داڑھی کی شرعی حیثیت ائمۂ اربعہ و متبعین کے اقوال کی روشنی میں
DADHI KI SHARA,I HAISIYAT AIMMAYE ARBA W MUTTABA,EEN KE AQWAAL KI ROSHNI MEN
दाढ़ी की शरई हैसियत अइम्मये अरबा व मुत्तबईन के अक़्वाल की रोशनी में
ائمۂ اربعہ کے درمیان داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے اس کے متعلق مکمل رہنمائی فرمائیں کرم نوازش ہو گی۔
(سائل:محمد اویس رضوی صاحب یو پی الھند)
اعفاء اللحیۃ یعنی داڑھی بڑھانا شریعت میں ایک امر مطلوب ہے ۔اور داڑھی بڑھانے کے مطالبہ کے بارے میں امت مسلمہ میں کوئی اختلاف نہیں ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ شریعت مطہرہ میں داڑھی بڑھانے کا مطالبہ وارد ہے ۔لیکن بعض فقہا نے داڑھی بڑھانے کی حد مقرر کی جب کہ بعض نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی ۔ چنانچہ محقق مذہب بلا نزاع، ولی اللہ بلا دفاع قطب الاقطاب محی السنہ ثانی شافعی، محرر مذہب ابو زکریا امام یحی بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
وقد اختلف السلف هل لذلك حد؟ فمنهم من لم يحدد شيئا في ذلك إلا انه لا يتركها لحد الشهرة ويأخذ منها، وکره مالک طولها جدا، ومنهم من حدد بما زاد على القبضة فيزال، ومنهم من كره الأخذ منها إلا في حج أو عمرة۔۔۔۔۔۔۔۔۔والمختار ترك اللحية على حالها وألا يتعرض لها بتقصير شيء
اصلا۔
یعنی: متقدمین کا اس میں اختلاف ہے کہ داڑھی کاٹنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟ بعض علما نے داڑھی کی بالکل حد مقرر نہیں فرمائی ۔البتہ داڑھی کو اس طرح نہ چھوڑ دیا جائے جس سے وہ بری معلوم ہو لہذا اس کو کاٹ کر کم کر لے ۔ امام مالک نے داڑھی کے بہت زیادہ بڑھ جانے کو مکروہ کہا ہے اور بعض علما نے داڑھی کی حد مقرر فرمائی کہ داڑھی قبضہ سے زیادہ ہوتو اس کو کاٹ کر کم کر دیا جائے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ حج اور عمرہ کے موقع کے سوا داڑھی کو کاٹنا مکروہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معتمد یہ ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور بالکل نہ کاٹا جائے۔
(شرح مسلم : ۱۵۱/۳)
داڑھی بڑھانے کی حد مقرر کرنے والے علمائے دین بھی کسی ایک رائے پر متفق نہیں ہوئے بلکہ مختلف علمائے کرام نے اعفاء اللحیہ کی مختلف حدیں پیش کیں ۔
(۱) بعض علمائے کرام فرماتے ہیں: والإعفاء تركها حتى تكث وتكثر والسنة قدر القبضة فمازاد قطعه۔
یعنی: اعفا کہتے ہیں داڑھی کو بڑھانا حتی کہ گھنی اور زیادہ ہو جائے اور سنت میں یہ ہے کہ ایک مشت ہو اور جو ایک مشت سے زیادہ ہو اسے کاٹ دیا جائے ۔
(کنز الدقائق: ۵۵/۲)
(۲) شارح بخاری علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ:
ان معنى ذلك(الاعفاء) عندى ما لم يخرج من عرف الناس۔
یعنی: میرے نزدیک اعفا کا معنی یہ ہے کہ عرف کے مطابق ہو۔
(عمدۃ القاری: ۴۷/۲۲)
(۳) بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ اعفاءاللحیۃ کی حد قبضہ یعنی ایک مشت ہے۔
( عمدة القاری: ۴۶/۲۲)
یوں ہی اعفاء اللحیہ کے شرعی حکم میں بھی علمائے کرام کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔ بعض علما نے اعفاء اللحیۃ کو واجب قرار دیا ہے اور بعض نے سنت قرار دیا۔ احناف کے علماء کرام نے اعفاء اللحیۃ کو ایک مشت واجب قرار دیا ہے۔
جیسا کہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ ابن عمر کا وہ اثر روایت کرتے ہیں جو امام بخاری و امام مالک وغیرہ نے روایت کیا ہے ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ (امام ابوحنیفہ ) حدیث اعفاء لحیہ کا مفہوم وہی سمجھتے ہیں جو راوی حدیث حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ سمجھتے ہیں ، امام ابوحنیفہ نے یہ اثر ہیثم سے روایت کیا ہے کہ ابن عمر اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور مٹی کے نیچے کے بال کاٹ لیتے۔
(جامع المسانید،ج:۳،ص:۳۰۹)
امام محمد کتاب الآثار میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا مذکورہ اثر نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وبه نأخذ وهو قول أبي حنيفة رحمة الله عليه۔
یعنی:ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے ۔
(کتاب الآثار مترجم،ص:۳۶۴)
اس سے معلوم ہوا کہ امام محمد اور امام یوسف بھی اس کے قائل ہیں ۔
ایک اور روایت امام ابوحنیفہ سے اس سے متعلق موجود ہے :
أبو حنيفة عن الهيثم عن رجل أن أبا قحافة أتى النبي صلی اللہ علیہ وسلم و لحیتہ قد انتشرت ، وقال : لو أخذتم و أشار بيده الى نواحي لحيته۔
یعنی:امام ابو حنیفہ ہیثم سے وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ابو قحافہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو ان کی داڑھی بکھری ہوئی تھی ، راوی کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ کاش تم کاٹ لیتے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے ان کی داڑھی کے ارد گرد اشارہ کیا۔
(جامع المسانید۳۱۰،۳۰۹/۲)
یہ حدیث مرسل یا منقطع ہے لیکن اس سے اس کی حجیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اس لیے کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک ، اور اکثر تابعین کے نزدیک مرسل اور منقطع روایات قابل حجت ہیں۔
ملا علی قاری ( متوفی ۱۰۱۴ھ ) نے اس حدیث کا مفہوم شرح مسند ابی حنیفہ میں اس طرح بیان کیا ہے :
لو أخذتم نواحي لحيته طولاً وعرضاً وتركتم قدر المستحب، وهي مقدار القبضة وهي الحد المتوسط بين الطرفين المذمومين من و ارسالھا مطلقا من حلقها وقصها على وجه استئصال۔
یعنی:کاش تم داڑھی کے اطراف اور طول وعرض سے کاٹ دیتے اور مستحب کی مقدار چھوڑ دیتے اور مستحب کی مقدار ایک مشت ہے اور یہی متوسط حد ہے ، باعتبار دو مذموم صورتوں کے کہ اسے مطلق چھوڑ دیا جاۓ یا اسے منڈوادیا جاۓ یا جڑ سے کاٹ دیا جاۓ۔
(شرح مسند ابی حنیفة،ص:۴۱۳ -۴۱۴)
امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
و کذا یحرم علی الرجل قطع لحیۃ یعنی اور اسی طرح مرد کو اپنی داڑھی منڈانا حرام ہے۔
(کتاب الآثار،بحوالہ:داڑھی کی قدر و قیمت میرٹھ،ص:۲۱)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب الدرالمختار میں ہے:
أو تطويل اللحية اذا كانت بقدر المسنون وهو القبضة۔
یعنی:اور مکروہ نہیں ہے داڑھی کو دراز کرنا جب کہ وہ بقدر مسنون ہو اور وہ ایک مشت ہے۔
الدر المختار،ج:۲،ص:۴۱۷)
حدیث مرفوع اور ابن عمر کے فعل کے درمیان جو تضاد نظر آ تا ہے اس کی تطبیق صاحب فتح القدیر نے یوں دی ہے ۔
فأقل مافي الباب ان لم يحمل على النسخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔يحمل الاعفاء على اعفائها من أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، كما يشاهد في الهنود وبعض أجناس الفرنج فيقع بذلك الجمع بين الروايات، يؤيد ارادة هذا ما في مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي عليه الصلاة والسلام”جزوا الشوارب وأعفوا اللحى خالفوا المجوس“ فهذه الجملة واقعة موقع التعليل-
یعنی:حد سے حد اس سلسلے میں جبکہ اس حدیث کو منسوخ نہ قرار دیا جائے .. یہ ہے کہ بڑھانے کا مطلب بیشتر حصہ داڑھی کا یا کل داڑھی ترشوانے کی ممانعت ہے ، جیسا کہ عجم کے مجوسیوں کا طریقہ تھا کہ وہ اپنی داڑھیاں منڈ آیا کرتے تھے ، جیسے کہ ہنود اور بعض اقوام فرنگ کو کرتے دیکھا جا تا ہے ، تو اس توجیہ سے مختلف روایات کے درمیان تضاد رفع ہوجاتا ہے ، اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ کی حدیث’’ مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو‘ میں مجوسیوں کی مخالفت کرنے کا جو جملہ ہے وہ بھی اسی توجہیہ کی تائید کرتا ہے کیونکہ یہ جملہ تقلیل و توجہیہ کے طور پر آیا ہے۔
(فتح القدیر،ج:۲،ص:۷۷)
علامہ ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وامـا الاخـذ مـنـهـا وهي دون ذلـك كـمـا يفعلـه بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم يبحه احد –
ترجمہ: اور داڑھی کم کرنا در آنحالیکہ وہ اس ( قبضے) سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی اور مردوں میں سے ہجڑے کرتے ہیں۔اسے کسی نے بھی جائز نہیں کہا۔
(ج:۲،ص:۲۷۰)
اسی طرح علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
وامـا الاخـذ مـنـهـا وهي دون ذلك كـمـا يـفـعـل بعض المغاربة والمخنثة من الرجال فلم يبحه احد .
ترجمہ: اور داڑھی کم کرنا درآنحالیکہ وہ اس (قبضے سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی اور مردوں میں سے ہجڑے کرتے ہیں ۔اسے کسی نے بھی جائز نہیں کہا۔
(البحر الرائق،ج:۲،ص:۲۸۰)
اسی طرح علامہ حسن بن عمار شرنبلالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
واما الاخذ من اللحيه و هي دون القبضة كما يفعله بعض المغاربة فلم يبحه احد واخذ كلها فعل مجوس الاعاجم واليهود
والهنود و بعض اجناس الافرنج۔
ترجمہ : اور داڑھی کو کا شنا در آنحالیکہ وہ ایک مشت سے کم ہوجیسا کہ بعض مغاربہ کرتے ہوں کسی نے جائز نہیں کہا۔اور پوری ہی داڑھی کو کاٹ لینا عجمی یہودیوں اور ہندوؤں اور بعض فرنگیوں کا کام ہے۔
(حاشیہ الدرر والغرر،ج:۱،ص:۲۰۸،میر محمد کتب خانہ)
اسی طرح علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وامـا الاخـذ مـنـهـا وهـي دون ذلـك كـمـا يـفـعل بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه احد.
(ردالمختار،ج:۳،ص:۳۹۸)
علامہ سیداحم طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
والاخـذ مـن اللحية وهو من دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال لم يبحه احد واخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الاعاجم.
(حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص ۲۱ ۵ مکتبہ نور محمد اسح المتابع)
علامہ شلبی علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:
وامـا الاخـذ مـنهـا وهـي دون ذلـك كـمـا يـفـعـلـه بعض المغاربه ومخنثة الرجال فلم يبحه احد۔
(مکتبہ حقانیہ شلبی علی تبیین الحقائق، ج:۱،ص:۳۳۲)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’ گذاشتن آن بقدر قبضه واجب است و آنکه آنرا سنت گویند بمعني طريقه مسلوك دین ست یا بجهت آنکه ثبوت آن بسنت ست چنانکه نماز عیدرا سنت گفته اند ۔“
ترجمہ: ’’داڑھی ایک مشت کی مقدار رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت کہتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں حضور صلی الله تعالی علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے (حالانکہ وہ واجب ہے)۔‘‘
(اشعة اللمعات شرح مشکوة،ج: ۱، ص :۲۱۲،مکتبه :نوریه رضویہ ،سکھر)
امام اہلسنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت عبداللہ بن عمر و حضرت ابو ہریرہ و غیرہما صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے افعال و اقوال اور ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ و محرر مذہب امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ و عامہ کتب فقہ وحدیث کی تصریح سے اس کی حد یکمشت ہے، ابھی نصوص علماء سے گزرا کہ اس سے کم کرنا کسی
نے حلال نہ جانا۔‘‘
(فتاوی رضویه، ج: ۲۲، ص :۶۵۵، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
امام اہلسنت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
’’ داڑھی کا طول ایک مشت لیکن تھوڑی سے نیچے چارانگل چاہیے اس سے کم کرانا حرام ہے۔‘‘
(فتاوی رضویه، ج: ۲۲ ، ص :۶۰۶،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
ایک اور مقام پرفر مایا:
’’ ریش (داڑھی شریف) ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھناواجب ہے اس سے کمی ناجائز۔‘‘
( فتاوی رضويه ،ج :۲۲،ص :۵۸۱،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں ریش ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھنا واجب ہے اس سے کمی ناجائز داڑھی بقدر ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے حالانکہ وہ واجب ہے۔
(فتاوی رضویہ،جلد:۲۲صفحہ:۵۸۱)
پھر سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ عنہ نے اسی کو اختیار فرمایا اور عام کتب مذہب میں تصریح فرمائی کہ داڑھی میں سنت یہ ہی ہے کہ جب ایک مشت سے زائد ہو کم کر دی جائے بلکہ بعض اکابر نے واجب فرمایا اگرچہ ظاہر یہ ہی ہے کہ یہاں وجوب سے مراد ثبوت ہے نہ وجوب مصطلح۔
(فتاوی رضویہ،جلد:۲۲،صفحہ:۵۸۶)
مذکورہ بالا تفصیل سے یہی ثابت ہوتاہے کہ احناف کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی رکھنا واجب ہے۔
لہذا مسئلہ کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے فتاوی رضویہ جلد:۲۲میں ایک مکمل رسالہ موجود ہے صفحہ:۶۰۸سے آغاز ہے اس کا مطالعہ فرمائیں۔
اور رہی بات شافعی مسلک میں داڑھی کے متعلق تو یہ ہے کہ علماء شافعیہ کے نزدیک اعفاء اللحیہ سنت ہے۔اس بارے میں علماء شافعیہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔داڑھی کا منڈانا شافعی مذہب میں مکروہ ہے اور مکروہ سے مراد عند الشافعی مکروہ تنزیہی ہے ناکہ مکروہ تحریمی اسی پر فتوی دیا گیا ہے۔
نیز شافعی مسلک میں داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کو ترک کرنے والا یا اس کی عادت بنانے والا فاسق و فاجر نہ ہوگا اس کی تفصیل مندرجہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں
مسلک شافعی میں داڑھی مونڈانے کی حرمت میں اختلاف ہے بعض علماے کرام نے مونڈانے کو حرام کہا جب کہ بعض علماے کرام نے مکروہ تنزیہی قرار دیا۔ محرر مذہب امام نواوی، شیخ مذہب امام رافعی، خاتمة الحققین ابن حجر مکی ،امام شمس الدین محمد رملی ، امام احمد رملی ،شیخ خطیب شربینی ، حجۃ الاسلام امام غزالی ، شیخ الاسلام ذکریا انصاری ، شیخ سلیمان بجیرمی شیخ ابراہیم باجوری ، شیخ سلیمان جمل رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین جیسے جید علماے دین کا کہنا ہے کہ داڑھی مونڈانا مکروہ ہے۔ چنانچہ امام ابن جریمی مکی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا :
ذكروا هنا في اللحية ونحوها خصالا مكروهة منها نتفها وحلقها وكذا الحاجبان ولاينافيه قول الحليمي لا يحل ذلك لإمكان حمله على ان المراد نفي الحل المستوى الطرفين والنص على ما يوافقه إن كان بلفظ لا يحل يحمل علی ذلک او يحرم كان خلاف المعتمد۔
یعنی:فقہاے کرام نے اس جگہ ( یعنی عقیقہ کے باب میں ) ان عادتوں کو بیان فرمایا جو داڑھی وغیرہ میں مکروہ ہیں ۔ان عادتوں میں داڑھی کو اکھیٹرنا اور مونڈانا بھی شامل ہے ۔ یہی حکم دونوں ابروؤں کا ہے ۔اور علامہ حلیمی کا یہ قول کہ’’لا یحل ‘‘ داڑھی منڈانے اور اسے اکھیٹر نے کے مکروہ ہونے کے منافی نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ ان کے قول سے حلت مستوئ طرفین کی نفی مراد لی جائے اور اگر علامہ حلیمی کے قول ’’لا یحل ‘‘ کو حلت مستوئ طرفین کی نفی پر محمول کیا جائے تو وہ قول نصوص شافعیہ کے موافق ہوگا۔ اور اگر’’لا یحل ‘‘ کو حرام ہونے پر محمول کیا جائے تو وہ ’قول معتمد‘‘ کے خلاف ہوگا ۔
( تحفة المحتاج في شرح المنهاج:۹،ص:۳۷۶)
اور امام رملی صغیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
