شرک اور بدعت کی کتنی قسمیں ہیں؟
نیز ہر ایک کی کیا کیا تعریف ہے بیان کریں؟
مسئلہ:
از اللہ بخش پنجیڑ ضلع رتلام (ایم۔ پی)
شرک اور بدعت کسے کہتے ہیں؟
اور ان کی کتنی قسمیں ہیں؟
بالتفصیل لکھ کر عند اللہ ماجور ہوں؟
الجواب: شرک کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) شرک جلی (۲) شرک خفی۔ عمل میں ریاکاری کرنا شرک ہے‘ اسی کو شرک اصغر بھی کہتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
الریاء شرک خفی۔
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر عملے کی بریاکند شرک است۔ غایت آنکہ شرک جلی ست و خفی۔ شرک جلی آشکارا بت پرستی کردن و مرائی کہ برائے غیر خدا عمل می کند نیز بت پرستی می کند لیکن پنہانی۔‘‘
(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ جلد چہارم ص ۲۵۰)
اور شرک جلی جس کو شرک اکبر بھی کہتے ہیں اس کی تین قسمیں ہیں:
ایک تویہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی واجب الوجود ٹھہرانا شرک اکبر ہے جیسے آریہ جو خداتعالیٰ کے سوا روح اور مادہ کو بھی واجب الوجود مانتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کو خالق اور موثر بالذات ماننا یہ بھی شرک اکبر ہے جیسے ستارہ پرستوں کا عقیدہ کہ عالم کے تغیرات ستاروں کی تاثیرات سے ہیں اور ستارے مؤثر بالذات ہیں کسی کے محتاج نہیں۔ تیسرے یہ کہ خداعزوجل کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا یا اسے مستحق عبادت سمجھنا جیسے بت پرست جو بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان کو پرستش کا مستحق سمجھتے ہیں یہ بھی شرک اکبر ہے‘ اور جب مطلق شرک بولا جاتا ہے تو اکثر یہی شرک اکبر ہی مراد ہوتا ہے۔
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں:
شرک سہ قسم ست در وجود، در خالقیت و در عبادت
(اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۷۲)
اور حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
الاشراک ھو اثبات الشریک فی الالوھیۃ بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس اوبمعنی استحقاق العبادۃ کما لعبدۃ الاصنام۔
(شرح عقائد نسفی ص ۶۱)
اور بدعت وہ اعتقاد یا اعمال ہیں جو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ حیات ظاہری میں نہ تھے بعد میں ایجاد ہوئے۔
یعنی بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
بدعت اعتقادی اور بدعت عملی۔
بدعت اعتقادی: وہ برے عقائد ہیں جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد اسلام میں ایجاد ہوئے جیسے وہابیوں، دیوبندیوں کا یہ عقیدہ کہ خداتعالیٰ جھوٹ پر قادر ہے بدعت اعتقادی ہے‘
اور بدعت عملی: ہر وہ کام ہے جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانۂ پاک کے بعد ایجاد ہوا خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی اور خواہ وہ کام صحابۂ کرام کے زمانہ میں ہو یا ان کے بعد۔
اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۱۲۵ میں ہے: ’’بداں کہ ہر چیز پیدا شدہ بعد از پیغمبر علیہ السلام بدعت ست۔‘‘
یعنی جو چیز حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد پیدا ہوئی وہ بدعت ہے چنانچہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت مقرر کرنے کے بعد فرمایا: نعمۃ البدعۃ ھذہ۔
(مشکوٰۃ ص ۱۱۵)
لیکن عرف عام میں ایجادات صحابہ کو سنت صحابہ کہتے ہیں بدعت نہیں کہتے۔ ’’اشعۃ اللمعات میں ہے‘‘ آنچہ خلفائے راشدین کردہ باشند اگرچہ بآں معنی کہ در زماں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبودہ بدعت ست ولیکن قسم بدعت حسنہ خواہد بود‘ بلکہ درحقیقت سنت ست‘‘ پھر بدعت عملی کی تین قسمیں ہیں: بدعت حسنہ‘ بدعت سیئہ اور بدعت مباحہ۔ بدعت حسنہ وہ بدعت ہے جو قرآن و حدیث کے اصول و قواعد کے مطابق ہو اور انہی پر قیاس کیا گیا ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ اوّل بدعت واجبہ جیسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے علم نحو کا سیکھنا اور گمراہ فرقوں پر رد کے لئے دلائل قائم کرنا۔ دوم بدعت مستحبہ جیسے مدرسوں کی تعمیر اور ہر وہ نیک کام جس کا رواج ابتدائی زمانہ میں نہیں تھا۔ جیسے محفل میلاد شریف وغیرہ۔ بدعت سیئہ وہ بدعت ہے جو قرآن و حدیث کے اصول و قواعد کے مخالف ہو۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اوّل بدعت محرمہ جیسے ہندوستان کی مروجہ تعزیہ داری۔ دوم بدعت مکروہہ جیسے خطبہ کی اذان مسجد کے اندر پڑھنا‘ اور بدعت مباحہ وہ بدعت ہے جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ظاہری زمانہ میں نہ ہو اور جس کے کرنے نہ کرنے پر ثواب و عذاب نہ ہو۔ اشعۃ اللمعات میں ہے: ’’آنچہ موافق اصول و قواعد سنت اوست و قیاس کردہ شدہ براں‘ آں را بدعت حسنہ گویند۔ و آنچہ مخالف آں باشد بدعت ضلالت گویند وکلیت کل بدعۃ ضلالۃ محمول بریں ست۔ وبعض بدعتہا ست کہ واجب ست چنانچہ تعلیم و تعلم صرف و نحو کہ بداں معرفت آیات و احادیث حاصل گردد و حفظ غرائب کتاب و سنت ودیگر چیزہائے کہ حفظ دین و ملت براں موقوف بود۔ و بعض مستحسن و مستحب مثل بنائے رباطہا ومدرسہا۔ وبعض مکروہ مانند ِنقش و نگار کردن مساجد و مصاحف بقول بعض۔ وبعض مباح مثل فراخی درطعامہائے لذیذہ و لباسہائے فاخرہ بشرطیکہ حلال باشند وباعث طغیان و تکبر و مفاخرت نشوند و مباحات دیگر کہ در زماں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبودن چنانکہ غربال و مانند آں۔ و بعض حرام چنانکہ مذہب اہل بدع برخلاف سنت و جماعت‘‘۔
اور ردالمحتار جلد اوّل ص ۳۹۳ میں ہے:
قدتکون (البدعۃ) واجبۃ کنصب الادلۃ للرد علی اھل الفرق الضالۃ وتعلم النحو المفھم للکتاب والسنۃ ومندوبۃ کاحداث نحو الرباط ومدرسۃ وکل احسان لم یکن فی الصدر الاول و مکروھۃ کزخرفۃ المساجد ومباحۃ کالتوسع بلذیذ الماکل والمشارب کما فی شرح الجامع الصغیر للمناوی عن تھذیب النووی ومثلہ فی الطریقۃ المحمدیۃ للبرکلی۔ وھو تعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۶۷/۶۶)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند