عورت کا ولی اقرب کون والد یا شوہر AURAT KA WALI AQRAB KON WAALID YA SHOHAR? औरत का वली अक़रब कोन वालिद या शौहर

 عورت کا ولی اقرب کون والد یا شوہر

AURAT KA WALI AQRAB KON WAALID YA SHOHAR?
औरत का वली अक़रब कोन वालिद या शौहर
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ ایک عورت کا انتقال ہوگیا ہے اور جنازے میں شوہر بھی ہے اوروالد بھی ایسی صورت میں ولئ اقرب کون ہے. شوہر یا والد
قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل:محمد مجیب اللہ خطیب و امام کرما ٹانڈ بوکارو جھارکھنڈ
گروپ: قادری فقہی گروپ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ الجواب بعون الملک الوہاب
مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ولئ اقرب والد محترم ہیں اور شوہر کی ولایت کا حق تمام اقارب کے بعد ہے۔

الدرالمختار میں ہے
یقدم فی الصلٰوۃ علیہ السلطان ان حضر اونائبہ وھوامیرالمصر(ثم القاضی)ثم صاحب الشرط ثم خلیفۃ ثم خلیفۃ القاضی (ثم امام الحی)فیہ ایھام وذلك ان تقدیم الولاۃ واجب وتقدیم امام الحی مندوب فقط بشرط ان یکون افضل من الولی والافالولی اولٰی(ثم الولی) بترتیب عصوبۃ الانکاح الا الاب فیقدم علی الابن اتفاقا الاان یکون عالماوالاب جاھلافالابن اولٰی فان لم یکن لہ ولی فالزوج ثم الجیران ولہ ای للولی ومثلہ کل من یقدم علیہ (الاذن لغیرہ فیھا)لانہ حقہ فیملك ابطالہ (الا) انہ (ان کان ھناك من یساویہ فلہ) ای لذلك المساوی ولواصغرسنا (المنع) لمشارکتہ فی الحق اماالبعیدفلیس لہ المنعاھ باختصار۔یعنی:نماز جنازہ پڑھانے میں مقدم سلطانِ اسلام ہے اگر وہ موجود ہو یا اس کا نائب، یہ شہر کا حاکمِ اسلام ہے۔ پھر قاضی ،پھر کوتوال، پھر اس کا خلیفہ پھر قاضی کا خلیفہ، پھر امام محلہ۔ اس میں برابری کا ایہام ہے اور حکم یہ ہے کہ حکّام کی تقدیم واجب ہے اور امام محلہ کی تقدیم صرف مندوب ہے بشرطیکہ ولی سے افضل ہو، ورنہ ولی بہتر ہے۔ پھر ولی ۔نکاح کرانے میں عصبہ ہونے کی جوترتیب ہے وہی یہاں بھی ہوگی مگر باپ کہ وہ بیٹے پر یہاں بالاتفاق مقدم ہے لیکن اگر بیٹا عالم اور باپ جاہل تو بیٹااولٰی ہے۔ اگر کوئی نہ ہو تو شوہر پھر ہمسائے۔ ولی کوا ور اسی کی طرح ہر اُس شخص کو جسے دوسروں پر تقدم ہے یہ حق حاصل ہے کہ کسی اور کو اذن دے دے کیونکہ یہ اس کا حق ہے تو اسے باطل کرنے کا اختیار ہوگا۔لیکن وہاں اگر کوئی اس کے مساوی ہو تو اسے اگر چہ وُہ عمر میں چھوٹا ہی ہو۔ دوسرے کو روکنے کا حق حاصل ہے کیونکہ حق میں وہ اس کا شریك ہے ہاں بعید کو روکنے کا اختیار نہیں اھ باختصار۔

درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ١/١٢٢
اسی طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
درولایتِ نمازِ جنازہ شوہر از ہمہ اقارب موخرست ایں ولایت ہمچو ولایت نکاح بترتیب عصوبت و قرابت اقرب فالاقرب رارسد اگر زیناں ہیچکس نباشد شوہر مقدم بود۔یعنی نمازِ جنازہ کی ولایت شوہر تمام اقارب کے بعد ہے۔یہ ولایت،ولایتِ نکاح کی طرح عصبہ ہونے اور قریبی ہونے کی ترتیب پر قریب تر پھر قریب تر کے لئے ہوتی ہے–اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تواُس وقت شوہر مقدّم ہوگا۔
فتاوی رضویہ ج جلد ۹صفحہ ۱۷۸ مترجم

کما مصنف عبد الرزاق:
عن الحسن قال: أولی الناس بالصلاۃ علی المرأۃ الأب،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( کتاب الجنائز / باب من أحق بالصلاۃ علی المیت، ج:3/472، رقم: 4370 )

کما فی الدر مع الرد:
ثم الولي بترتیب عصوبۃ الإنکاح إلا الأب فیقدم علی الابن اتفاقاً…(قولہ فیقدم علی الابن اتفاقاً) ہو الأصح لأن للأب فضیلۃ علیہ وزیادۃ سن، والفضیلۃ والزیادۃ تعتبر ترجیحاً في استحقاق الإمامۃ کما في سائر الصلوات …۔ ویدل علیہ قولہم سائر القرابات أولی من الزوج إن لم یکن لہ منہا ابن، فإن کان فالزوج أولی منہم؛ لأن الحق للإبن وہو یقدم أباہ، ولا یبعد أن یقال إن تقدیمہ علی نفسہٖ واجب بالسنۃ۔
( مطلب فی بیان من ھو احق بالصلاۃ علی المیت، ج:3/141، دار المعرفۃ، بیروت)
کذا فی الھندیۃ:
والاولياء على الترتيب العصبات الاقرب فالاقرب الا الاب فانه يقدم على الابن كذا في خزائن التبیین هذا قول محمد رحمه الله تعالى وعندهما الابن اولى والصحيح انه قول الكل في کذا فی التبیين وهكذا في قياسيه من فتح القدير
(الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، الفصل الخامس في الصلاه على الميت، ج:1/224، دار الفکر، بیروت)
کما فی الموسوعة الفقهية الكويتيۃ:
قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك”.
(ج:41/275، طبع الوزارة)

حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ بھار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں
” ولی سے مراد میت کے عصبہ ہیں اور نماز پڑھانے میں اولیاء کی وہی ترتیب ہے جو نکاح میں ہے صرف فرق اتنا ہے کہ نماز جنازہ میں میت کے باپ کو بیٹے پر تقدم ہے اور نکاح میں بیٹے کو باپ پر البتہ اگر باپ عالم نہیں اور بیٹا عالم ہے تو نماز جنازہ میں بھی بیٹا مقدم ” اھ
بہار شریعت ج 1ص ۴ صفحہ ۸۳۶ نماز جنازہ کا بیان مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ عورت کے انتقال کے بعد ولی اقرب ہونے کا حق عورت کے والد کا ہے۔
ایک صورت میں شوہر بھی ولی ہوسکتا ہے جبکہ شوہر صاحب علم ہواس طور پر کہ عورت کے والد ان پڑھ ہو اور شوہر سے کوئی عاقل بالغ لڑکا ہوتا تو اسے حق تقدّم ہوتا کیونکہ عصبہ ہونے میں بیٹے کو باپ پر ترجیح حاصل ہے۔اور اس لڑکے کو شریعت حکم دیتی ہے کہ اپنے باپ کو آگے کر، اورادب کا لحاظ کرکے اس کے آگے قدم نہ رکھ۔ اس طرح باپ کو تقدم ہو جاتا۔
فتاوی رضویہ ج ۹ ص ۱۸۲ مترجم میں ہے
اقول: وھذاولی لمایاتی من ان الاصل ان الحق للولی وانماقدم علیہ الولاۃ وامام الحی لمامر من التعلیل وھوغیرموجودھنا، والفرق بینہ وبین الامام الراتب ظاہر لانہ لم یرضہ للصلٰوۃ خلفہ فی حیاتہ بخلاف الراتب، قال فی شرح المنیۃ الاصل ان الحق فی الصلٰوۃ للولی ولذاقدم علی الجمیع فی قول ابی یوسف و روایۃ عن ابی حنیفۃ لان ھذاحکم یتعلق بالولایۃ عن ابی حنیفۃ لان ھذا حکم یتعلق بالولایۃ کالانکاح الا ان الاستحسان وھو ظاہر الروایۃ تقدیم السلطان ونحوہ لمامر من الوجہ قولہ(بترتیب عصوبۃ الانکاح) فلاولایۃ للنساء ولاللزوج الا انہ احق من الاجنبی قلت والظاہر ان ذوی الارحام داخلون فی الولایۃ، والتقیید بالعصوبۃ لاخراج النساء فقط فھم اولی من الاجنبی وھو ظاھر یؤید تعبیرالھدایۃ بولایۃ النکاح، قولہ(فیقدم علی الابن اتفاقا) ھوالاصح وقیل ھذاقول محمد وعندھمالابن اولی،قال فی الفتح انماقدمنا الاسن بحدیث القسامۃ لیتکلم اکبرھما وھذایفید ان الحق للابن عندھما وھذا یفید ان الحق للابن عندھما الا ان السنۃ عن یقدم اباہ ویدل علیہ قولھم سائر القرابات اولی من الزوج ان لم یکن لہ منھا ابن فان کان فالزوج اولٰی منھم لان الحق للابن وھویقدم اباہ ولا یبعد ان یقال ان تقدیمہ علی نفسہ واجب بالسنۃ اھ،وفی البدائع وللابن فی حکم الولایۃ ان یقدم غیرہ لان الولایۃ ان یقدم غیرہ لان الولایۃ لہ وانما منع عن التقدم لئلا یستخف بابیہ فلم تسقط ولایتہ بالتقدیم قولہ (الاان یکون الخ)قال فی البحر ولو کان الاب جاھلاوالابن عالماینبغی ان یقدم الابن الاان یقال ان صفۃ العلم لاتوجب التقدیم فی صلٰوۃ لجنازۃ لعدم احتیاجھالہ واعترضہ فی النھر بمامرمن ان امام الحی انما یقدم علی الولی اذاکان افضل قال نعم علل القدروری کراہۃ تقدم الابن علی ابیہ بان فیہ استخفافابہ وھذایقتضی وجوب تقدیمہ مطلقااھ قلت وھذامؤید لمامر عن الفتح یعنی اقول:(میں کہتا ہوں) یہ بہتر ہے اس لئے کہ آگے آرہا ہے کہ اصل یہ حق ولی کا ہے اس پر حُکّام اورامام محلّہ کی تقدیم تعلیل مذکور کے سبب ہے اوروہ علت یہاں موجود نہیں– اوراس امامِ جنازہ اور پنجگانہ کے امام مقرر کے درمیان فرق ظاہر ہے اس لئے اس نے زندگی میں اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کیا جبکہ امام مقرر کا حال یہ نہیں،شرح منیہ میں ہے کہ اصل یہ ہے کہ نماز کاحق ولی کو ہے۔ اسی لئے امام ابویوسف کے نزدیك اور امام ابو حنیفہ سے ایك روایت میں وُہ سب سے مقدم ہے ۔اس لئے کہ یہ ایساحکم ہے جس کا تعلق ولایت سے ہے جیسے نکاح کرانے کا معاملہ ہے، مگر استحسان یہ ہے کہ یہاں سلطان وغیرہ مقدم ہوں جس کی وجہ بیان ہوچکی ۔اور یہی ظاہرالروایہ ہے__ عبارت درمختار (نکاح کرانے میں عصبہ ہونے کی جو ترتیب ہے وہی ہوگی) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے ولایت نہیں، اور شوہر کے لئے بھی نہیں مگروُہ اجنبی سے زیادہ حقدار ہے– میں کہتاہوں ظاہر یہ ہے کہ ذوی الارحام بھی ولایت میں داخل ہیں اور عصبہ ہونے کی قید صرف عورتوں کو خارج کرنے کے لئے ہے
و وہ اجنبی سے اولٰی ہوں گے۔ اوریہ ظاہر ہے جس کی تائید ہدایہ کے الفاظ”ولایت نکاح”سے ہوتی ہے –عبارت درمختار (باپ بیٹے پر یہاں بالاتفاق مقدم ہے) یہی اصح ہے۔ اور کہا گیا کہ یہ امام محمد کا قول ہے اور شیخین (امام اعظم و امام ابویوسف) کے نزدیك بیٹا اولٰی ہے– فتح القدیر میں ہے: ہم نے زیادہ عمر والے کو مقدم کیا حدیثِ قسامت کے پیشِ نظرجس میں ہے کہ”دونوں میں جو زیادہ بڑا ہے وُہ کلام کرے”–اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ شیخین کے نزدیك حق بیٹے کاہے۔مگر سنّت یہ ہے کہ وُہ اپنے باپ کو آگے کرے، اس پر علماء کا یہ کلام دلالت کررہاہے: دیگر اہلِ قرابت شوہر سے اولٰی ہیں اگرشوہر کا اس عورت سے کوئی بیٹا نہ ہو ،اگرہو تو شوہر اُن سے اولٰی ہے۔ اس لئے کہ حق بیٹے کا ہے اوروُہ اپنے باپ کو آگے کرے گا–اور یہ کہنا بعید نہ ہوگا کہ بیٹے کا باپ کو اپنی ذات پر مقدم کرنا ازروئے حدیث واجب ہے اھ—بدائع میں ہے : حکم ولایت کے تحت بیٹے کو یہ اختیار حاصل ہے اور خود آگے بڑھنے سے اس کو اس لئے روکا گیا کہ اپنے باپ کی بے ادبی کا مرتکب نہ ہو، تو دوسرے کو آگے بڑھانے کا حق اُس سے نہ گیا۔عبارتِ دُرمختار (مگر یہ کہ بیٹا عالم ہو) بحر میں ہے: اگر باپ جاہل اور بیٹاعالم ہوتو بیٹے کو آگے کرنا چاہئے ۔ مگر یہ کہا جائے کہ علم نماز جنازہ میں تقدم کا موجب نہیں کیونکہ اس میں علم کی ضرورت نہیں، اس پر نہر میں یہ اعتراض ہے کہ امامِ محلہ ولی پر اُسی وقت تقدّم پاتا ہے جب اُس سے افضل ہو۔ ہاں قدوری نےباپ پر بیٹے کا تقدم مکروہ ہونے کی علّت یہ بتائی کہ اس میں باپ کی تقدیم مطلقًا ضروری ہے اھ– میں کہتا ہوں اس سے اس کلام کی تائید ہورہی ہے جو فتح القدیر کے حوالے سے گزرا۔
ردالمحتار باب الصلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مصطفی البابی مصر ١/٥٠۔ ٦٤٩
اسی طرح کے سوال کے جواب میں سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
آرے اگر خدیجہ از مولوی عبدالحکیم پسرے عاقل بالغ داشتے حقِ تقدم مراورا بودے کہ پسر بر پدر در عصوبت مرجح است وآں پسر را شرع فرمود کہ پدرِ خود مولوی عبدالحکیم راتقدیم دہ وبپاسِ ادب پیش او پامنہ بایں صورت مولوی عبدالحکیم راتقدم بودے۔یعنی اں اگرخدیجہ کا مولوی عبدالحکیم سے کوئی عاقل بالغ لڑکا ہوتا تواسے حق تقدّم ہوتا کیونکہ عصبہ ہونے میں بیٹے کو باپ پر ترجیح حاصل ہے–اور اس لڑکے کو شریعت حکم دیتی ہے کہ اپنے باپ مولوی عبدالحکیم کو آگے کر، اورادب کا لحاظ کرکے اس کے آگے قدم نہ رکھ۔ اس طرح مولوی عبدالحکیم کو تقدم ہو جاتا۔
فتاوی رضویہ ج ۹ ص ۱۷۸ مترجم

*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا الھند
بتاریخ ۱۲جمادی الاول ۱۴۴۲ ھجری مطابق ۲۹/ دسمبر بروز منگل ۲۰۲۰ عیسوی
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*

_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top