ويندب فرق الشعر وترجيله وتسريح اللحية، ويكره نتفها وحلقها ونتف الشيب۔ یعنی:بالوں میں مانگ نکالتا، کنگھی کرنا اور داڑھی میں کنگھی کرنا سنت ہے ۔ داڑھی اکھیٹرنا مونڈانا اور سفید بالوں کو اکھیٹرنا مکروہ ہے۔
(نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج :ج:۸،ص:۱۴۹)
اور اس سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں امام احمد رملی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نےفرمایا:
بان حلق لحية الرجل ونتفها مكروه لاحرام، وقول الحليمي في منهاجه لا يحل لاحد ان يحلق لحيته ولا حاجبيه ضعیف۔
یعنی:مرد کی داڑھی کو مونڈانا اور اسے اکھیڑنا مکروہ ہے حرام نہیں ۔ اور علامہ حلیمی کا اپنی کتاب ’’منھاج ‘‘ میں یہ کہنا کہ اپنی داڑھی اور ابروؤں کو منڈانا کسی کے لیے جائز نہیں‘‘یہ قول ضعیف ہے۔
(فتاوی الرملی،ج:۴،ص:۶۹)
اور مزید عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱) امام خطیب شربینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے منہاج کی شرح میں فرمایا:
ويكره نتف اللحية اول طلوعها۔
یعنی داڑھی جڑ سے اکھیٹرنا مکروہ ہے۔
(مغنی المحتاج :ج:۶،ص:۱۴۴)
(۲) شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
( و) يكره (نتفها ) اى اللحية
یعنی:داڑھی کو اکھیٹرنا مکروہ ہے ۔
(اسنی المطالب،ج:۱،ص:۵۵۱)
(۳) امام رملی کبیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اسنی المطالب کی شرح میں فرمایا : ( قوله ويكره نتفها)اى اللحية إلخ ومثله حلقها فقول الحليمي في منهاجه لا يحل لاحد ان يحلق لحيته، ولا حاجبيه ضعیف۔
یعنی:داڑھی کو اکھیٹرنا مکروہ ہے اسی طرح داڑھی کا مونڈانا بھی مکروہ ہے ۔ لہذا علامہ حلیمی نے اپنی کتاب’’ منہاج‘‘ میں جو یہ فرمایا کہ اپنی داڑھی اور ابروؤں کو منڈانا کسی کےلیے جائز نہیں یہ قول ضعیف ہے۔
(حاشیۃ اسنی المطالب،ج:۱،ص:۵۵۱)
(۴) شیخ سلیمان بجیری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
إن حلق اللحية مكروه حتى من الرجل وليس حراما۔
یعنی:داڑھی مونڈانا مکروہ ہے حتی کہ مردوں کے لیے بھی اور داڑھی مونڈانا حرام نہیں۔
(تحفة الحبيب على شرح الخطیب،ج:۴،ص:۳۴۶)
(۵) قال الشيخان(النووى والرافعي يكره حلق اللحية. شیخین کریمین امام نووی اور امام رافعی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ داڑھی مونڈانا مکروہ ہے۔
( إعانة الطالبین،ج:۱،ص:۳۴۰)
(۶) امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
واما الفطرة ، فقد اختلف في المراد بها هنا ذهب اكثر العلماء إلى انها السنة، ثم إن معظم هذه الخصال ليست بواجبة عند العلماء، وفي بعضها خلاف في وجوبه كالختان والمضمضة والاستنشاق۔
یعنی:فطرت کے معنی میں علما کا اختلاف ہے ۔ اکثر علما کا کہنا ہے کہ فطرت کا معنی ’’سنت‘‘ ہے ۔ پھر علما کے نزدیک ان عادتوں میں زیادہ تر واجب نہیں البتہ بعض امور کے واجب ہونے میں اختلاف ہے جیسا کہ ختنہ کرنا کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا۔
(شرح مسلم،ج:۳،ص:۱۴۸)
خلاصہ یہ ہے کہ علماء شافعیہ میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔ بلکہ ان کا اختلاف داڑھی مونڈانے کے متعلق ہے کہ داڑھی مونڈانا حرام ہے یا نہیں ۔اکثر علماء شافعیہ نے حرمت کا انکار کیا ہے اور مکروہ کہا ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ شافعی مسلک میں ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اس کے ثبوت میں وہ ’فتح المعین‘‘ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں ۔ لہذا یہاں فتح المعین کی پیش کردہ اس عبارت کے تعلق سے گفتگو کی جائےگی ۔ فتح المعین میں ہے ۔
ويحرم حلق لحية“ یعنی داڑھی مونڈ انا حرام ہے۔
فتح المعین کی یہ عبارت کسی بھی طرح ایک مشت داڑھی کے واجب ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ یہی حال علامہ حلیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی اس عبارت کا ہے ۔ لا یحل لاحد ان يحلق لحيته ولا حاجبيه “ یعنی داڑھی اور ابرؤوں کو مونڈانابکسی کے لیے جائز نہیں ۔ یہ عبارت ایک مشت داڑھی کے واجب ہونے پر اشارۃ بھی دلادت نہیں کرتی ۔ان عبارتوں میں داڑھی مونڈانے کو حرام کہا گیا ہے نہ کہ ایک مشت سے کم کرنے کو ۔ پھر علماء شافعیہ نے مونڈانے کی حرمت کے مذکورہ قول پر اپنی کیا آرا ظاہر فرمائیں پچھلے صفحات میں آپ خود ملاحظہ کر چکے ہیں یاد ہانی کے لیے ایک عبارت دیکھ لیجئے۔
امام رملی کبیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا: ( قوله ويكره نتفها)اى اللحية إلخ ومثله حلقها فقول الحليمي في منهاجه لا يحل لاحد ان يخلق لحيته، ولا حاجبيه ضعیف۔
شیخ الاسلام امام زکریا انصاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اس قول کہ داڑھی کو اکھیٹرنا مکروہ ہے اس کی تشریح فرماتے ہوئے امام رملی کبیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں’’اسی طرح داڑھی کا مونڈانا بھی مکروہ ہے ۔ لہذا علامہ حلیمی نے اپنی کتاب’’ منہاج‘‘ میں جو یہ فرمایا کہ اپنی داڑھی اور ابروؤں کو منڈانا کسی کے لیے جائز نہیں یہ قول ضعیف ہے۔ ( حاشیۃ اسنی المطالب،ج:۱،ص:۵۵۱)
فقہ شافعی میں امام نووی وامام رافعی رحمہما اللہ تعالی کے قول کی اہمیت : تلمیذ امام ابن حجر کی شیخ الہند علامہ زین الدین مخدوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فتح المعین‘‘ میں رقمطراز ہیں ۔
إعلم ان المعتمد في المذهب للحكم والفتوى ما اتفق عليه الشيخان فما جزم به النووى فالرافعی فمارجحه الاكثر فالا علم فالاورع۔
یعنی: اگر کسی مسئلہ میں امام نووی اور امام رافعی رحمۃ اللہ علیہما کا اتفاق ہو تو وہی مسئلہ معتمد قرار پاے گا ۔ اور اگر کسی مسئلہ میں ان دونوں اماموں کا اختلاف ہو جاۓ تو امام نووی کا قول معتمد ہوگا۔ اور اگر امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کتابوں میں کسی مسئلہ کا حکم موجود نہ ہو لیکن اس مسئلہ کا حکم امام رافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی کسی کتاب میں موجود ہوتو وہی مسئلہ معتمدہوگا۔اوراگر کوئی مسئلہ ان دونوں اماموں میں سے کسی امام کی کسی بھی کتاب میں موجود نہ ہو تو اکثر علما جسے راجح قرار دیں وہی معتمد ہوگا۔
(فتح المعین:ص:۶۲۳)
اور شیخین کریمین امام نووی اور امام رافعی رحمۃ اللہ علیہما اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی بڑھانا سنت ہے اور مونڈانا مکروہ تنزیہی ہے۔ چنانچہ اعانۃ الطالبین میں ہے ۔
قال الشيخان(النواوى والرافعي يكره حلق اللحية۔
یعنی:شیخین کریمین امام نووی اور امام رافعی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ داڑھی مونڈانا مکروہ ہے۔
( اعانة الطالبین،ج:۱،ص:۳۴۰)
لہذا یہی قول مسلک شافعی میں معتمد ہوگا اور اسی قول پر فتوی دیا جائے گا۔
فقہ شافعی میں امام ابن حجر مکی اور امام رملی رحمۃ اللہ علیہما کے قول کی اہمیت : شیخین کریمین امام نووی اور امام رافعی رحمۃ اللہ علیہما کے زمانے کے بعد خاتمۃ المحققین امام ابن حجر مکی اور شیخ مذہب امام رملی کا زمانہ آیا۔ ان اماموں نے امام نووی اور امام رافعی کی ساری نصوص کا احاطہ کیا اور تحقیق و تدقیق کے بعد اپنی کتابوں میں جمع کیا۔لہذا علماء کرام نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اب ان دونوں اماموں کے اقوال کی مخالفت جائز نہیں۔
امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”تحفۃ المحتاج‘‘ میں امام شافعی رضی اللہ عنہ کی تمام نصوص کا احاطہ کیا اسے اپنی تحقیقات انیق سے مزین فرمایا پھر اس کتاب کو امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں فقہ شافعی کے متبحرین علماء کرام کے سامنے پڑھا گیا اور ان علما نے اس کتاب پر مہر تصدیق ثبت فرمائی ۔علماء کی یہ تصدیقات اتنی کثرت سے تھیں که کتاب کی صحت حد تواتر تک پہنچ گئی۔ یوں ہی علامہ جمال محمد رملی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’نہایۃ المحتاج‘‘ بھی اس وقت کے چار سو علماء اعلام کے سامنے پڑھی گئی اس محفل میں امام رملی خود بھی موجود تھے۔ ان علماء کرام نے اس کتاب پر تنقید و تصحیح کی یہاں تک اس کتاب کی صحت بھی حد تواتر کو پہنچ گئی ۔ اسی لیے صاحب تر شیح علامہ سید علوی بن احمد سقاف رحمۃ اللہ تعالی علیہ اصطلاحات فقہ شافعی پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’فوائد مکیہ میں نقل فرماتے ہیں:
لاتجوز الفتوى بما يخالفهما (اى ابن حجر و الرملي) بل بمايخالف التحفة والنهاية۔ یعنی:فتوے میں امام ابن حجر کی اور امام رملی رحمۃ اللہ تعالی علیہما کے قول کی مخالفت کرنا جائز نہیں، خصوصی طور پر تحفۃ المحتاج اور نہایۃ المحتاج کی۔
(الفوائد المدنیۃ :۵۹ الفوائد المکیة : ۱۲۲)
اس سے یہ عیاں ہو گیا کہ مسلک شافعی میں امام ابن حجر کی اور امام رملی رحمۃ اللہ تعالی علیہا کے اقوال کی مخالفت جائز نہیں ۔اور داڑھی کے مسئلے میں ان اماموں کا کیا موقف ہے ۔ آپ پچھلے صفحات میں ملاحظہ کر چکے ہیں یعنی دونوں اماموں کے نزدیک داڑھی بڑھانا سنت ہے اور مونڈانا مکروہ تنزیہی ہے۔لہذا یہی مسلک شافعی ہے اور اسی پر فتوی دیا جاے گا۔
کتب شافعیہ میں مکروہ کا اطلاق:
حقیقت یہ ہے کہ شافعی مسلک کی کتابوں میں مکروہ کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے۔
چنانچہ علامہ سلیمان بجیرمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:
الكراهة متى اطلقت انصرفت إلى كراهة التنزیہ۔
یعنی:جب مطلقا مکروہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہوگا۔
( تحفة الحبیب علی شرح الخطیب: ۲۸۲/۲)
اس کے علاوہ سید عمر برکات ابن مرحوم سید محمد برکات شامی نے اپنی کتاب’’
فيض الاله المالک‘‘ / ۲۱ میں اور امام جلال الدین محلی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب’’کنز الراغبین ‘‘ میں فرمایا کہ مطلقا مکروہ سے مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔ اب مکروہ کی تعریف شافعی مسلک کی معتمد کتاب کے حوالے سے ملاحظہ فرمایئے:
امام بیضاوی اپنی کتاب’’ منہاج الاصول‘‘ میں فرماتے ہیں:
والمكروه مايمدح تارکه ولايذم فاعله۔
یعنی:مکروہ کو ترک کرنے والے کی ستائش کی جائےگی اور اس کے کرنے والے کی مذمت نہیں کی جائے گی ۔
( نہایۃ السوال شرح منہاج الاصول :۱ / ۲۴)
ان ساری باتوں سے یہ بات دن کے اجالے سے زیادہ روشن ہوگئی کہ فقہ شافعی میں مکروہ کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے۔
اگر مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا تو داڑھی مونڈانے کو مکروہ قرار دینے والے علماے کرام علامہ حلیمی کے قول’’لا يحل لاحد ان يخلق لحيته ‘‘ پر اعتراضات نہ کرتے اس لیے کہ مکروہ تحریمی کو ’لا یحل ‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔لہذا ان علما کا اعتراض کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شافعی مسلک میں مکروہ کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے ۔
سنت مؤکدہ اور مسلک شافعی :
داڑھی رکھنا شافعی مذہب میں سنت مؤکدہ ہے اس لیے کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب شافعی مذہب میں داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ ہے تو اس کے ترک کی عادت بنانے والا گناہ گار ہوگا۔ اور اس کی وجہ سے وہ فاسق معلن بھی ہو جائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کو ترک کرنے کی عادت بنانا حنفی مذہب میں گناہ ہے، شافعی مذہب میں گناہ نہیں اور نہ ہی اس کی عادت بنانے والا فاسق و فاجر ہوتا ہے۔
جیسا کہ شیخ عبدالوہاب خلاف نے فرمایا: مندوب مطلوب فعله على وجه التأكيد وهو لا يستحق تارکه العقاب ۔۔۔۔۔ويسمى هذا القسم السنة المؤكدة أوسنة الهدى۔
یعنی:وہ سنتیں جن کا کرنا تاکید کے ساتھ مطلوب ہو اس کا ترک کرنے والا گناہ گار نہ ہوگا۔ اور سنت کی اس قسم کو سنت مؤکدہ اور سنت ھدی کہتے ہیں۔ ( علم اصول الفقہ:۱۱۲)
اس کے علاوہ فقہاے کرام کی عبارتوں سے ظاہر ہے کہ نفل مندوب مستحب سنت مسنون، حسن اور مرغوب فیہ، یہ سارے الفاظ باہم مترادف ہیں ۔
جیسا کہ تحفۃ المحتاج میں امام ابن حجر کی شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ:
النفل ہو ،والسنة، والتطوع، والحسن والمرغب فيه، والمستحب، والمندوب، والأولى مارجح الشارع فعله على تركه مع جوازه فهي كلها مترادفة“
( تحفۃ المحتاج :۲۱۹/۲)
اور نفل کی دوقسمیں ہیں نقل مؤکد اور نفل غیر مؤکد ۔ فقہاے کرام نفل مؤکد کو سنت مؤکدہ اور نفل غیر مؤکد کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں ۔اسی طرح سنت مؤکدہ کے لیے مستحب مؤکد یا مسنون مؤکد جیسے مترادف الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔اور سنت غیر مؤکدہ کے لیے مستحب غیر مؤکد یا مسنون غیر مؤکد کا استعمال ہوسکتا ہے ۔ امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صلاۃ النفل‘‘ کے باب میں سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ دونوں کو درج فرمایا اور نفل کی تعریف یوں فرمائی ۔ ’’مارجح الشارع فعله على تركه مع جوازہ‘‘ شارع نے جس کے کرنے کو نا کرنے پر ترجیح دی ہو باوجود یہ کہ اس کا ترک جائز ہو۔ یعنی امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے سنت مؤکدہ کا کرنا ثواب بتایا اور ترک کو جائز قرار دیا۔ جب سنت مؤکدہ کا ترک کرنا جائز ہوا تو اس کے ترک پر گناہ کیسے ہوگا؟ ۔
مزید وضاحت کے لیے کچھ باتیں پیش خدمت ہیں ۔ دیکھئے ! عیدین کی نماز سنت مؤکدہ ہے امام مزنی رضی اللہ عنہ نے امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل فرمایا کہ ان من وجب عليه حضور الجمعة وجب عليه حضور العیدین‘‘۔ یہاں’’و جب علیہ حضور العیدین‘‘ میں وجوب کو فقہاے کرام نے سنت مؤکدہ پر محمول کیا ہے جیسا کہ امام محد رملی صغیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ’’ وحملوا نقل المزنی عن الشافعي أن من وجب عليه حضور الجمعة وجب عليه حضور العيدين على التأكيدفلا إثم ولا قتال بتركها“
( نہایۃ المحتاج بشرح المنهاج:۳۸۵٫۲)
یعنی:امام مزنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ سے جو یہ نقل فرمایا کہ ’’ان من وجب عليه حضور الجمعة وجب علیہ حضور العیدین اس میں حضور العیدین کے وجوب کو فقہاے کرام نے سنت مؤکدہ پر محمول کیا ہے لہذا عیدین کے ترک پر گناہ ہے نہ قتال ۔
مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ عیدین کی نماز کے ترک کرنے پر گناہ نہیں ہوتا ، حالانکہ وہ سنت مؤکدہ ہے ۔ اس سے واضح ہوا کہ سنت مؤکدہ کا ترک کرنے والا گناہ گار نہیں ہوتا ۔ سنت مؤکدہ کا ترک گنا نہیں‘‘ اس کی دلیل میں فقہاء شافعیہ نے حدیث طلحہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا ہے۔جیسا کہ بخاری شریف میں ہے ۔
جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد . فإذا هو يسأل عن الإسلام فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس صلوات في اليوم والليلة فقال هل على غيرها قال لا إلا أن تطوع قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وصيام رمضان قال هل على غيره قال لا إلا أن تطوع قال و ذكر له رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم الزكاة قال هل على غيرها قال لا إلا أن تطوع قال فأدبر الرجل وهو يقول والله لا أزيد على هذا ولا أنقص قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أفلح إن صدق ‘‘
کہ نجد کا ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا… ..اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ’’ شب وروز میں پانچ نمازیں ہیں تو اس نے پوچھا ” کیا ان نمازوں کے علاوہ بھی کوئی نماز ہے؟‘‘ تو اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نفل نمازوں کے سوا کوئی نماز نہیں ۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کے بارے میں بتایا تو اس نے عرض کی کہ ” کیان روزوں کے علاوہ بھی کوئی روزے ہیں؟‘‘اللہ کے رسول صلی پیلم نے ارشاد فر مایا نفل روزوں کے سوا کوئی روزے نہیں‘‘ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے سامنے زکوۃ کا ذکر فرمایا۔ تو اس نے پوچھا کہ کیا اس زکوۃ کے علاوہ اور بھی کوئی چیز واجب ہے؟‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ نفل صدقات کے علاوہ کچھ نہیں‘‘ تو راوی فرماتے ہیں وہ آدمی یہ کہتے ہوئے لوٹ گیا کہ اللہ کی قسم میں ان باتوں میں کوئی زیادتی اور کمی نہ کروں گا‘‘اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اس نے سچ کہا تو وہ کامیاب ہے۔
( صحیح البخاری رقم الحدیث:۲۲ صحیح مسلم رقم الحدیث :۱۰۹)
شرح المہذب میں اس حدیث کے بعد امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا واستنبط الشيخ أبو حامد وغيره منه أربعة أدلة…… {الثالث} قوله صلى الله عليه وسلم إلا أن تطوع و هذا تصريح بان الزيادة على الخمس إنما تكون تطوعا {(الرابع} أنه قال لا أزيد ولا انقص فقال النبي صلى الله عليه وسلم أفلح ان صدق_و هذا تصريح بأنه لا يأثم بترك غير الخمس۔
یعنی:اس حدیث سے شیخ ابو حامد اور ان کے علاوہ دیگر علماء نے چار مسئلوں کا استنباط کیا ہے۔…….. ( تیسرا مسئلہ ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول’’الا ان تطوع‘‘ یہ اس بات کی صراحت ہے کہ پانچ فرض نمازوں کے علاوہ باقی ساری نماز میں نفل میں شمار ہوں گی ۔ (چوتھامسئلہ ) اعرابی نے کہا’لا أزيد ولا انقص‘‘ تو (اعرابی کے یہ کہنے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’ أفلح ان صدق ‘‘اور یہ جملہ وضاحت کرتا ہے کہ وہ شخص پانچ نمازوں کے علاوہ کسی نماز کے چھوڑ نے پر گناہ گار نہیں ہوگا۔
( شرح المہذب: ۱۹٫۴)
ان باتوں سے واضح ہوا کہ پانچ وقت کی نمازوں کے سوا تمام نمازیں نفل نمازیں ہیں اور جب پنجگانہ نمازوں کے علاوہ باقی سب نفل ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ سنت مؤکدہ کا شمار بھی نفل میں کیا جائے گا اور نفل کے ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
داڑھی کو کترنے والے کی اقتداء میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اگرچہ کاٹ کر ایک مشت سے کم کرے کیونکہ فقہاء شافعیہ کے نزدیک داڑھی بڑھانا واجب نہیں بلکہ سنت ہے اور سنت کو ترک کرنا گناہ نہیں اور جب سنت کو ترک کرنا گناہ نہیں تو ترک کرنے والا فاسق بھی نہیں اور غیر فاسق کی اقتداء بلا کراہت جائز ہے۔
امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب
امام دار الہجرة امام مالک ( متوفی سن ۱۷۹ھجری) جن کو مایہ ناز نقاد حدیث یحی بن سعید القطان نے امیر المؤمنین فی الحدیث کا خطاب دیا ہے ، یہ امام بھی مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ انہوں نے بہت لمبی داڑھی کو مکروہ تصور کیا ہے ، جیسا کہ نووی نے قاضی عیاض ( متوفی ۵۴۴ ھ ) کے حوالے سے صحیح مسلم کی شرح میں نقل کیا ہے :
وكره مالك طولها جداً۔
یعنی: امام مالک نے زیادہ لمبی داڑھی کو مکروہ کہا ہے۔
(شرح صحیح مسلم شریف،ج:۳،ص:۱۵۱)
ابوالولید باجی ( متوفی ۴۷ھ ) نے شرح موطا میں نقل کیا ہے کہ :
قيل لمالك فاذا طالت جداً قال أرى أن يؤخذ منها وتقص۔
یعنی:امام مالک سے سوال کیا گیا ، جب داڑھی بہت لمبی ہو جاۓ تو کیا حکم ہے؟ آپ نے کہا کہ میری رائے ہے کہ داڑھی سے کسی قدر کاٹ چھانٹ کر لینا چاہیے ۔
(المنتقی،ج:۷،ص:۲۶۶، نیز دیکھیے الاستذ کار،ج:۸،ص:۴۲۹،دارالکتب العلمية)
قاضی ابوالفضل عیاض ( متوفی ۵۴۴ھ) جو مالکیہ کے مشہور علماء میں سے ہیں اور اپنے وقت کے حدیث کے امام تھے، کہتے ہیں :
يكره حلقها وقصها وتحريقها و أما الأخذ من طولها وعرضها فحسن، وتكره الشهرة في تعظيمها كما تكره في قصها وجزها۔
یعنی:داڑھی کا مونڈنا اور اس کو زیادہ کاٹنا چھانٹنا اور جلانا مکروہ ہے ، رہا اس کے طول و عرض سے کسی قدر کاٹنا تو بہتر ہے ، کیونکہ جس طرح داڑھی کو زیادہ کاٹنا مکروہ ہے ویسے ہی اس کو زیادہ لمبی بنا کر شہرت کا باعث بننا بھی مکروہ ہے ۔
(شرح صحیح مسلم،ج:۳،ص:۱۵۱)
دوسرے مشہور مالکی محدث و فقیہ قاضی ابوبکر بن العربي ( متوفی۵۴۳ھ) جامع ترمذی کی شرح میں رقمطراز ہیں :
ان ترك لحيته فلا حرج عليه الا أن يقبح طولها فيستحب أن يأخذ منها۔
یعنی:اگر اپنی داڑھی چھوڑ دے اور اس سے کوئی تعرض نہ کرے تو کوئی حرج نہیں الا یہ کہ بڑی ہوکر بری لگے تو اسے کاٹ لینا مستحب ہے۔
(عارضة الاحوذی،ج:۱۰،ص:۲۲۰/۲۱۹)
زرقانی ( متوفی ۱۱۲۲ھ ) کی تحقیق ہے کہ:
لأن الاعتدال محبوب والطول المفرط قد يشوه الخلق و يطلق ألسنة المغتابين ففعل ذلك مندوب مالم ينته الى تقصيص اللحية وجعلها طاقات فیکرہ۔
یعنی: اعتدال چونکہ محبوب ہے اور زیادہ لمبائی فطری حسن کو بگاڑ دیگی اور غیبت کرنے والوں کو زبان درازی کا موقع ملے گا ، اس لیے اس کو کاٹ لینا مستحب ہے ، البتہ بہت زیادہ کاٹنا اور تہ بتہ بنانا مکروہ ہے ۔
(شرح الزرقانی،ج:۴،ص:۳۳۵)
ابن جزی ( متوفی ۴۱ ۷ ھ ) کی تحقیق بھی ملاحظہ فرمالیں :
واعفاء اللحية لا أن تطول جداً فله الأخذ منها۔
یعنی:سنن فطرت میں سے داڑھی کا بڑھانا ہے لیکن بہت زیادہ لمبی نہ ہو ، ورنہ اس سے کاٹ سکتا ہے۔
(القوانین الفقہیہ،ص:۲۹۳)
ملا علی قاری نے شرح الشفا میں مشہور مالکی فقیہ تلمسانی(۱)( متوفی ۷۸۱ھ ) کی
ایک عبارت نقل کی ہے ، جس کا ایک حصہ درج ذیل ہے :
وعن الحسن بن المثنى أنه قال: اذا رأيت رجلا ذا لحية طويلة ولم يتخذ لحية بين لحيتين كان في عقله شئ ، وقيل ما طالت لحية انسان قط الا ونقص من عقله مقدار ماطال من لحيته ، ومنه قول الشاعر:
اذا كبرت للفتی لحية
فطالت وصارت الى سرتہ
فنقصان عقل الفتى عندنا
بمقدار ماطال من لحیتہ
یعنی:حسن بن مثنی کہتے ہیں کہ جب کسی لمبی داڑھی والے کو دیکھو جس نے درمیانی درجہ کی داڑھی نہیں رکھی ہے تو اس کی عقل میں نقص ہے اور کہا گیا ہے کہ جب کسی انسان کی داڑھی لمبی ہوتی ہے تو اس کی داڑھی کی لمبائی کے بقدر اس کی عقل میں کمی ہوتی ہے ، اس مقولہ کو شاعر نے یوں ادا کیا ہے : جب نو جوان کی داڑھی بڑی ہو جائے اور لمبی ہو کر ناف تک پہونچ جائے تو ہمارے نزدیک نوجوان کی عقل اس کی داڑھی کی لمبائی کے بقدر کم ہو جاتی ہے ۔
(شرح الشفا لملا علی قاری،ج:۱،ص:۳۶۴)
(۱)یہ ہیں خطیب ابوعبداللہ بن مرزوق تلمسانی انہوں نے قاضی عیاض کی کتاب الشفاء کی شرح لکھی ہے۔
تلسمانی کی اس تحریر سے مالکیہ کے مسلک کی عکاسی ہوتی ہے۔
ابو عبداللہ محمد بن خلیفہ وشتانی ( متوفی ۸۲۷ھ ) نووی کے قول’’ المختار ترکها ‘‘ پر نقد کر تے ہوۓ رقم طراز ہیں:
في الحديث أن الله تعالى زين بنی آدم باللحی۔(۱)واذا كانت زينة فالأحسن تحسينها بالأخذ منها طولا وعرضاً وتحديد ذلك بما زاد على القبضة كما كان ابن عمر يفعل، و هذا فيمن تزيد لحيته ، و أما من لا تزيد لحيته فيأخذ من طولها و عرضها بما فيه تحسين فان الله جميل يحب الجمال۔
یعنی:حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو داڑھیوں سے زینت بخشی ہے ، جب داڑھی زینت مقرر ہوئی تو اس کے طول وعرض سے کچھ کاٹ کر سنوارنا بہتر ہے ، اور اس کی حد مشت سے زائد کا حصہ ہے ، جیسا کہ ابن عمر کرتے تھے۔ اور ایک مشت کی قید اس کے لیے ہے جس کی داڑھی بڑھتی ہو اور جس کی داڑھی بڑھتی ہی نہ ہو تو وہ بھی اس کے طول وعرض سے اتنا کاٹے جس سے داڑھی اچھی لگے، کیونکہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ۔
(اکمال اکمال المعلم،ج:۲،ص:۳۹)
(۱)وشتانی نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے لیے اہل علم ملاحظہ فرمائیں کشف الخفاء ومزیل الالباس‘‘ حدیث نمبر ۱۴۴۷۔
پھر آگے ایک اشکال کے طول وعرض سے کچھ کاٹ لینا قول رسول’’أعفوا اللحی ‘‘ کے منافی ہے ، کا جواب یوں دیتے ہیں :
الأمر بالاعفاء انما هو لمخالفة المشركين لأنهم كانوا يحلقونها و مخالفتهم تحصل بعدم أخذ شئ البتة أو بأخذ اليسير الذي فيه تحسين۔
یعنی:اعفاء کا حکم مشرکین کی مخالفت کے لیے ہے کیونکہ وہ داڑھیاں منڈاتے تھے ، ان کی مخالفت اس سے بھی ہو گی کہ کچھ بھی بال نہ کاٹا جائے اور اس سے بھی ہوگی کہ معمولی مقدار میں کاٹا جاۓجائے جس سے داڑھی خوشنما لگنے لگے۔
(اکمال اکمال المعلم،ج:۲،ص:۳۹)
امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب
امام اہل سنت احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ ( متوفی ۲۴۱ھ ) جن کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب میں نے بغداد چھوڑا تو اس میں احمد بن حنبل سے بڑا عالم ، فقیہ اور متقی نہیں تھا ۔ جن کی کتاب مسند حدیث میں سب سے ضخیم کتاب تصور کی جاتی ہے ، یہ امام بھی داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے ۔ ائمۂ اربعہ میں داڑھی کے بارے میں ان کا مسلک سب سے زیادہ واضح ہے ، آپ – داڑھی کے طول وعرض سے کاٹتے بھی تھے اور اس کا فتوی بھی دیتے تھے، حالانکہ انہوں نے حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو امامہ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ وغیرہ سے اعفاءلحیہ کی احادیث اپنی مسند میں روایت کی ہیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے احادیث کا وہی مفہوم لیا ہے جو جمہور نے لیا ہے ۔
امام احمد کا یہ مسلک ان کے شاگرد رشید اور خادم خاص امام اسحاق بن ابراہیم بن ہانی نیشاپوری ( متوفی ۲۷۵ھ ) نے جو سفر وحضر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے اپنی تصنیف مسائل الامام احمد بن حنبل میں نقل کیا ہے ، امام کے خادم ہونے کی وجہ سے ان کے بہت سے ایسے امور سے واقف ہوۓ جن سے اولاد یا شاگرد عام طور سے واقف نہیں ہوتے ، انہوں نے 9 سال کی عمر سے امام صاحب کی تاحیات خدمت کی ، اس لیے ان کا بیان انتہائی معتبر تصور کیا جاۓ گا ۔انہوں نے مسائل میں جو کچھ نقل کیا ہے ، درج ذیل ہے:
سألت أبا عبد الله عن الرجل يأخذ من عارضيه قال: يأخذ من اللحية ما فضل عن القبضة، قلت فحديث النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ” أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى“ قال يأخذ من طولها ومن تحت حلقه ورأيت أبا عبد الله يأخذ من عارضيه ومن تحت حلقه۔
یعنی:میں نے ابو عبداللہ ( یعنی امام احمد ) سے سوال کیا کہ آدمی اپنے دونوں رخساروں سے بال کاٹے ؟ آپ نے کہا ایک مٹھی داڑھی سے جو فاضل ہوکائے ۔ میں نے کہا:’’ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث’’ أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے کہا: داڑھی کی لمبائی سے اور حلق کے نیچے سے کاٹے گا ، اور میں نے ابو عبداللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں رخساروں سے اور حلق کے نیچے سے کاٹتے تھے۔
(مسائل الامام احمد بن حنبل،ج:۲،ص:۱۵۲/۱۵۱)
كشاف القناع عن متن الاقناع ۷۵/۱، اور الانصاف في معرفة الراجع من الخلاف ۱۲۱/۱ میں بھی امام احمد بن حنبل کا یہ عمل نقل کیا گیا ہے ۔ فقہ حنبلی کی کتابوں میں یہی مسئلہ درج ہے کہ ایک مشت سے زیادہ کا کاٹ لینا مکروہ اور ناجائز نہیں ہے۔
الروض المربع میں ہے:
ولا يكره أخذ ما زاد على القبضة منها وماتحت حلقه۔
یعنی:ایک مشت داڑھی سے جو زائد ہو اس کا اور حلق کے نیچے کا بال کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔
(الروض المربع بشرح زاد المستنقع،ج:۱،ص:۲۰)
الانصاف في معرفة الراجح من الخلاف میں ہے:
ولا يكره أخذ ما زاد على القبضة۔
یعنی:ایک مشت سے زائد کا کاٹنا مکروہ نہیں ہے ۔
(الانصاف،ج:۱،ص:۱۲۱)
دیگر کتب حنابلہ’’ الاقناع‘‘ ،” شرح منتهی الارادات‘‘، ’’ غذاء الألباب“،” دليل الطالب لنيل المطالب ‘ اور ’’ منار السبیل‘‘ میں بعینہ یہی مسئلہ درج ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور ان کے متتبعین کے نزدیک ایک مشت سے زائد داڑھی کے بال کترنے سے کوئی شخص تارک سنت نہیں ہوجاتا ہے ۔ بلکہ ابن الجوزی حنبلی ( متوفی ۵۹۷ھ) کے نزدیک تو زیادہ طول لحیہ ناپسندیدہ ہے ، جیسا کہ’’ غذاء الألباب ‘‘ (۳۷۶/۱) کی عبارت سے واضح ہوتا ہے ۔
کتبہ جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند