خطبہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہئے؟ مسجد کے اندر اذان کہنا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں پورے ہندوستان میں اذان اندر ہوتی ہے یہ رائے عام اور سارے علماء کا اجماع ہے اور اتفاق ہے لہٰذا اندر ہونی چاہئے اس مسئلہ کے متعلق امام اعظم رضی اللہ عنہ کے قول پر حکم صادر فرمائیں۔
عربی خطبہ میں اردو اشعار پڑھنا کیسا ہے؟
تکبیر میں حی علی الفلاح پر کھڑے ہونا کیسا ہے؟
مسئلہ: منجانب مسلمانانِ کو ٹھیا شریف ڈاکخانہ کانٹی ضلع مظفرپور (بہار)
اول(۱) خطبہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہئے؟ مسجد کے اندر اذان کہنا کیسا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں پورے ہندوستان میں اذان اندر ہوتی ہے یہ رائے عام اور سارے علماء کا اجماع ہے اور اتفاق ہے لہٰذا اندر ہونی چاہئے اس مسئلہ کے متعلق امام اعظم رضی اللہ عنہ کے قول پر حکم صادر فرمائیں۔ حدیث اور کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے‘ اور حدیث کی کتاب دکھائی جاتی ہے تو جاننے والے کہتے ہیں ہم اس بات کو نہیں مانیں گے میرے خاندان میں ہوتا آ رہا ہے۔ مسجد کے باہر اذان ہونا نئی بات ہے۔ نہ ماننے والو ںپر اسلام کا کیا حکم ہے؟
دوم(۲) عربی خطبہ میں اردو اشعار پڑھنا کیسا ہے امام صاحب سے اسی بات پر گفتگو ہوئی کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کو پڑھنا ہو گا امام صاحب کہتے ہیں کہ ہم نہیں پڑھیں گے یہ خلاف سنت متوارثہ ہے لہٰذا عربی خطبہ میں اردو اشعار پڑھنا کیسا ہے جیسا کہ خطبۂ علمی میں ہے یہ اردو اشعار نہ پڑھنے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے جمعہ اپنے مکان میں قائم کر لیا ہے ان کے جمعہ قائم کرنے سے جمعہ کی نماز ہو جائے گی۔ اس جگہ نماز پڑھنا کیسا ہے‘ اور مسجد کو اسی بات پر چھوڑ کر الگ جمعہ قائم کر لیا ہے ایسے لوگوں پر اسلام کا کیا حکم ہے؟
سوم(۳)تکبیر میں حی علی الفلا پر کھڑے ہوتے ہیں پہلے سے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں مکبر حی الفلا پر پہنچتا ہے تو لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس کا ثبوت نہیں ہے شروع سے کھڑا ہونا چاہیے اس کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے اس کا ثبوت کیا ہے
الجواب: (۱) خطبہ کی اذان مسجد کے اندر پڑھنا مکروہ و منع ہے‘ اور اذانوں کی طرح یہ اذان بھی مسجد کے باہر ہی ہونی چاہئے کہ یہی سنت ہے جیسا کہ حدیث کی معتبر کتاب ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۶۲ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر۔
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں‘ اور بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۸ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان پڑھنا منع ہے‘ اور فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۹ میں ہے: قالوا لایؤذن فی المسجد یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۲۱۷ میں ہے: یکرہ ان یؤذن فی المسجد کھا فی القھستانی عن النظم یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے‘ اور یہ کہنا غلط ہے کہ پورے ہندوستان میں اذان اندر ہوتی ہے اس لئے کہ ہندوستان کی بے شمار مسجدوں میں خطبہ کی اذان باہر ہوتی ہے‘ اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اندر اذان ہونے پر سارے علماء کا اجماع و اتفاق ہے اس لئے کہ حدیث شریف اور فقہائے کرام کی تصریح کے ہوتے ہوئے کبھی بھی اندر اذان ہونے پر سارے علماء کا اتفاق نہیں ہوسکتا اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا قول مسجد کے اندر اذان ہونے کے بارے میں ہرگز منقول نہیں لہٰذا ان کا مسلک حدیث شریف اور فقہائے کرام کے اقوال کے مطابق ہی ہے جو لوگ حدیث وفقہ کے ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے غلط طریقہ کو مانتے ہیں مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے دور رہنا لازم ہے کہ وہ لوگ گمراہ نہیں تو جاہل ہیں اور جاہل نہیں تو گمراہ ہیں‘ اور مسجد کے اندر اذان ہونا نئی بات ہے باہر ہونا نئی بات نہیں ہے اس لئے کہ وہ حدیث شریف سے ثابت ہے۔ وھو تعالٰی اعلم۔
دوم(۲) امام صاحب صحیح کہتے ہیں بے شک جمعہ کے خطبہ میں اردو اشعار پڑھنا سنت متوارثہ کے خلاف اور مکروہ ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری زمانۂ مبارکہ سے صحابۂ کرام تابعین عظام اور ائمہ اعلام کے عہد تک تمام قرون و طبقات میں جمعہ و عیدین کے خطبے ہمیشہ خالص عربی زبان میں مذکور و ماثور۔ حالانکہ بحمد اللہ تعالیٰ زمانۂ صحابہ میں اسلام سیکڑوں عجمی شہروں میں شائع ہوا جمعے قائم ہوئے مگر تحقیق حاجت کے باوجود کبھی عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ فرمانا یا دونوں زبانیں ملانا صحابہ کرام سے مروی نہ ہوا۔ اگر لوگ اردو اشعار سننے کے لئے بضد ہیں تو امام کو چاہتے کہ رفع فتنہ کے لئے خطبہ کی اذان سے پہلے لوگوں کو اردو اشعار پڑھ کر سنا دے پھر اذان کے بعد خالص عربی زبان میں خطبہ پڑھے۔ خطبۂ جمعہ میں اردو اشعار پڑھنے کے سبب جن لوگوں نے دوسرا جمعہ قائم کر لیا وہ یا تو جاہل گنوار ہیں اور یا گمراہ۔ خداتعالیٰ ہدایت فرمائے اور دیہات میں نیا جمعہ قائم کرنا غلط ہے کہ وہاں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں البتہ جہاں سے قائم ہو وہاں بند نہ کیا جائے کہ وہاں جس طرح بھی عوام اللہ ورسولہٗ کا نام لیں غنیمت ہے۔
ھٰکذا قال الامام احمد رضا البریلوی رضی اللہ عنہ۔ وھو تعالٰی اعلم
سوم(۳) تکبیر کے وقت بیٹھنے کا حکم ہے کھڑا رہنا مکروہ و منع ہے پھر جب تکبیر کہنے والا حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھنا چاہئے فتاویٰ عالمگیری، درمختار، شامی، شرع وقایہ، عمدۃ الرعایہ، مراقی الفلاح، طحطاوی علی مراقی، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، اشعۃ اللمعات، مظاہر حق، مالابدمنہ، اور بہار شریعت وغیرہ تمام کتب معتبرہ میں یہ مسئلہ اسی طرح مذکور ہے یہاں تک کہ حدیث کی مشہور کتاب مؤطا امام حمد باب تسویۃ الصف ص ۸۸ میں ہے:
: قال محمد ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقوموا الی الصلوٰۃ فیصفوا ویسووا الصفوف۔
یعنی محرر مذہب حنفی حضرت امام محمد شیبانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ نماز کے لئے کھڑے ہوں اور صف بندی کرتے ہوئے صفوں کو سیدھی کریں۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۳۰؍ محرم الحرام ۱۴۰۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۱۶/۲۱۵/۲۱۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند