خفیہ حقائق،غداریاں اور فلسطین

خفیہ حقائق،غداریاں اور فلسطین

اول(1)یہود ونصاری،بلکہ تمام غیر مسلم اقوام ہی مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔

کافر ہر فرد وفرقہ دشمن ما را
مرتد مشرک یہود وگیر وترسا

دوم(2)عظیم سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا وجود ہمیشہ یورپ کے یہود ونصاری کو کھٹکتا رہا۔پہلی جنگ عظیم(1914-1918)میں سلطنت عثمانیہ ترکیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا،حالاں کہ سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو اس جنگ سے الگ رہنا چاہیے۔ممکن ہے کہ یوروپین ممالک کے زر خرید مشیروں نے سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو جرمنی کا ساتھ دینےکا مشورہ دیا ہو،تاکہ یورپ کے اتحادی ممالک سلطنت عثمانیہ کونیست ونابود کر سکیں،کیوں کہ عرب دنیا اور سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے زیر اقتدار علاقوں میں یہود ونصاری سلطنت عثمانیہ کے بہت سے غدار تلاش کر چکے تھے۔
پھر ایسا ہی ہوا کہ سلطنت عثمانیہ ترکیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا اور جرمنی کو شکست ہوئی اور سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے غداروں نے داخلی انتشار پھیلایا،سلطنت عثمانیہ ترکیہ سے غداری کی اور عرب ممالک اور دیگر بہت سے علاقوں پر سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا کنٹرول قائم نہیں رہ سکا۔یورپ کی اتحادی طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ ترکیہ سے الگ ہونے والے علاقوں کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کر دیا اور سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے غداروں کو ان ممالک کا اقتدار سونپ دیا۔وہ بظاہر مسلمان اور کلمہ گو ہیں،لیکن مسلمانوں کی بھلائی اور خیر خواہی نہیں کر سکتے،بلکہ اپنے آقاؤں کی وفاداری نبھائیں گے۔
یوروپین ممالک ان عرب علاقوں کو بھی چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کیا،تاکہ یہ ممالک کبھی طاقتور نہ ہو سکیں،نیز بعد میں کسی نے آنکھ دکھانے کی کوشش کی تو اسے کچل بھی دیا گیا۔
سوم(3)سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو نیست ونابود کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یوروپین سائنس دانوں نے یہ معلوم کر لیا تھا کہ مشرق وسطی اور عرب علاقوں میں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ان ذخائر پر اہل یوروپ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔اس کی صورت یہی تھی کہ سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا اقتدار ان علاقوں سے ختم کر دیا جائے۔
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ان علاقوں سے سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا اقتدار ختم ہو گیا اور اب ان علاقوں میں یوروپین ممالک کے غلام اور سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے غدار بر سر اقتدار آ چکے تھے،لیکن غدار کسی سے بھی غداری کر سکتا ہے،لہذا فلسطین کو یہودیوں کا مسکن بتا کر یہودیوں کو فلسطین میں بسایا جانے لگا اور پھر 1948 میں ایک یہودی ملک”اسرائیل”کے نام سے بنا دیا گیا۔اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیاروں کے ذریعہ مضبوط بنایا گیا،پھر کئی بار عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مقابلہ آرائی کئے اور ہار گئے۔
خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ غلام ممالک کو یہی پلان دیا گیا تھا کہ تمہیں اسرائیل سے ہار جانا ہے،تاکہ اسرائیل کی دہشت مشرق وسطی میں قائم ہو  جائے اور اسے ناقابل تسخیر سمجھا جائے اور مشرق وسطی یوروپین ممالک کے غلام بنے رہیں۔ان ممالک کے عوام شور وہنگامہ نہ کریں۔اگر یہ بات حقیقت ہے تو پھر عرب ممالک سو بار بھی اسرائیل سے جنگ لڑیں گے تو سو بار بھی جان بوجھ کر شکست کھائیں گے۔
مسلم ممالک میں موجود ملیشیا یعنی رضا کارانہ فوجی گروہ یوروپین ممالک کے غلام نہیں،لہذا وہ اہل یورپ کی بات نہیں مانیں گے اور یورپ وامریکہ ان فوجی گروہوں کو نیست ونابود کرنے کے واسطے کوشش کرتا رہے گا۔
چوں کہ فلسطین کی موجودہ فوجی جماعتیں یورپ وامریکہ کے زیر اثر نہیں ہیں،لہذا وہ مکمل کوشش میں ہیں کہ اسرائیل کو شکست دی جائے اور  سازش کے ذریعہ قائم کی جانے والی اسرائیل کی فوقیت وبرتری کو تہس نہس کر دیا جائے۔اس سے پہلے بھی حزب اللہ نے اسرائیل کی دادا گیری کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔
چہارم(4)او آئی سی اور عرب لیگ میں یورپ وامریکہ کے غلام ممالک شامل ہیں۔اگر اسرائیل کے خلاف کوئی تجویز آئے گی تو ہرگز اس پر اتفاق نہیں ہو سکے گا۔چند ممالک مخالفت کریں گے،تاکہ تجویز پاس نہ ہو سکے۔
سازشی انداز میں اکثر ممالک ان تجاویز کے حق میں ہوں گے،تاکہ عوام کو غلام ممالک کی گہری سازش کا علم نہ ہو سکے۔

پنجم(5)پہلی جنگ عظیم کے وقت جب سلطنت عثمانیہ ترکیہ کو شکست ہوئی تو برطانیہ نے 1917 میں فلسطین کو اپنی تحویل میں لے لیا۔فلسطین کسی غدار کو نہیں دیا گیا،کیوں کہ یوروپین ممالک فلسطین میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے تھے۔1948 میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ایک حصہ یہودیوں کو دیا گیا اور ایک حصہ فلسطینی مسلمانوں کو دیا گیا۔اس کے بعد اسرائیل نے رفتہ رفتہ فلسطین کے دیگر حصوں پر بھی قبضہ کر لیا۔اب غزہ پٹی اور ویسٹ بینک فلسطین میں ہے اور دیگر سارے علاقے اسرائیل میں شامل ہیں۔

طارق انور مصباحی
جاری کردہ:18:نومبر 2023

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top