فتویٰ متعلق حدیث قرطاس
مسئلہ: از محمد قمر الدین قادری چشتی ڈاکخانہ منڈی ضلع پونچھ (جموں کشمیر)
کیا فرماتے ہیں علمائے ملت اسلامیہ اس مسئلہ میں کہ رافضی لوگ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے درد کی شدت میں صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ تاکہ میں تم لوگوں کے لئے ایک تحریر لکھ دوں جس سے تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہو تو حضرت عمر نے کہا کہ اس وقت حضور کو درد کی شدت ہے وہ ہذیان بول رہے ہیں لکھنے کا سامان لانے کی ضرورت نہیں تمہارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے اس بات پر جب صحابہ نے قلم دوات لانے میں اختلاف کیا اور لوگوں کی گفتگو سے شور و غل ہوا تو حضور نے سب کو اپنے پاس سے اٹھا دیا اس واقعہ سے چار اعتراض پیدا ہوتے ہیں:(۱) اوّل یہ کہ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو رد کر دیا حالانکہ حضور کا قول وحی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے
وما ینطق عن الھوی ان ھو الاوحی یوحٰی
اور وحی کا رد کرنا کفر ہے؟(۲) دوسرے یہ کہ حضور سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت کی یعنی بہکی بہکی باتیں کرنا اس میں حضور کی توہین ہوئی اس لئے کہ نبی کو کبھی جنون نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی وہ بہکی بہکی باتیں کر سکتا ہے؟
(۳) تیسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لوگوں نے شور و غل کیا اور چلائے جبکہ قرآن حکیم میں ہے کہ جو پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرے گا اس کی سب نیکیاں براد ہو جائیں گی؟ (۴) چوتھے یہ کہ لکھنے کا سامان نہ دینے سے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی۔ اگر حضور تحریر لکھ دیتے تو مسلمان گمراہی سے محفوظ ہو جاتے۔
ان اعتراضوں کے مدلل اور مفصل جواب تحریر فرمائیں کرم ہو گا۔
الجواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیمo نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم
جوابات لکھنے سے پہلے ہم اس واقعہ سے متعلق دو روایتیں درج کرتے ہیں تاکہ اصل واقعہ معلوم ہو جانے کے بعد جوابات کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
پہلی روایت:
عن سعید بن جبیر قال قال ابن عباس یوم الخمیس اشتد برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجعہ فقال ایتونی بکتف اکتب لکم کتا بالا تضلوا بعدہ ابداً فتنازعوا ولاینبغی عند نبی تنازع فقالوا ماشانہ اھجر استفھموہ فذھبوا یردون علیہ فقال دعونی ذرونی فالذی انا فیہ خیر مماتدعوننی فامرھم بثلث فقال اخرجوا المشرکین من جزیرۃ العرب والجیزواالوفد بنحو ماکنت اجیزھم وسکت عن الثالثۃ۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جمعرات کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درد زیادہ ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس شانہ کی ہڈی لاؤ میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم لوگ کبھی نہ بہکو تو لوگوں نے آپس میں اختلاف کیا اور نبی کے پاس اختلاف مناسب نہیں‘ تو کئی لوگوں نے کہا کہ حضور کا کیا حال ہے کیا جدائی کا وقت قریب آ گیا ہے آپ سے دریافت کر لو؟ بعض صحابہ نے لکھنے کے بارے میں آپ سے دریافت کرنا شروع کیا تو جواب میں آپ نے فرمایا کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اس لئے کہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے کہ جس کی طرف تم لوگ مجھے بلا رہے ہو‘ اور آپ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: اوّل: مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دو، دوم ایلچیوں کو انعام دو جیسا کہ میں دیتا تھا‘ یہ کہہ کر تیسری وصیت سے خاموش ہو گئے۔ یا راوی نے کہا کہ میں اس کو بھول گیا۔
(بخاری، مسلم)
دوسری روایت:
عن ابن عباس قال لما حضر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفی البیت رجال فیھم عمر بن الخطاب قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھملوا اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ فقال عمر قد غلب علیہ الوجع وعندکم القرآن حسبکم کتاب اللّٰہ فاختلف اھل البیت واختصموا فمنھم من یقول فربوا یکتب لکم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومنھم من بقول ما قال عمر فلما اکثرو اللغط والاختلاف قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قومواعنی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضور کے وصال کا وقت قریب آیا تو حجرۂ مبارک میں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ میں تم لوگوں کے لئے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم نہ بہکو تو حضرت عمر نے کہا کہ اس وقت حضور کو بیماری کی تکلیف زیادہ ہے تمہارے پاس قرآن ہے وہی اللہ کی کتاب تمہارے لئے کافی ہے تو حجرہ میں جو لوگ موجود تھے انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ حضور کے پاس لکھنے کا سامان رکھ دو تاکہ آپ تمہارے لئے تحریر لکھ دیں‘ اور بعض لوگ وہی کہتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جب لوگوں نے باتیں بڑھا دیں اور اختلاف زیادہ پیدا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے پاس سے اٹھ جاو۔
(بخاری و مسلم)
اجمالی جواب: حدیث شریف سے اصل واقعہ کی تفصیل کے بعد اجمالی جواب یہ ہے کہ یہ کام صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں بلکہ دوسرے صحابہ بھی اس میں شریک ہیں۔ اس لئے کہ جتنے صحابہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارک میں موجود تھے اور اس معاملہ میں وہ لوگ دو گروہ ہو گئے تھے اور حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی اس وقت موجود تھے تو اگر یہ دونوں حضرات لکھنے کا سامان نہ لانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کرتے تو یہ سارے الزامات ان دونوں حضرات پر بھی عائد ہوتے ہیں‘ اور اگر یہ لوگ لکھنے کا سامان لانے کی تائید میں تھے یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے تو اس صورت میں حضور کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے اور روکنے والوں کے سبب رک جانے یعنی لکھنے کا سامان حاضر نہ کرنے کا الزام ان دونوں حضرات پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے لکھنے کا سامان کیوں نہ پیش کر دیا‘ اور پھر یہ واقعہ جمعرات کا ہے‘ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال د وشنبہ مبارکہ (پیر) کو ہوا تو فرصت کا موقع بہت تھا۔ حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے اس درمیان میں حضور سے کیوں نہ لکھوا لیا‘ اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ان لفظوں کے ساتھ تھا۔ ابتونی بقرطاس یعنی تم لوگ میرے پاس کاغذ لاؤ‘ تو یہ حکم سب حاضرین سے تھا نہ کہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے‘ لہٰذا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم فرض یا واجب مانا جائے تو حاضرین میں سے ہر ایک کو گنہ گار تسلیم کرنا پڑے گا‘ اور اگر فرض و واجب نہ مانا جائے تو ان میں سے کسی پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا اور یہی حق ہے۔ رافضیوں کے سارے اعتراضات باطل و غلط ہیں۔ اب ہر ایک کے تفصیلی جوابات نمبر وار درج ذیل ہیں:
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۰۷/۱۰۶/۱۰۵/۱۰۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند