ ہے۔ الحمد للہ! حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا موحد ہونا اور شرک و کفر سے پاک رہنا ثابت ہو گیا۔
لیکن زید کو اپنی لاعلمی کی بناپر یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تو اگر وہ پہلے ہی سے مسلمان تھے تو پھر اسلام قبول کرنے کا کیا مطلب؟ تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پارہ الم رکوع ۱۶؍ میں حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی نسبت فرماتا ہے:
اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ اَسْمَلْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
یعنی جب اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا: ایمان لاؤ! تو آپ نے کہا: میں رب العٰلمین پر ایمان لایا۔ جب خلیل کبریا علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو اسلام لانے کا حکم ہوا اور ان کا عرض کرنا کہ میں اسلام لایا ان کے ایمان قدیم کا منافی نہ ہوا کیونکہ حضرات انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی طرف نبوت کے بعد یا پہلے کبھی بھی کسی وقت‘ ایک آن کے لئے بھی کفر کو ہرگز راہ نہیں تو پھر سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ الفاظ کہ وہ فلاں دن مسلمان ہوئے ان کے اسلام سابق کے ہرگز ہرگز مخالف نہیں۔ پھر یہ کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ابتدائً ہی مومن ہونا بمعنی موحد کافر ہے بعدہٗ قبولیت اسلام بقوانین محمدیہ کے محل میں ہے:
ولاتعارض فیہ ھٰذا کلہ واضح مبین لمن لہ عقل وتفقہ فی الدین فالحمدللّٰہ رب العالمین۔
سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و مولائے کائنات علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات قدیم الاسلام ہیں کہ ایک آن، ایک لمحہ کو ہرگز ہرگز متصف بکفر نہ ہوئے مگر اسلام میثاقی و اسلام فطری کے بعد اسلام توحیدی و اسلام اخص دونوں میں صدیق اکبر کا مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بلند و بالا، ارفع و اعلیٰ ہے‘ اور بعد الانبیاء تمام مسلمانوں سے افضل و خلیفہ اوّل ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مردوں کے اندر اسلام اخص میں ان کا کوئی مقابل نہیں اور اسلام توحیدی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی وہ افضل ہیں اس لئے کہ سیّدنا صدیق اکبر کی عمر کا زیادہ حصہ زمانۂ ظلمت و جہالت میں گزرا۔ ابتدائً مدتوں حضور پرنور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے دوری رہی۔ اس پر بچپنے کی سمجھ میں ان کی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا کا جو کہ اس وقت مبتلائے شرک تھے اپنے دین باطل کی تعلیم دینے کے لئے بت خانہ میں لے جا کر سجدۂ بت کی تفہیم کرنا اس کے

باوجود آنحضرت رضی اللہ عنہ کا توحید خالص پر قائم رہنا بہت اہم و اعظم ہے‘ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آنکھ کھولی تو حضور پرنور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا جمال جہاں آرا دیکھا۔ حضور ہی کی گود میں پرورش پائی‘ حضور ہی کی باتیں سنیں‘ حضور ہی کی عادتیں سیکھیں‘ شرک و بت پرستی کی صورت ہی اللہ تعالیٰ نے کبھی نہ دکھائی آٹھ یا دس سال کے ہوئے تو آفتاب رسالت اپنی عالمگیر تابشوں کے ساتھ چمک اٹھا۔
والحمد للّٰہ رب العٰلمین۔
اور اسلام اخص میں ان کی فضیلت یوں ہے کہ مردوں میں وہ سب سے پہلے اسلام لائے اور فوراً اپنا اسلام سب پر ظاہر کر دیا۔ ہدایتیں فرمائیں۔ کفار سے اذیتیں اٹھائیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یوں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ ابوطالب کے خوف سے ابتدائً اپنے اسلام کوظاہر نہ فرمایا امام حافظ الحدیث خیمیہ بن سلیمان و امام دارقطنی و محب الدین طبری وغیرہم حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ان ابابکر سبقنی الی اربع لم اوتھن سبقنی الی انشاء الاسلام وقدم الھجرۃ ومصاحبتہ فی الغار وقام الصلاۃ وانا یومئذ بالشعب یظھرا سلامہ واخفیہ الحدیث۔
یعنی بے شک ابوبکر ان چار باتوں میں مجھ سے بڑھ گئے کہ جو مجھے نہ ملیں (۱) انہوں نے مجھ سے پہلے اسلام کو ظاہر کیا اور (۲) مجھ سے پہلے ہجرت کی حضور علیہ السلام کے یار غار ہوئے (۳) اور نماز قائم کی اس حالت میں کہ میں ان دونوں گھروں میں تھا (۴) وہ اپنا اسلام ظاہر کرتے اور میں چھپاتا تھا۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں:
: اوّل ذکر اسلم علی بن ابی طالب وھو صبی لم یبلغ الحلم وکان مستخفیا با سلامہ واول رجل عربی بالغ اسلم واظھر اسلامہ ابوبکر بن ابی قحافۃ پہلا وہ شخص جو بچپنے اور نابالغی کی حالت میں مسلمان ہوا‘ حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ اپنے اسلام کو چھپاتے تھے‘ اور پہلا وہ شخص جو حالت بلوغ میں مسلمان ہوا‘ اور اپنے اسلام کو ظاہر کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔
لہٰذا احادیث و آثار صحابہ کرام و اقوال ائمہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہوا کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کبھی کافر نہ تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نیز دیگر تمام صحابہ سے ان کا ایمان قوی و اکمل اور ان کا مرتبہ بعد الانبیاء سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔ اسی لئے وہی خلیفہ اوّل بنائے جانے کے بھی مستحق ہوئے۔
واللّٰہ تعالی ورسولہُ الاعلی اعلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۴؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۷۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۸۸/۸۷/۸۶/۸۵/۸۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top