سردی اور گرمی میں عشاء کی نماز کب مستحب ہے؟
اس کے متعلق مفصل و مدلل جواب ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ: محمد صابر خان پرنس ٹیلر متصل گنا دفتر اسٹیشن روڈ بلرام پور گونڈہ۔
اول(۱) زید کا کہنا ہے کہ نماز عشاء تہائی رات کے بعد تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے مگر بعض اکابر حضرات علماء کرام و مشائخ عظام کوشروع وقت میں ادا کرتے دیکھا گیا استفسار پر معلوم ہوا کہ عوام خاص طور پر سردیوں میں لحاف میں گھس جانے کے بعد لحاف چھوڑ کر وضو کرنے اور مسجد جانے کی مشقت مشکل سے اٹھا پائیں گے اس طرح بعض کی جماعت جائے گی اور بعض کی تو نمازیں ہی جاتی رہیں گی اس اندیشہ کے پیش نظر بغرض حفاظت جماعت و فرض تسھیلاً للمسلمین ویسروا ولاتعسروا کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع وقت ہی میں جبکہ عشاء کا وقت ہو جائے تو جماعت قائم کرنا نماز عشاء ادا کرنا فی الجملۃ مستحب کہا جا سکتا ہے‘ اور حدیث ماراہ المسلمون حسن نافھو عنداللّٰہ حسن کے تحت حسن بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ علماء و مشائخ کا نظراً الی تکاسل العوام مسجدوں میں سنن و نوافل کا ادا فرمانا۔ بکر کہتا ہے کہ کوئی بھی ہو کچھ بھی کہے سب بیکار و بکواس ہے مستحب جو ہے وہی ہے اس کے خلاف کو مستحب کہنا اور سمجھنا سراسر جہالت اور انتہائی بیوقوفی کی باتیں ہیں۔ ایسی صورت میں زید بکر کے بارے میں کیا حکم ہے‘ اور کون حق پر ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: نماز عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کو فقہائے کرام نے ضرور مستحب فرمایا ہے اس لئے کہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے: یستحب ان یؤخرالعشاء یعنی سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز میں تاخیر کو پسند کرتے اور ایک روایت میں ہے: لایبالی بتاخیر العشاء الی ثلث اللیل یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو تہائی رات تک پڑھنے میں کوئی تامل نہ فرماتے تھے۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۶۰) اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن عشاء کی نماز پڑھنے کے لئے اس وقت تشریف لائے جب کہ تہائی رات گزر چکی تھی اور صحابۂ کرام بہت پہلے سے بیٹھے ہوئے انتظار کر رہے تھے تو حضور نے فرمایا: لولا ان یثقل علٰی امتی لصلیت بھم ھٰذہ الساعۃ یعنی اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو میں ان کو عشاء کی نماز تہائی رات ہی میں پڑھاتا۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۶۱) اور مسنداحمد، ترمذی، ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا
لولا ان اشق علی امتی لامرتھم ان یؤخر العشاء الی ثلث اللیل اونصفہ۔
یعنی اگر اپنی امت پر مجھے شاق گزرنے کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز تہائی یا آدھی رات تک پڑھا کریں۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۶۱) امام ترمذی نے فرمایا:
حدیث ابی ھریرۃ حدیث حسن صحیح وھوالذی اختارہ اکثر اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین‘
یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و تابعین کے اکثر علماء نے اختیار فرمایا ہے (ترمذی شریف جلد اوّل ص ۲۴) اور حضرت سیّد احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’
’’وردفی التاخیر اخبار کثیرۃ صحاح و ھو مذہب اکثر اھل العلم من الصحابۃ والتابعین‘‘۔
یعنی عشاء کی نماز کے مؤخر کرنے کے بارے میں بہت سی صحیح حدثیں مروی ہیں اور یہی صحابہ و تابعین کے اکثر علماء کا مذہب ہے۔ (طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۹۹) ظاہر ہوا کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ تابعین کے علمائے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عشاء کی نماز کو تہائی رات ہی میں پڑھنے کو پسند فرمایا کہ عبادات الٰہی میں مشقت زیادتی ثواب کا باعث ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’تاخیر نماز عشاء مستحب ست بجہت حصول تعب و مشقت درعبادت حق‘‘ یعنی خداتعالیٰ کی عبادت میں کلفت و مشقت حاصل ہونے کے لئے عشاء کی نماز میں تاخیر مستحب ہے۔ (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۳۰۰) اسی لئے نماز عشاء میں تہائی رات تک تاخیر کو مستحب فرمایا گیا تسھیلا للمسلمین اور یسروا ولاتعسروا کے پیش نظر اسے واجب نہیں قرار دیا گیا اور نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم، صحابۂ کرام، تابعین عظام اور فقہائے اسلام نے تہائی رات میں عشاء کی نماز کوپسند فرماتے ہوئے اسے مستحب قرار دیا تو ماراہ المسلمون حسنا فھو عند اللّٰہ حسن کے تحت ان حضرات کی پسند پر آج کے مسلمانوں کی پسند کو ترجیح دے کر ہر حالت میں اوّل وقت میں پڑھنے کو حسن نہیں قرار دیا جا سکتا جس مسئلہ میں کوئی روایت منقول نہ ہو صرف اسی میں مسلمانوں کی پسند کو حسن قرار دیا جائے گا۔ پھر بعض فقہائے کرام نے تہائی رات تک مؤخر کرنے کو مطلق رکھا یعنی سردی اور گرمی کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۴۸ میں ہے:یستحب تاخیر العشاء الی ثلث اللیل اھ تلخیصًا۔ مگر بعض حدیثوں میں چونکہ سردی اور گرمی کے موسم کا حکم الگ الگ ہے اس لئے بہت سے فقہائے کرام نے صرف سردی میں تہائی رات تک مؤخر کرنے کو مستحب فرمایا اور گرمیوں میں تعجیل کو مستحب فرمایا جیسا کہ فقیہ النفس حضرت قاضی خاں رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:
: یعجل العشاء فی الصیف یؤخر فی الشتاء الی ثلث اللیل۔ لقولہ علیہ السلام معاذ رضی اللہ عنہ اخر العشاء فی الشتاء فان اللیل فیہ طویل وعجل فی الصیف فان اللیل فیہ قصیر ھٰذا اذاکانت السماء مصحیۃ فان کانت متغیمۃ یعجل اھ ملخصًا۔
یعنی گرمیوں میں عشاء کی نماز جلد ہی پڑھی جائے اور جاڑوں میں تہائی رات تک مؤخر کیا جائے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ سردی میں عشاء کی نماز مؤخر کرو اس لئے کہ رات اس موسم میں بڑی ہوتی ہے‘ اور گرمیوں میں عشاء کی نماز کے لئے جلدی کرو کہ اس موسم میں رات چھوٹی ہوتی ہے‘ اور یہ حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ آسمان صاف ہو اور اگر ابرآلود ہو تو ہر موسم میں عشاء کی نماز کے لئے جلدی کی جائے‘ اور حضرت سیّد احمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
: یستحب تاخیر صلاۃ العشاء الی ثلث اللیل قیدہ فی الخانیۃ والتحفۃ والمحیط الرضوی والبدائع بالشتاء اما بالصیف فیستحب التعجیل نھر لئلاتقل الجماعۃ لقصر اللیل فیہ ا ھ
یعنی عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے اس حکم کو خانیہ، تحفہ، محیط رضوی اور بدائع میں صرف جاڑے کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے‘ اور گرمیوں میں جلد پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے تاکہ جماعت کم نہ ہو اس لئے کہ اس موسم میں رات چھوٹی ہوتی ہے۔ (طحطاوی علی مراقی ص ۹۹) حدیث شریف اور فقہائے کرام کی مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سردی کے سبب عشاء کی نماز میں تعجیل کو مستحب نہیں قرار دیا جائے گا گرمیوں میں دن بڑھنے اور رات کے چھوٹی ہونے کے سبب یا بارش کی وجہ سے البتہ تعجیل مستحب ہے پھر زمانۂ سابق میں سردی سے بچنے کے لئے لوگوں کے پاس سامان کم تھے اس کے باوجود حضور نے سردی میں تاخیر کوپسند فرمایا تو آج جب کہ لوگوں کے پاس سردی سے بچاؤ کے سامان زیادہ ہیں سردی میں تعجیل کو کیوں کر مستحب قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ آج کل عام شہروں، قصبوں یہاں تک کہ بعض دیہاتوں میں بھی روشنی کی سہولتوں اور ہوٹلوں وغیرہ کے سبب تہائی رات کے بعد بھی کافی چہل پہل اور لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے لہٰذا کچھ کاہلوں کے سبب ہر موسم میں تعجیل کو مستحب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سردی میں رات بڑی ہونے کے سبب بعد نماز لوگ دنیاوی باتوں میں مصروف ہوں گے جس کی حدیث شریف میں ممانعت ہے ہاں اگر کسی گاؤں کے لوگ عام طور پر اوّل وقت کھا پی کر سونے کے عادی ہوں اور تہائی رات تک عشاء کے مؤخر کرنے میں اکثر لوگوں کی جماعت ترک ہو جاتی ہو تو خاص کر اس صورت میں تعجیل کو مستحب ضرور قرار دیا جائے گا جیسا کہ طحطاوی کی تعلیل لئلا تقتل الجماعۃ سے ظاہر ہے۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال ا لدین احمد امجدی
۱۸؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۷۷/۱۷۶/۱۷۵/۱۷۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند