خدا اور رسول چاہیں گے تو کام ہوجائے گا یہ کہنا کیسا ہے
کیا نبی ولی جو چاہیں کر ڈالیں؟
کیا رسول کو ہر بات معلوم ہے؟
مسئلہ:
از محمد بشیر قادری چشتی یار علوی ڈفلڈ ہوا ضلع گونڈہ
زید نے عوام لوگوں میں یہ پھیلایا خدا اور رسول چاہے گا تو یہ کام ہو جائے گا یا کر لو نگا یا مقدمہ میرا فتح ہو جائے گا تو ایسا نہیں کہنا چاہئے۔ خدا چاہے گا تو ہو جائے ایسا کہنا چاہئے خدا میں رسول کو نہیں شریک کرنا چاہئے کیونکہ دلیل قرآن میں ثابت ہے کہ وحدانیت میں رسول کو شریک نہیں کرنا چاہئے اور لوگ رسول کی تعریف اتنی کر دیتے ہیں کہ خدا سے بھی رسول کا مرتبہ بڑھا دیتے ہیں۔ قرآن شریف میں آیا ہے: لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ زمین آسمان میں جو چیزخداکے لئے ہے سب خدا نے پیدا کیا ہے‘ اور جو کرنا ہوتا ہے وہ خدا ہی کرتا ہے‘ اور کسی نبی ولی کو اختیار نہیں کہ جو چاہیں نبی ولی کر ڈالیں سب خدا ہی کرتا ہے‘ اور کرے گا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ مکہ کے کچھ لوگوں نے رسول سے سوال کیا کہ یہ بتا دو‘ تو آپ نے کہا کہ کل بتا دوں گا۔ اس پر سولہ دن تک خدا وحی نہیں لایا۔ سولہ دن کے بعد آیات وَلَاتَقُوْلَنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٍ ذٰلِکَ غَدًا اِلاَّ اَنْ یَّشَاء اللّٰہ لایا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا: اے رسول جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرو یا بتانے کا ارادہ کرو تو انشاء اللہ کہہ لیا کرو کہ خدا چاہے گا تو بتا دوں گا یا کروں گا۔ اگر رسول کو معلوم ہوتا تو فوراً بتا دیتے۔ یہ نہ کہتے کہ کل بتا دوں گا۔ تیسری دلیل حدیث شریف سے یہ ہے: صحابی نے رسول سے کہا کہ حضور اگر آپ حکم دو تو ہم لوگ یہ کریں‘ تو آپ نے جواب دیا کہ مجھے اللہ کے شریک نہ کرو میں غیراللہ
ہوں۔ اللہ کی وحدانیت میں مجھے شریک نہ کرو‘ تو یہ ثابت ہوا خدا کا رسول کو شریک نہیں کرنا چاہئے اور لوگ یہ جو کہہ دیتے ہیں کہ خدا اور رسول چاہے گا تو یہ کام کروں گا یا ہو جائے گا ایسا کہنا شرک ہو گا‘ اور اگر رسول کو شامل کرنا ہوتا تو انشاء الرسول بھی قرآن میں آتا اور انشاء اللہ ہی کی آیات میں آتا لیکن قرآن میں انشاء الرسول نہیں آیا۔
(۴) اور بکر میلاد شریف میں ختم صلاۃ و سلام کے بعد یہ شعر پڑھتا ہے: اے خدا کے لاڈلے پیارے رسول۔ لو سلام اب تو تمہارا ہوقبول۔ عمرو کا کہنا ہے کہ وحدانیت کی آڑ میں رسالت کی توہین ہے۔ بکر یہ کہتا ہے کہ توہین نہیں ہے بلکہ تعریف ہے سو قرآن شریف و حدیث شریف کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔ عین مہربانی ہو گی۔ نیز قرآن شریف اور حدیث شریف سے زید کے اوپر حکم کیا ہے؟ بینوا توجروا
الجواب:
نمبر ایک: بیشک مشیت حقیقیہ ذاتیہ مستقلہ صرف اللہ جل جلالہ ومجدہ کے لئے ہے‘ اور مشیت عطائیہ تابعہ لمشیتہ اللہ تعالیٰ رب العزت جل جلالہ نے اپنے عباد (بندوں) کو عطا فرمائی ہے پھر چونکہ تمام بندگان الٰہی میں سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل و اعلیٰ‘ بلند وبالا رب العالمین جل جلالہ کے خلیفۂ اعظم و نائب اکبر ہیں اس لئے سرکار کی مشیت کو اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات عالم میں دخل عظیم عطا فرمایا ہے۔ امام طبرانی معجم کبیر میں حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم امر الشمس فتاخرت ساعۃ من نھار یعنی سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر چلتے سورج کو حکم دیا کہ کچھ دیر چلنے سے ٹھہر جا تووہ فوراً ٹھہر گیا۔
(معجم کبیر للطبرانی بحوالہ الامن والعلی ص ۹۹)
دیکھو دنیا کے کل جاہ و جلال والے بادشاہ اور حکمت و دانش والے تمام سائنس داں اپنا سارا زور لگا دیں مگر سورج کی رفتار ایک سیکنڈ کے لئے بند نہیں ہو سکتی۔ لیکن قربان جائیں اللہ کے خلیفۂ اعظم پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے اپنے رب جل جلالہ و علامجدہ کی عطا فرمودہ مشیت سے کروڑوں میل کی دوری پر چلتے سورج کو ٹھہرا دیا۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّد المرسلین۔ بخاری شریف کے شارح مشہور محدث حضرت امام ربانی احمد بن محمد خطیب قسطلانی علیہ الرحمۃ والرضوان اپنی کتاب مواہب لدنیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
الابابی من کان ملکا وسیدا
وادم بین الماء والطین واقف
راذارام امرا لایکون خلافہ
ولیس لذٰلک الامر فی الکون صارف
یعنی خبردار! میرے باپ قربان ان (پیارے مصطفیٰ) پر جو بادشاہ اور سردار ہیں اس وقت سے کہ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام ابھی (آب و گل)۔ پانی اور مٹی کے اندر ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ جس بات کا ارادہ کریں اس کے خلاف نہیں ہوتا تمام جہان میں کوئی ان کے حکم کا پھیرنے والا نہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم
(بحوالۂ الامن العلی ص ۱۰۱)
اور محمد رسول اللہ تو محمد رسول اللہ ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نائب اور خادم سیّدنا مولیٰ علی مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی نسبت امت مرحومہ کا جو اعتقاد ہے وہ حضرت شاہ محمدث دہلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے اور امام الوہابیہ کے چچا اور دادا پیر حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے قلم سے سنئے۔ حضرت موصوف اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ مطبوعہ کلکتہ ص ۳۹۶ میں لکھتے ہیں: حضرت امیر وذریت طاہرہ را تمام امت برمثال پیراں و مرشداں می پرستند وامور تکوینیہ رابابشاں وابستہ می دانند۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے شہزادگان کو امت کے سارے لوگ پیروں اور مرشدوں کی طرح بہت مانتے ہیں اور کاروبار عالم کو ان کے دامنوں سے وابستہ جانتے ہیں‘ اور سنیے شہزادۂ رسول سرکار غوث اعظم جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ اپنے قصیدۂ مبارکہ غوثیہ میں فرماتے ہیں:
ولوالقیت سری فوق میت
لقام بقدرۃ المولٰی تعالٰی
یعنی اگر میں اپنا راز کسی مردہ پر ڈال دوں تو قدرت الٰہی سے وہ ضرور زندہ ہو جائے گا۔
بخاری، مسلم، نسائی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ائمہ حدیث نے یہ صحیح حدیث جلیل روایت کی ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتی ہیں: مااری ربک الابسار ع فی ھواک یعنی یارسول اللہ! میں یہی دیکھتی ہوں کہ رب العزۃ جل جلالہ حضور کی چاہت پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے۔ سبحان اللہ کیسی پیاری چاہت ہے سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور کیسی مبارک مشیت ہے پیارے نبی کی کہ خود رب العٰلمین جل جلالہ جلد سے جلد اسے قبول واجابت کا سہرا عطا فرماتا ہے۔ بس اسی مشیت عطائیہ مبارکہ کے باعث مسلمان حضرات نام الٰہی جل جلالہ کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک ملا کر یوں کہہ دیا کرتے ہیں کہ اللہ ورسول چاہیں تو یہ کام ہو جائے گا۔ شرع کے نزدیک ایسا کہنا ہرگز شرک نہیں۔ امام الوہابیہ ملا اسماعیل اور دیگر وہابیہ کی یہ دھاندلی ہے کہ یہ لوگ اس کہنے کو شرک قرار دیتے ہیں۔ ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے اعتقاد میں چونکہ اللہ رب العزت کی مشیت ذاتی مستقل ہے‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مشیت عطائی تابع ہے اس لئے ہماری بولی میں کوئی ایسا لفظ ضرور ہونا چاہئے جس سے سننے والے کو مشیت ذاتی مستقل اور مشیت عطائی تابع کے درمیان فرق واضح رہا کرے۔ لہٰذا مذکورہ بالا جملوں کو یوں استعمال کیا جائے ’’اگر اللہ پھر رسول چاہیں تو یہ کام ہو جائے گا‘ جیسا کہ ہمارے علماء اہل سنت بولتے ہیں۔ انشاء اللّٰہ تعالٰی ثم شاء رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
امام ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے خواب میں ایک کتابی (یہودی یا نصرانی) سے ملاقات کی اس کتابی نے کہا کہ تم لوگ کیا ہی اچھی قوم ہو اگر شرک نہ کرتے۔ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنا یہ خواب سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیاتو سرکار نے فرمایا: سنتے ہو خدا کی قسم! واقعی تمہاری اس بات پر مجھے خیال گزرتا تھا کہ کفار مخالفین مسلمانوں پر شرک کا الزام اٹھائیں گے۔ چنانچہ خواب میں ایک کتابی نے شرک کا اتہام جڑ ہی دیا۔ اچھا اب یو ں کہا کرو: ماشاء اللّٰہ ثم شاء محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ جو چاہے اللہ اور جو چاہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ حدیث ابن ابی شیبہ و طبرانی و بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کی ہے۔
(بحوالہ الامن العلی ص ۱۷۴)
اس حدیث کریم سے صاف واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام کے درمیان یہ جملہ کہ اللہ ورسول چاہیں تو فلاں کام ہو جائے گا خوب رواں دواں تھا لیکن چونکہ یہودی کافر صحابہ کرام پر شرک کی تہمت لگاتے تھے اس لئے سرکار نے اس کے بجائے یوں بولنا سکھایا کہ اللہ پھر رسول چاہیں تو فلاں کام ہو جائے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ دونوں جملے جائز اور شرک سے پاک ہیں لیکن چونکہ صحابہ کے زمانہ میں یہودی اور ہمارے زمانہ میں وہابی پہلا جملہ بولنے پر طعنہ دیتے تھے اور دیتے ہیں اس لئے ہمیں سرکار کے سکھانے کے مطابق ہمیشہ دوسرا جملہ یعنی اللہ پھر رسول اللہ چاہیں تو یہ کام ہو جائے گا بولنا چاہئے کہ دوسرا جملہ طریقۂ ادب سے زیادہ میل کھاتا ہے۔ یہ خوب واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کے ساتھ سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ملا کر بولنا ہرگز شرک نہیں۔ دیکھو قرآن شریف میں رب العزت جل جلالہ فرماتا ہے:
وَمَا نَقَمُوْآ اِلَّا اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ فَضْلِہٖ‘
اور ان کو کیا برا لگا یہی ناں کہ ان کو دولت مند کر دیا اور اللہ اور اللہ کے رسول نے اپنے فضل سے۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ابن جمیل نے زکوٰۃ دینے میں کمی کی تو سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وماینقم ابن جمیل الاانہ کان فقیرا فاغناہ اللّٰہ ورسولہٗ
