طلاق کی صورت میں مالی جرمانہ عائد کرنا کیسا ہے؟

طلاق کی صورت میں مالی جرمانہ عائد کرنا

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ میسرا  حنیف اور نوید داؤد کی شادی 12 دسمبر 2022 کو ہوئی، لیکن شادی سے پہلے حلفیہ شرط رکھی گئی کہ اگر نوید داؤد طلاق کا یا میسرا خلع  کا دعوی کرے گی تو بطورِ جُرمانہ سامنے والے کو 50 لاکھ روپے دینے کا پابند ہوگا اور یہ بات اسٹامپ پیپر پر لکھوائی گئی جس کا اُس وقت قانونی گواہ کوئی نہیں تھا، کیا دونوں کے درمیان طلاق دینے کے معاملے پر بنایا گیا شرطیہ پیپر جائز ہے کیونکہ نکاح نامے میں کچھ بھی نہیں لکھا ہوا اور نہ ہی پیپر میں کسی گواہ کے دستخط ہیں دونوں کے درمیان ناچاقی ہے اور اسی پیپر کی وجہ سے دونوں پھنسے ہوئے ہیں۔  (سائل:نوید داؤد، کراچی)

باسمہ سبحانہ تعالی وتقدس الجواب: طلاق یا خُلع کی صورت میں مالی جرمانہ کی شرط عائد کرنا  شرعاً جائز نہیں کہ  شریعت ِمطہّرہ  میں مالی جرمانہ پہلے جائز تھا پھر اس کو منسوخ قرار  دے دیا گیا اور منسوخ پر عمل کرنا جائز نہیں، لہذا طلاق دینے یا خُلع لینے کی صورت میں مالی جرمانہ کی شرط لگانے کی شرعی طور پر اجازت نہیں۔
چنانچہ علامہ محمد بن عبداللہ تُمُرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۸ھ اور علامہ علاؤ الدین محمد  بن علی حصکفی  حنفی متوفی ۱۰۸۸ ھ لکھتے ہیں:’’ (لا بِأخذِ مالٍ في المذْهبِ)۔۔۔۔ أَنّه كانَ في ابتداءِ الإِسلامِ ثم نُسخَ ‘‘۔ (تنویرالأبصار و شرحہ الدّرّ المختار،کتاب الحدود، باب التّعزیر،ص:۳۱۶، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۳ھ-۲۰۰۲م)
یعنی،’’مذہب کی رُو سے بطوِر سزا کے مال لینا جائز نہیں ہے۔بطورِ سزا کے مال لینا ابتدائے اسلام میں جائز تھا پھر اسے منسوخ کردیا گیا‘‘۔

’’درّمختار‘‘ کی مذکورہ  عبارت کے تحت علّامہ سیّد محمد  امین بن عمر ابنِ عابدین  شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ ھ اور علّامہ مخدوم محمد عابد سندھی حنفی متوفیٰ ۱۲۵۷ھ لکھتے ہیں:’’ لا يجُوزُ لأَحدٍ منَ المُسلِمينَ أخذُ مالِ أَحدٍ بغيرِ سببٍ شرعيٍ۔۔۔۔۔ التّعزِيرُ بالمالِ كانَ في اِبتداءِ الإِسلامِ ثم نُسخَ ‘‘۔(ردُّ المحْتار علی الدُّرّالمخْتار، کتاب الحدود، بابُ التعزیر، تحت قولہ:وفیہ، ۶/۹۸، مطبوعۃ: دارالمعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۰ھ-۲۰۰۰م) (طوالع الأنوار شرح الدّرّ المختار،کتاب الحدود،باب التعزیر، ۷/۳/۶۰۵، مخطوط مصوّر)

یعنی،’’ بغیر کسی سببِ شرعی کے ایک مسلمان کے لیے دوسرے کا مال لینا جائز نہیں۔۔بطور سزا کے مال لینا ابتدائے اسلام میں جائز تھا پھر اسے منسوخ کردیا گیا‘‘۔

اسی طرح امام اہل سنت امام احمد رضا خان  لکھتے ہیں:’’ ثم رأیتُ الإمامَ العلّامۃَ الطّحاویَ ذَکر ھذا الحدیثَ وأمثالَہُ فِیہ التّعزیرُ بالمالِ فی بابِ الرّجلِ یزنِی بجاریۃِ امرأتہِ مِن کتابِ الحُدُودِ من ’’شرح معانیِ الآثارِ‘‘ ثم ذَکرَ:إِنّ کلَّ ھذا کانَ فی صدرِ الإِسلامِ،ثم نُسخَ‘‘ (جدّ الممْتار،کتاب الحدود،باب التّعزیر،۵/۳۷۶،مطبوعۃ:دار الفقیہ للنّشْر والتوْزیع)(شرح معانی الآثار،کتاب الحدود، باب:الرّجل یزنی بجاریۃ امرأتہ ،۳/۱۴۵،مطبوعۃ:عالم الکتب،بیروت،الطبعۃ الأولیٰ۱۴۱۴ھ-۱۹۹۴م)

یعنی،’’ میں نے دیکھا علّامہ طحاوی کو جنہوں نے اس حدیث کو ذکر کیا اور اس کی مثل جس میں تعزیر کا حکم تھا اُس مرد کے متعلق جس نے اپنی بیوی کی باندی سے بدکاری کی، شرح معانی الآثار  کے کتاب الحدود میں،پھر انہوں نے ذکر کیا کہ یہ بات صدر ِاسلام میں جائز  تھی پھر اسے منسوخ قرار دے دیا گیا‘‘۔
مالی جرمانہ منسوخ ہوچکا اور منسوخ پرعمل کرنا شرعاً جائز نہیں،چنانچہ امام اہل سنّت لکھتے ہیں:مالی جرمانہ منسوخ ہوگیا اور منسوخ پر عمل حرام ہے۔(فتاوی رضویہ،اعتقادیات و سیر،۲۱/۲۷۳ ،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

مالی جرمانہ کے منسوخ ہونے  کی علّت بیان کرتے ہوئے امام احمد بن محمد طحطاوی   حنفی متوفی ۱۲۳۱ھ لکھتے ہیں:’’ لئلّا یکونَ ذریعۃً إلی أخذِ الظّلمۃِ أموالَ النّاس بغیرِ حقٍّ‘‘ (حاشیۃ الطّحطاوی علی الدُّرِّ المخْتار،کتاب الحدود،باب التعزیر، تحت قولہ:ثم نُسخَ،۶/۱۱۱،مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،۱۳۹۵ھ-۱۹۷۵م) 

یعنی،’’مالی جرمانہ منسوخ کردیا  گیا  تاکہ  یہ لوگوں کا مال ناحق کھانے کی وجہ سے  ظلم کا ذریعہ نہ بنے‘‘۔

واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:
ابو عاطف محمد آصف حنیف النعیمی
المُتَخصّص فِی الفِقهِ الإسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)   
۵ربیع الثانی۱۴۴۵ھ ۔۲۰،اکتوبر۲۰۲۳م  TF-1696

الجواب صحیح
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
شیخ الحدیث جامعۃ النّور ورئیس دارالإفتاء النّور
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی

الجواب صحیح
المفتی محمد جنید العطاری
دارالإفتاء   
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top