عورت کے پچھلے مقام میں ہمبستری (Anal sex) کرنا کیسا ہے؟
AURAT KE PICHLE MAQAM MEN HAMBISTARI (Anal sex) KARNA KAISAA HAI?
औरत के पिछ्ले मक़ाम में हम्बीस्तरी (Anal sex) करना कैसा है?
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ ھذا میں کہ عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنا کیسا ہے؟
(سائل:مولانا رفیع الدین امجدی رضوی یو پی الھند)
باسمه تعالی و تقدس”
الجواب بعون الملک الوهاب
عورت کے پچھلے مقام ( Back) میں وطی یعنی ہمبستری (Intercourse) کرنا حرام قطعی ہے کہ اس کا مرتکب فاسق و فاجر گناہ گار ہے۔ اس کو انگریزی میں (Anal sex) کہتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے حالت حیض میں فرج یعنی عورت کے آگے والے مقام سے منع فرمانے
کے بعد فرمایا۔
فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ پھر جب پاک ہو جا ئیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا۔ [سورة البقرة: ٢٢٢]
یعنی عورتوں کے اس مقام میں دخول کرو جہاں سے تمہیں اللہ عز وجل نے حکم دیا وہ فرج ہے۔
حدیث مبارکہ میں آیا کہ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ” مَنْ أَتى حَائِضًا أَوِ امْرَأَة فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا فَقَدْ كَفَرَ مَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” یعنی:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حیض والی عورت سے جماع کرے یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے یا کا بہن ( نجومی وغیرہ) کے پاس جائے تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہوئی شریعت کے ساتھ کفر کیا۔
(سنن الترمذي، أبواب الطهارة، باب ماجاء في كراهية اتيان، الحدیث: ۱۳۵، ج ۱، ص ۱۸۵)
سنن ابی داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
“عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ملعون من أتى امرأته في دبرها. رواه أبو داود. و في صحیح الجامع”. (رقم:٥٨٨٩)
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنی عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
“عن أبي هريرة – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من أتى حائضاً، أو امرأةً في دبرها فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم”. (مشکاة :٥٥١)
فیض القدیر میں ہے:
“قال المناوي في شرح هذا الحديث: المراد أن من فعل هذه المذكورات واستحلها فقد كفر، ومن لم يستحلها فهو كافرالنعمة على ما مر غير مرة، وليس المراد حقيقة الكفر”. (فيض القدير)
صحیح الجامع میں ہے
عن خزيمة بن ثابت – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” إن الله لا يستحيي من الحق، إن الله لا يستحيي من الحق، إن الله لا يستحيي من الحق، لاتأتوا النساء في أدبارهن”. (رقم: ٩٣٣)
حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ حق بتلانے سے نہیں شرماتا، بے شک اللہ حق بتلانے سے نہیں شرماتا، عورتوں کے پاس پیچھے کے راستہ سے نہ آؤ.
الجامع لمعمر بن راشد (٢٠٩٥٣)میں ہے:
“عن طاوس قال: سئل ابن عباس – رضي الله عنهما – عن الذي يأتي امرأته في دبرها، فقال: هذا يسألني عن الكفر”.
یعنی:حضرت طاوس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو پیچھے کے راستہ سے اپنی بیوی سے تسکینِ شہوت کرتا ہو تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ یہ تو کفر کے بارے میں مجھ سے سوال کرتا ہے؟
علامہ عبدالمصطفی اعظمی فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اگر ان کاموں کو حلال جان کر کیا تو وہ یقینا کافر ہوگیا کیونکہ اللہ عزوجل کے حرام کو حلال جاننا کفر ہے اور اگر ان کاموں کو حرام مانتے ہوئے کر لیا تو سخت گنہگار ہوا اور مسلمان ہوتے ہوئے کفر کا کام کیا۔
(جہنم کے خطرات ص ۱۲۲)
جوہرہ میں ہے کہ وَأَمَّا الْوَطء فِي الدُّبُرِ فَحرَام فِي حَالَةِ الْحَيْضِ وَالطهْرِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ أَی مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمْ اللهُ بِتَجَنبِهِ فِي الْحَيْضِ وَهُوَ الْفَرْجُ وَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِتيَانُ النِّسَاءِ فِي أَعْجَازِهِنَّ حَرَام۔
یعنی: عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنا حالت حیض اور طہر دنوں میں حرام کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کے پاس وہاں سے آو جہاں سے اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا یعنی جہاں سے حالت حیض میں منع کرنے کے بعد حکم دیا ہے اور وہ فرج ہے۔
(جوهرة نیرۃ،ج:۱،ص 86)
بدائع الصنائع میں اسے لوطیت صغری کہا گیا
وَلَا يَحِلُّ إِتيَانُ الزَّوْجَةِ فِي دُبُرِهَا … وَعَلَى ذَلِكَ جَاءَتْ الْآثَارُ مِنَ الصَّحَابَةِ الْكِرَامِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ أَنَّهَا سُميَتْ اللوطِيَّةَ الصُّغُرَى”
(بدائع الصنائع،ج:۵ص:۲۵۰)
مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں کہ عورت کی دبر میں وطی کرنا تمام دینوں میں حرام ہے اسلام میں حرام قطعی ہے کہ اس کا منکر ( یعنی اسے حلال جاننے والا) کا فر ہے اس کا مرتکب فاسق و فاجر۔
(مراۃ المناجیح ج ۵ ص ۱۰۴)
مزید یہ کہ حدیث مبارکہ میں اس فعل شنیع سے سختی سے منع کیا گیا۔
عن خزیمہ بن ثابت قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِن الْحَق ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَدْبَارِهِنَّ”
یعنی:حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے۔ تم لوگ عورتوں سے اُن کے پیچھے کے مقام میں جماع نہ کرو۔
(سنن ابن ماجه، كتاب النكاح باب النهي عن اتيان النساء الحدیث ۱۹۲۴، ج ۲، ص ۴۵۰)
لہذا شواہد و براہین بالا کے پیش نظر عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنے کا عمل اسلامی شریعت میں حرام و بد انجام ہے اور اس کا حرام ہونا کتاب و سنت اور اجماع صحابہ و اجماع ائمہ و مجتہدین سے ظاہر و باہر ہے البتہ اگر کسی سے یہ گناہ سرزد ہو جائے تو اس گناہ سے سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے، اگر توبہ کر لے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالی معاف فرما دےگا، اللہ تعالی سے خوب گڑگڑا کر توبہ و استغفار ہی اس برے عمل کا تدارک اور کفارہ ہے۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344