خاص مسجد کیلئے وصیت کی تھی ، تو کیا دوسری مسجد میں وصیت کا مال خرچ کرسکتے ہیں ؟
سوال ۔۔
میت نے معین مسجد و مزار کے وضو خانے اور دیگر اخراجات کے لیے وصیت کی تھی
اب وہاں بظاہر اتنی ضرورت نہیں
کیا اس کو کسی اور مسجد میں دے سکتے ہیں
سائل ۔ عبداللہ ، کراچی
۔۔۔
الجواب بعون الملک الوھاب
دوسری مسجد میں نہیں دے سکتے کیونکہ یہ وقف کے زمرے میں شامل ہے
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
” أنها ليست وصية حقيقة، إذ هي في معنى الوقف عنده، وبه صرح في غرر الأفكار ، كالوصية تجعل داره مسجداً؛ فإنها وقف في المعنى “
(ردالمحتار ، کتاب الوصایا ، باب الوصية بالخدمة والسكنى ، قبیل فی وصایا الذمی وغیرہ ، ۲۴/۶۷ ، تحقیق: صالح فرفور ، دارالثقافۃ والتراث)
یعنی ، یہ حقیقت میں وصیت نہیں ہے کیونکہ یہ امام اعظم کے نزدیک وقف کے معنی میں ہے ، یہی تصریح غرر الافکار میں ہے کہ جیساکہ گھر کو مسجد بنانے کی وصیت ؛ تو یہ وقف کے معنی میں ہے
لہذا معنوی اعتبار سے وقف ہونے کی وجہ سے وقف کی طرح ہی اسے خرچ کرنا لازم ہے
چنانچہ امام زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں
” شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم : شرط الواقف كنص الشارع أي في وجوب العمل به “
(الاشباہ والنظائر ، الفن الثانی ، کتاب الوقف ، ص۱۶۳ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۱۹ھ)
یعنی ، واقف کی شرط کی اتباع لازم ہے فقہاء کے اس قول کی وجہ سے کہ: وقف کرنے والے کی شرط نص شارع کی طرح ہے یعنی اس پر وجوب عمل کے حق میں ،
فلہذا علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
” أوصى بثلث ماله للكعبة جاز وتصرف لفقراء الكعبة لا غير وكذا للمسجد وللقدس “
(الدرالمختار ، کتاب الوصایا ، قبیل باب الوصیۃ بثلث المال ، ص۷۳۵ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، کسی نے خانہ کعبہ کیلئے ثلث مال کی وصیت کی تو جائز ہے اور خانہ کعبہ کے فقراء پر خرچ کیا جائے گا دوسروں پر نہیں ، یہی حکم اس وقت بھی ہے جب مسجد یا بیت المقدس کیلئے وصیت کی ہو
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
” جو رقم اس نے دونوں مسجدوں کے لئے معین کی ہے وہ انہیں کو دی جائے گی “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الوصایا ، رقم المسئلۃ: ۱۷۴ ، ۲۵/۶۴۸ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)
بلکہ اگر کسی خاص مسجد کیلئے معین کام میں خرچ کرنے کی وصیت ہے تو اسی معین کام میں خرچ کرنا لازم ہے
چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں
” وصیت میں ایسی تبدیلی جائز نہیں ، لان حفرة البئرقربة مقصودة فلا تغير كما حققناه فی ما على رد المحتار علقناه ، ترجمہ: اس لئے کہ کنواں کھودنا قربت مقصودہ ہے لہذا اسے غیر سے بدلا نہ جائے گا کہ ہم نے اس کی تحقیق رد المحتار پر اپنی تعلیق میں کر دی ہے “
(ایضا ، ص۴۹۶)
اور ایک جگہ فرماتے ہیں
” وصیت جہت موصی سے تملیک ہے تو اس کے بتائے سے تجاوز نہیں کر سکتی “
(ایضا ، ص۵۶۸)
البتہ اگر وصیت کرنے والے نے کسی ایسی چیز کی وصیت کی جس کی ضرورت اس مسجد کو نہ اب ہے نہ آئندہ ضرورت پڑنے کی امید ہے اور رکھے رکھے وہ چیز خراب ہوجائےگی تو ایسی صورت میں مناسب قیمت پر لے کر دوسری مسجد میں استعمال کرنے کی اجازت ہوگی ، یا پھر یہ کہ وہ مسجد بالکل ہی ویران ہوجائے کہ اب آبادی کا کوئی امکان نہ ہو تو دوسری مسجد میں استعمال کی جائےگی ،
چنانچہ امام اہلسنت مسجد کے زائد سامان کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
” اہل محلہ یا کوئی اسے اپنے تصرف میں کرلے یہ حرام، اسے دوسری مسجد میں دے دیں یہ حرام۔ اسے بیچ کر اس کی قیمت اسی مسجد کی تعمیر و مرمت کے لئے محفوظ رکھیں یہ جائز “
(ایضا ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، ص۵۲۲ ، رقم المسئلۃ: ۳۲۴)
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں
” جبکہ اس مسجد شہید شدہ کا آباد کرنا کہ فرض ہے نا ممکن ہو گیا ہو اور اس کی طرف کوئی راہ میسر نہ ہو اور چور اس کے مال پر دست درازی کر رہے ہیں تو ایسی صورت میں اس ضرورت میں اس کی محراب دوسری مسجد میں لگادینے کی اجازت ہوگی “
*(ایضا ، ص۳۳۴ ، رقم المسئلۃ: ۱۵۷)-
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
” اگر اس مسجد کے آباد رکھنے، حفاظت کرنے کا کوئی طریقہ نہ ہو اور یوں جنگل میں چھوڑ دی جائے گی تو چور اور متغلب لوگ اس کا مال لے جائیں گے تو جائز ہے کہ اس کا اسباب وہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ مسجد بنائیں اور یہ کام ہو شیار اور دیانتدار مسلمانوں کی نگرانی میں ہو “
(ایضا ، ص۵۳۱ ، رقم المسئلۃ:۳۳۲)
خلاصہ کلام یہ کہ مسجد کیلئے وصیت کا مال ، مال وقف کی طرح ہے جو موصی کی صراحت کے مطابق اسی معین مسجد پر صرف کرنا لازم ہے ، فی الحال اگر اس مسجد معین کو ضرورت نہ بھی ہو تو بھی دوسری مسجد میں دینے کی اجازت نہیں ، بلکہ دوسرے اموال مسجد کی طرح اسے بھی مسجد کیلئے سنبھال کر رکھا جائے
ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
۴/ ربیع الثانی ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۰/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح ابو حمزہ محمد عمران مدنی نعیمی
خادم دارالافتاء محمدی، محمدی مسجد، گارڈن ویسٹ، کراچی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
صح الجواب
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ ، کاشی فور اتراکھنڈ الھند