سیّد احمد بریلوی صاحب کو صحیح العقیدہ سنی مانا جائے یا فاسد العقیدہ گمراہ؟سیّد احمد رائے بریلوی صاحب کے سلسلۂ بیعت میں مرید ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ رائے بریلوی صاحب کے سلسلہ میں مرید ہیں وہ اپنی بیعت باقی رکھیں یا توڑ دیں؟

سیّد احمد بریلوی صاحب کو صحیح العقیدہ سنی مانا جائے یا فاسد العقیدہ گمراہ؟
سیّد احمد رائے بریلوی صاحب کے سلسلۂ بیعت میں مرید ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ رائے بریلوی صاحب کے سلسلہ میں مرید ہیں وہ اپنی بیعت باقی رکھیں یا توڑ دیں؟

مسئلہ: از حفیظ الدین رضوی اتر دریاپور ضلع مالدہ۔ بنگال
حضرت مولانا فضل رسول عثمانی بدایونی علیہ الرحمۃ والرضوان نے ۱۳۶۵ھ؁ میں ایک کتاب ’’سیف الجبار‘‘ تحریر فرمائی جس میں حضرت ممدوح نے پیشوائے وہابیہ ملا اسمٰعیل دہلوی کی گمراہیوں کو بے نقاب فرمایا ہے‘ اور اس کے ساتھ سیّد احمد بریلوی کے کچھ حالات بیان کئے ہیں جس سے واضح ہے کہ سیّد احمد بریلوی صاحب کو صحیح العقیدہ سنی مانا جائے یا فاسد العقیدہ گمراہ قرار دیا جائے‘ اور یہ کہ سیّد احمد رائے بریلوی صاحب کے سلسلۂ بیعت میں مرید ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ رائے بریلوی صاحب کے سلسلہ میں مرید ہیں وہ اپنی بیعت باقی رکھیں یا توڑ دیں؟
بینوا توجروا۔
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی رضی اللہ عنہ سنی مسلمانوں کے ایک بہت ہی معزز قابل اعتماد عالم دین ہیں۔ واقعی حضرت نے ملا جی اسمٰعیل دہلوی کے مکر و فریب بیان کرنے کے ضمن میں سیّد احمد رائے بریلوی کے بھی کچھ مختصر حالات ذکر فرمائے ہیں جن سے واضح ہے کہ رائے بریلوی صاحب مذکور صحیح العقیدہ سنی نہ تھا۔ لہٰذا رائے بریلوی کے سلسلہ بیعت میں مرید ہونا درست نہیں‘ اور جو لوگ رائے بریلوی صاحب کے سلسلے میں بیعت ہو گئے ہیں وہ بیعت کو ختم کر کے کسی دوسرے قابل بیعت سنی پیر سے مرید ہو جائیں۔ جناب مولانا فضل احمد صاحب لدھیانوی اپنی کتاب

’’انوار آفتاب صداقت‘‘ مطبوعہ لاہور ص ۴۹۳ میں زیرعنوان ’’وہابیوں کے تاریخی حالات‘‘، جناب سیّد احمد رائے بریلوی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پھر (رائے بریلوی صاحب) پیری مریدی کے طریق سے اپنے گروہ کو تقویت دینے لگے اور ملکی جرگوں کو اپنے مریدوں میں داخل کرتے رہے مگر ان کی عادت جبلی سے خلیفہ (سید احمد) کو علم نہ تھا۔ ایک گروہ عظیم کے بھروسے پر جو لاکھ آدمیوں سے زائد تھا مطمئن ہو کر اپنے مشیروں کو صلاح سے خطاب امیر المومنین قبول کیا اپنی خلافت شرعی کی کارروائی شروع کر دی اور شاہ بخارا اور امیر کابل کو اپنی استعانت کے بارے میں مراسلے روانہ کئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کو دعوت اسلام کا پیغام دیا۔ امراء نامدار و علمائے لاہور کو مطلع کیا کہ (مجھ سیّد احمد) امیرالمومنین سے بیعت حاصل کرو۔ جب کوئی امیر مسلمان اور عالم پنجاب کا ان کی طرف متوجہ نہ ہوا تب انہوں نے ان کی تکفیر کا فتویٰ جاری کیا۔ اس فتوائے تکفیر کے اجراء سے تمام ملک پنجاب کے امیر اور علماء ناراض ہو گئے اور جواب لکھے کہ تم (سید احمد) وہابی مذہب ہو تم سے بیعت کرنا روا نہیں۔ (انتہیٰ) اس بیان سے واضح ہوا کہ رائے بریلوی صاحب کے ہمعصر پنجاب کے تمام علمائے کرام رائے بریلوی صاحب کو سنی صحیح العقیدہ نہیں مانتے تھے بلکہ اس کو وہابی سمجھتے تھے۔
واللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ الکریم اعلم بالصواب۔

کتبہ: بدرالدین احمد الصدیقی الرضوی

من اساتذہ دارالعلوم فیض الرسول الواقعۃ فی براؤں شریف من اعمال بستی فی یو پی الاثنا عشر من ربیع الغوث سنۃ اربع وتسعین وثلثمائۃ والف من الھجریۃ المقدسۃ وصلی المولٰی علیہ وسلم علٰی اوّل خلق اللّٰہ وافضل خلق اللّٰہ واکبر خلق اللّٰہ واعلم خلق اللّٰہ واکرم خلق اللّٰہ واسمع خلق اللّٰہ وانفع خلق اللّٰہ وابصر خلق اللّٰہ واحسن خلق اللّٰہ سیّدنا محمد رسول اللّٰہ وعلٰی الہ واصحابہ وازواجہ واصولہ وفروعہ وابنہ الغوث الاعظم الجیلانی البغدادی اجمعین واخرد عونا ان الحمد للہ رب العٰلمین۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۵۸/۵۷)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top