ظہر کا اخری قاعدہ بھول کر پانچویں کا سجدہ کر لیا تو سب برکات دے نفل کیسے ہو گئی جبکہ نفل کا ہر قاعدہ فرض ہے؟

ظہر کا اخری قاعدہ بھول کر پانچویں کا سجدہ کر لیا تو سب برکات دے نفل کیسے ہو گئی جبکہ نفل کا ہر قاعدہ فرض ہے؟

مسئلہ: از مولانا عبدالقدوس کشمیری خطیب مسجد ۴۲ اسیفی جوبلی اسٹریٹ بمبئی نمبر ۳
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین وملت اس مسئلہ میں کہ فرض کا آخری قعدہ بھول کر کھڑا ہو گیا دو رکعت والی نماز میں تیسری کا اور چار رکعت والی نماز میں پانچویں کا سجدہ کر لیا تو مسئلہ یہ ہے کہ فرض باطل ہو کر سب رکعتیں نفل ہو گئیں۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نفل کا ہر قعدہ قعدۂ اخیرہ ہے یعنی فرض ہے‘ اور فرض چھوٹ گیا تو نماز کو فاسد ہو جانا چاہئے۔ نماز کے نفل ہو جانے کی صورت میں اسے صحیح نہیں ہونا چاہئے؟ اس شبہہ کا جواب تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
باسمہ تعالیٰ والصلاۃ والسلام علٰی رسولہ الاعلیٰ۔

الجواب: بیشک نفل کا ہر قعدہ قعدۂ اخیرہ ہے‘ اور وہ فرض ہے جس کے چھوٹ جانے کے سبب نماز کو فاسد ہو جانا چاہئے قیاس یہی کہتا ہے۔ امام زفر رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا ہے‘ اور حضرت امام محمد علیہ الرحمۃ والرضوان کا مذہب یہی ہے۔ لیکن استحسان یعنی قیاس حنفی سے نماز فاسد نہیں ہوتی جو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف رضی اللہ عنہما کا مذہب ہے‘ اور اسی پر فتویٰ ہے۔ دلیل استحسان یہ ہے کہ جب دو رکعت کی فرض نماز میں قعدہ چھوڑ کر تیسری کا سجدہ کر لیا تو پوری نماز کو‘ اور جب چار رکعت کی نماز میں پانچویں کا سجدہ کر لیا تو ضم رکعت کے بعد آخری چار رکعت کو فرض سے مشابہت کے سبب ایک ہی نماز قرار دے دیا گیا اور اس نماز کا قعدۂ اخیرہ فرض ہو گیا۔ یہاں تک کہ چار رکعت کی فرض نماز میں قعدۂ اولیٰ بھی نہیں کیا اور ایک ہی قعدہ سے چھ رکعتیں پڑھیں تو بعض لوگوں کے قول پر وہ بھی درست ہو جائیں گی لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ فاسد ہو جائیں گی اس لئے کہ فرض کے قعدہ پر قیاس کرتے ہوئے استحساناً چار رکعت جائز ہے‘ اور چھ رکعت کی فرض نماز کو نہیں ہے فتح القدیر جلد اوّل ص ۴۴۴ میں ہے:
ترک القعدۃ علی راس الرکعتین من النفل لایفسدھا عندھما خلافا لمحمد‘
اور مراقی الفلاح مع طحطاوی ص ۲۱۴ میں ہے:
اذا صلی نافلۃ اکثر من الرکعتین کاربع فاتمھا ولم یجلس الا فی اخرھا فالقیاس فسادھا وبہ قال زفر وھو روایۃ عن محمد و فی الاستحسان لاتفسد‘
اور کفایہ مع فتح القدیر جلد اوّل ص ۴۴۴ میں ہے:
ھما ترک القعدۃ علی راس الرکعتین فی التطوع لا یفسد الصلاۃ‘
اور درمختار مع شامی جلد اوّل ص ۵۰۳ میں ہے:
لوترک القعود الاول فی النفل سھوا سجدولم تفسد استحسانا اور ردالمحتار جلد اوّل ص ۲۶۵ میں ہے: کون کل شفع صلاۃ علی حدۃ یقتضی افتراض القعدۃ عقبہ فیفسد وترکھا کما ھو قول محمد وھو القیاس لکن عندھما لما قام الی الثالثۃ قبل القعدۃ فقد جعل الکل صلاۃ واحدۃ شبیھۃ بالفرض وصارت القعدۃ الاخیرۃ ھی الفرض وھو الاستحسان۔ ولو تطوع بست رکعات بقعدۃ واحدۃ قیل یجوز ولاصح لافان الاستحسان جواز الاربع بقعدۃ اعتبارا بالفرض ولیس فی الفرض ست رکعات تؤدی بقعدۃ فیعود الامر الی اصل القیاس کما فی البدائع۔ ا ھ ملخصًا۔ واللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی اعلم جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۸؍ ذوالقعدہ ۱۴۰۲ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۵۷/۲۵۶/۲۵۵)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top