یعنی ابن جمیل کو کیا برا لگ رہا ہے یہی ناں کہ وہ پہلے مفلس ومحتاج کنگال تھا پھر اللہ اور اس کے رسول نے اسے مالدار بنا دیا۔ دیکھو قرآن وحدیث میں دولت مند بنا دینے کی نسبت ایک ساتھ اللہ ورسول کی طرف کی گئی ہے۔ اگرچہ وہابیوں کے جھوٹے مذہب میں ایسی نسبت جائز نہیں بلکہ شرک ہے مگر شریعت اسلامیہ میں قطعی جائز اور حق ہے کیونکہ غناء (محتاجوں کو مالدار بنا دینا) کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف مانی جائے گی نو اس سے مراد اغناء حقیقی ذاتی مستقل ہو گی‘ اور جب حضور کی طرف مانی جائے گی تو اس سے مراد اغناء عطائی تابع ہو گی۔ اب زید سے پوچھو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ غنی بنا دینے میں رسول کو بھی ملایا تو شرک ہوا یا نہیں اور خدا کی وحدانیت کے خلاف ہوا یا نہیں۔ اگر کہے شرک ہوا تو وہ کھلم کھلا کافر اور دیو کابندہ ہو گیا اور اگر کہے کہ شرک نہیں تو اس سے کہو کہ اللہ اور رسول چاہیں یہ بولنا کیوں کرشرک ہے؟ یہ حقیقت پوست برکندہ ہے کہ وہابیوں کے بڑے بڑے ملاشان الٰہی کے پہچان سے قطعی جاہل ہیں اور نرے بزاخفش ہیں۔ ان کو کوت، و، ح، ی، د کے صرف پانچ حروف رٹا دیئے گئے ہیں۔ باقی اس کے معنی اور مفہوم کی انہیں بالکل خبر نہیں ان کویہ پتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس غیرمتناہی ہے اس کی صفات کی گنتی غیرمتناہی ہے اس کی ہرصفت یہاں تک کہ گھاس کے صرف ایک تنکے کے بارے میں اس کا جو علم ہے وہ بھی غیرمتناہی ہے اس کی قدرت غیرمتناہی ہے ان ملاؤں کو رب العٰلمین جل جلالہ کی پہچان ہی نصیب نہیں۔ اسی لئے سنی مسلمان علماء بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کی تعلیم کی بدولت سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام ماکان و مایکون (جو کچھ ہوا اور قیامت تک جو کچھ ہوتا رہے گا) کا علم حاصل ہے‘ اور اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کا غیب جاننے پر قابو دیا ہے کہ پیارے نبی جب چاہیں زمین و آسمان، عرش، کرسی، لوح و قلم کا غیب دریافت کرلیں تو بس وہابی ملا فوراً شور مچاتے ہیں کہ دیکھو لوگو رسول کو خدا کے برابر کر دیا‘ اور جب سنی علماء سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ تمام ماکان ومایکون کا علم پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم عظیم کا ایک قطرہ ہے تو اتنا سنتے ہی وہابی ملا کو غشی آ جاتی ہے‘ اور بدحواسی کے عالم میں وہ جل اٹھتے ہیں کہ ارے لوگو! سنیوں نے رسول کا مرتبہ خدا سے بھی بڑھا دیا۔ معاذ اللہ رب العٰلمین۔ بات یہ ہے کہ وہابی حضرات جس خدا کی جھوٹی توحید کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ ان کے نزدیک گھٹیا درجہ کا ہے تو جب سنی حضرات اپنے سچے خدا کے رسول کا مرتبہ بے پایاں بیان کرتے ہیں تو وہابیوں کو اپنا وہمی خدا گھٹیا اور چھوٹا نظر آنے لگتا ہے‘ اسی لئے وہ شور مچاتے اور بطور اعتراض کہتے ہیں کہ رسول کا مرتبہ خدا سے بڑھا دیا۔ او ظالم وہابیو! خداتعالیٰ کا علم غیرمتناہی ہے‘ اور رسول پاک کا علم متناہی ہے‘ اور خدا سے رسول کا مرتبہ کیسے بڑھ سکتا ہے او توحید کے جھوٹے پجاریو! تم ایسے کو کیوں خدا مانتے ہو جو مسلمانوں کے سچے رسول کے مرتبہ کے سامنے گھٹیا درجہ رکھتا ہے۔ تم اس ذات واجب الوجود کو خدا مانو جو سرکار مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کا خالق و مالک ہے جس نے پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہان کے لئے رحمت بنایا اور سارے جہان والوں کو سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج اور نیاز مند قرار دیا جس نے پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا علم عظیم عطا فرمایا کہ جس کی وسعت کے سامنے ساری کائنات جمیع ماکان و مایکون کا علم ایک قطرہ ہے۔ جو وحدہ لاشریک لہ ہے جس کی کسی شان کسی صفت میں کوئی شریک نہیں۔ جس کا علم غیرمتناہی در غیرمتناہی در غیرمتناہی ہے جس کاصرف وہ علم جو ایک ذرہ کے بارے میں ہے وہ بھی غیرمتناہی ہے‘ اور بھاری ہے۔ سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس علم عظیم پر جو کروڑوں سمندروں کی وسعت سے لاکھوں درجہ بڑا ہے‘ اور اتنا بڑا ہے کہ مخلوقات میں سے کوئی بھی شخص اس کی گہرائی اور پھیلاؤ کو ناپ نہیں سکتا۔ اگر مسلمان بن کر دنیا سے جانا چاہتے ہو تو وہابیت سے توبہ کر کے خداتعالیٰ پر اس طرح ایمان لاؤ جس طرح سنی مسلمان اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا اب بھی سنیوں پر رسول پاک کو خداتعالیٰ سے بڑھا دینے کا اتہام رکھو گے؟ ہیہات ہیہات مولیٰ تعالیٰ تمہیں توبہ کی دولت عطا فرمائے۔
جواب نمبر دوم:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
: وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ
یعنی آسمان و زمین کی ساری چیزوں کا (اکیلا مستقل) مالک اللہ ہی ہے۔ دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
: قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ ی
یعنی (اے پیارے مصطفیٰ بارگاہِ الٰہی میں) عرض کرو: اے اللہ! ملک کے (مستقل) مالک تو جسے چاہتا ہے ملک عطا فرماتا ہے۔ قرآن شریف میں تیسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا کَانَ عَطَآئُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا ژ
یعنی تیرے رب کی عطا پر کوئی روک نہیں۔ چوتھی جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ
یعنی اور لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جن پر چاہے قابو اور قبضہ دیتا ہے۔ پانچویں جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
: وَقَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْo
یعنی کہا اس شخص(آصف بن برخیا) نے جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا کہ (اے حضرت سلیمان علیہ السلام) میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے تخت (بلقیس، کو یمن سے یہاں) آپ کی خدمت میں لاؤں گا پھر جب حضرت سلیمان علیہ اسلام نے تخت اپنے پاس حاضر پایا تو فرمایا کہ میرے رب کا کرم ہے۔ حضور پرنور سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
: لوشئت لسارت معی جبال الذھب
(مشکوٰۃ شریف)
یعنی اگر میں چاہوں تو میرے اردگرد سونے کے کئی پہاڑ چلیں۔ سرکار غوث اعظم جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ اپنے قصیدۂ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں:
فلو القیت سری فی بحار
لصار الکل غورا فی الزوال
فلو القیت سری فوق میت
لقام بقدرۃ المولیٰ تعالیٰ
یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام قطبوں پر حاکم اور ان کا والی بنایا ہے اس لئے میرا حکم ہر حال میں جاری اور نافذ ہے۔ پھر میں اگر اپنا راز سمندروں میں ڈال دوں تو ضرور سب کے سب خشک ہو کر ختم ہو جائیں گے اور اگر میں اپنا راز کسی مردہ پر ڈال دوں تو ضرور وہ قدرت الٰہی جل جلالہ سے زندہ ہو جائے گا۔
اب مذکورہ بالا آیات مقدسہ اور اقوال مبارکہ کے نتائج سنیے۔ پہلی آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ ہر چیز کا تنہا مستقل مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کی یہ ملکیت ذاتی استقلالی ہے اس کا غیر خدا کے لئے ہونا محال ہے‘ اور جو غیر کے لئے مانے وہ مشرک اور کافر ہے۔ دوسری آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جس بندے کو چاہے پوری زمین عطا فرما کر اس کا مالک بنا دے یا سارے آسمان کی حکومت دے دے یا جس بندہ کو چاہے زمین و آسمان کی سلطنت عطا فرما کر اس کو دونوں جہاں کا مالک بنا دے کیونکہ اس کی عطا کے لئے نہ کوئی حد ہے کہ اس کے بعد عطا نہیں فرما سکتا اور نہ عطا فرمانے میں اس کے لئے کچھ مجبوری ہے کیونکہ اس کی شان ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٍo
یعنی اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ چوتھی آیت کریمہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اختیار و اقتدار عطا فرمایا ہے۔ پانچویں آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ کو ایسا اقتدار عظیم عطا فرمایا تھا کہ انہوں نے ایک سکنڈ سے بھی کم مدت میں حضرت بلقیس کا شاہی بھاری بھرکم تخت یمن سے لا کر ملک شام میں حضرت سیّدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار میں موجود کر دیا‘ اور خود دربار سے ایک منٹ کے لئے بھی غائب نہیں ہوئے۔ مشکوٰۃ شریف سے نقل کردہ حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اقتدار و اختیار عطافرمایا ہے کہ سرکار زمین کی تہ سے سونے کے بہت سے پہاڑ نکال کر ان کو اپنے ساتھ ساتھ چلائیں۔
قصیدہ غوثیہ سے اشعار مذکورہ بالا سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سرکار غوث اعظم محبوب سبحانی سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو تمام جہاں کے اقطاب کا والی بنایا ہے کہ سرکار غوث اعظم جس کو چاہیں قطبیت کی کرسی پر بٹھائیں‘ اور جس کو چاہیں قطبیت کے تخت سے اتار کر نیچے کر دیں‘ اور اللہ تعالیٰ نے سرکار غوث اعظم کو متصرف بنایا ہے کہ سرکار جو کچھ چاہیں زمین و آسمان میں تصرف کریں اور جس مردے کو چاہیں باذن الٰہی زندہ کر دیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابنیاء اور اولیاء کو بہت کچھ اختیار عطا فرمایا ہے۔ ان حضرات نے باذن الٰہی جو چاہا کیا اور آئندہ جو چاہیں گے کریں گے۔ کووں کی کائیں اور کاؤں سے ان حضرات کا اختیار سلب نہیں قرار پا سکتا۔ وہابیوں میں نہ کوئی ولی ہو اور نہ ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی اندھی عقیدت کے باعث عام دیوبندی وہابیوں نے اپنے گرو ملا رشید احمد کو بہت بڑا ولی تسلیم کیا ہے۔ اب سنو وہابی حضرات ملا گنگوہی جی کے بارے میں کیا بکتے ہیں۔ ہندوستانی وہابیوں کے شیخ الہنود محمود الحسن دیوبندی صاحب گنگوہی جی کی تعریف میں لکھتے ہیں:
مردوں کو زندہ کیا اور زندوں کو مرنے نہ دیا
اس مسیحائی کو دیکھیں ذرا ابن مریم
نہ رکا پر نہ رکا پر نہ رکا پر نہ رکا
اس کا جو حکم تھا تھا سیف قضائے مبرم
پہلے شعر میں حضرت سیّدنا عیسیٰ کلمتہ اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں بدتمیزی کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ گنگوہی ملا نے بہت سے مردے زندہ کئے لیکن مردہ کو زندہ کرنا یہ ایک ایسا تصرف ہے جو وہابی دھرم میں غیرخدا کو حاصل نہیں لہٰذا وہابی جواب دیں کہ خدا کا تصرف گنگوہی کے لئے ماننا شرک ہے یا نہیں؟ اور گنگوہی کی اس طرح تعریف کرنے والا مشرک ہو گیا یا نہیں؟ اور سنو! خداتعالیٰ کے حکم اور فیصلے کو قضائے مبرم کہتے ہیں۔
اور دوسرے شعر میں گنگوہی کے حکم کو قضائے مبرم کہا گیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ وہابی لوگ اپنے گرو ملا گنگوہی کو یا تو خدا مانتے ہیں یا خدا کا شریک سمجھتے ہیں۔ معاذ اللہ رب العالمین۔ اب خود گنگوہی جی کا حال سنو!
دیوبندیوں کے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی اپنی تصنیف ’’تذکرۃ الرشید‘‘ حصہ اوّل ص ۸ میں گنگوہی جی کا انگریزوں کے بارے میں جو اعتقاد تھا اس کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں (گنگوہی) جب حقیقت میں (انگریز) سرکار کا فرمانبردار رہا ہوں تو جھوٹے الزام (بغاوت) سے میرا بال بھی بیکا نہ ہو گا اور اگر (میں گنگوہی جان سے) مارا بھی گیا تو سرکار (انگریز) مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔ معاذ اللہ رب العالمین۔ اوبد نصیب وہابیو! عبرت پکڑو اور آنکھیں کھولو دیکھو جھوٹی توحید کا علمبردار اعظم جب انگریز گورنمنٹ سے بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوا تو اس کو یہ سبق یاد نہیں رہ گیا کہ خداتعالیٰ ہی مالک و مختار ہے۔ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے وہی جو چاہے کرے بلکہ وہ انگریز سرکار کومالک و مختار مان رہا ہے‘ اور اپنی جان کا مالک انگریزوں کوقرار دے رہا ہے‘ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کا عقیدہ ہے کہ انگریز جو چاہیں کریں یعنی گنگوہی کو مار ڈالیں یا زندہ رکھیں۔ وہ مالک و مختار ہیں ان پر کوئی اعتراض نہیں۔ سب وہابی مل کر جواب دیں کہ انگریزوں کو اپنی جان کا مالک و مختار ماننا یہ عقیدہ شرک ہے یا نہیں؟ اور گنگوہی مشرک ہوا یا نہیں؟ لاؤ تم لوگ ایسی کوڑی جس سے گنگوہی کا گلا کفر وشرک کے شکنجے سے باہر آ جائے۔
جواب نمبر سوم:
اللہ تعالیٰ پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا
یعنی اے پیارے مصطفیٰ تمہیں جو باتیں معلوم نہ تھیں اللہ نے ان سب کا علم تمہیں عطا فرمایا اور تم پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہیژ ترمذی شریف میں سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
فتجلی لی کل شیء وعرفت
یعنی (اللہ تعالیٰ کے اپنے دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھنے کے بعد) میرے لئے (کائنات کی) ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز الگ الگ پہچان لی۔ مسلم شریف جلد ثانی میں حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
فاخبر بما کان وبما ھو کائن الی یوم القیامۃ فاعلمنا احفظلنا۔
یعنی سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم حاضرین مجلس کو ان تمام چیزوں سے جو ہو چکیں اور ان تمام باتوں سے جو قیامت تک ہوتی رہیں گی‘ سب سے آگاہ فرما دیا اب ہم لوگوں میں بہت بڑا عالم وہ ہے جس کو سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے واقعات بہت زیادہ یاد ہوں۔ اس حدیث شریف میں کھلے طور پر ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بہ تعلیم الٰہی جمیع ماکان ومایکون کے عالم ہیں‘ اور حضور نے صحابہ کو بھی ماکان ومایکون سے آگاہ فرمایا پھر ماکان ومایکون کی تکمیل تعلیم سے پہلے اگر حضور کے علم میں فلاں واقعہ نہ ہو تو اب تکمیل تعلیم کے بعد حضور کے علم کی نفی اور نفی ثابت کرنے کے لئے اس فلاں واقعہ کو پیش کرنا کھلی ہوئی شیطانیت اور دیو کی بندگی ہے پھر کسی چیز کو بنانے کے لئے تو خود اس چیز کا علم لازم ہے لیکن کسی چیز کو بنانے کے لئے تو خود بنانا ہرگز لازم نہیں۔ کفار مکہ نے بارہا پوچھا کہ قیامت کب آئے گی مگر اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا تو کیا کوئی ملعون دیو کا بندہ یہ کہہ سکتا ہے کہ قیامت کا وقت خداتعالیٰ کو معلوم نہ تھا۔ نعوذباللّٰہ تعالٰی من ذٰلک۔ لیکن بھینس جیسا موٹا دماغ رکھنے والے وہابی یہی جملہ ہمیشہ دہراتے رہتے ہیں کہ رسول کو فلاں بات معلوم نہیں اگر معلوم ہوتی تو فوراً بتا دیتے۔ اچھا وہابیو! ہم فیصلہ کئے دیتے ہیں کہ تم پتھر جیسے مجبور اور جاہل کو اپنا رسول مانو اور ہم تو اس کو رسول مانتے ہیں جو ساری کائنات میں سب سے زیادہ بااختیار ہے‘ اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سارے عالم کے غیبوں کو شہادت بنا دیا ہے۔ سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
فضل خدا سے غب شہادت ہوا انہیں
اس پر شہادت آیت و وحی و اثر کی ہے
جواب نمبر چہارم:
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ
عنی حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَلَا وَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ی
عنی پیارے مصطفیٰ تمہارے رب کی قسم! وہ لوگ ہرگز مومن قرار نہیں پائیں گے جب تک اپنے آپس کے نزاعی معاملات میں تمہیں حاکم نہ مان لیں۔ سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے حکم دینے اور چلانے کے لئے بھیجا ہی ہے پھر وہابی کیوں دن دوپہر زندہ مکھیاں نگل رہا ہے جو اس نے یہ بک دیا کہ معاذ اللہ صحابی نے شرک کرنے کی اجازت مانگی تو حضور نے جواب دیا کہ مجھے اللہ کا شریک نہ بناؤ۔ کیا وہابیوں کے نزدیک حضور سے حکم مانگنا بھی شرک ہے۔ او اندھے وہابی! کسی کام کے جائز ہونے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ اس کا جائز ہونا صراحتاً قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہو۔ بے شک قرآن مجید میں: اَغْنَاھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ آیا ہے۔ شرع کے نزدیک جو شان اغناء کی ہے وہی شان مشیت کی بھی ہے تو اگر اغناء الٰہی کے ساتھ اغناء رسول کا ذکر شامل کرنا شرک نہیں تو مشیت الٰہی کے ساتھ مشیت رسول کا ذکر ملانا بھی ہرگز شرک نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید میں ان شاء الرسول کا کلمہ نہیں آیا لیکن حدیث شریف میں تو آیا ہے۔ ماشاء اللّٰہ ثم ماشاء اللّٰہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بفضلہ تعالیٰ سمجھا سکتے ہیں لیکن دیو کے بندوں کو ایمان کی واقعی باتیں سمجھنے کے لئے دل ہی نہیں ملا۔ اس لئے ہم ان کو کس طرح سمجھائیں بس خداتعالیٰ ہی توفیق عطا فرمائے کہ وہابی قرآن اور حدیث کی بات سمجھ سکیں۔
وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
جواب نمبر پنجم:
بکر کا کہنا ٹھیک ہے مذکورہ بالا شعر میں رسالت کی کوئی توہین نہیں عمرو سے اس کے بیان کی وضاحت طلب کی جائے۔
واللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ اعلم جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ:
بدرالدین احمد القادری الرضوی
۱۶؍ من ربیع الاول ۱۳۹۳ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۳/۲۲/۲۱/۲۰/۱۹/۱۸/۱۷/۱۶/۱۵/۱۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند