فلمی دنیا میں کمائی ہوئی رقم کے متعلق حکم شرعی
الاستفتاء:کیافرماتے ہیں علماءدین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فلمی ادا کارتھااوراس طرح کےحرام کام سےہی اسکےپاس آمدنی ہوتی تھی اس نےاپنےاس کام سےکروڑوں روپےکمائے،اب اس نےاپنے اس کام سےتوبہ کر لی تواس اسکی کمائی کا کیا حکم ہے؟بینوا تؤجروا (سائل:وقاص،منگھوپیر،کراچی)
باسمہ تعالٰی وتقدس الجواب:
مُروّجہ فلموں ،ڈراموں میں کام کرنا حرام وگُناہ ہے ،اور ان کی کمائی بھی حرام ہے، کیونکہ یہ لَہو ولَعِب میں سے ہیں،یعنی بے شمار حرام کاموں (جیساکہ بے حیائی ،نامَحرموں سے اِختلاط، میوزک و گانے وغیرہ)کا مجموعہ ہوتے ہیں ،اور معصیت و گُناہ کے کام پر اِجارہ کرنا بھی گُناہ ہے،لہذاایسی کمائی کا لینا جائز نہیں ہے، اگر لے لی تو جس سے لی ہے اسے لَوٹا دے ، اگر اس کا علم نہ ہوتو پھر تصدُّق یعنی صدقہ کردے ۔
ہر لَغو بات ،گانابجانا ،مزامیربلکہ اور و ہ کام جو دین سے ،اللہ ورسول ﷺکی اطاعت سے دُور کردے وہ لَہو ولَعِب میں سے ہے، اورلَہو ولَعِب کے متعلق اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﳓ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(۶)(لقمن،۳۱/۶)
ترجمہ: اور کچھ لوگ کھیل کی بات خریدتے ہیں کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھےاور اُسے ہنسی بنالیں اُن کے لیے ذِلت کا عذاب ہے۔(کنزالایمان)
اور آیتِ مذکورہ میں لفظ’’لہو الحدیث‘‘ کےتحت حِبرا لاُمہ امام المُفسّرین حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:(لھوالحدیث)أباطیل الحدیثِ و کُتبُ الأساطیرِ والشَمسِ والنُجومِ والحِسابِ و الغِناءُ۔(تنویر المقیاس من تفسیر العباس،سورہ لقمن،۴۳۲،تحت الایۃ:۶،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ۲۰۰۴م۱۴۲۵ھ)
یعنی:’’لہو الحدیث میں‘‘بیہودہ باتیں اورسورج ،چاندو حساب کی کتابیں(وہ جن سےنجومی مستقبل کی باتوں کا اندازہ لگاتےہیں)اور گانا بجاناشامل ہے۔
اورامام ابو برکات عبداللہ بن احمدبن محمود نَسفی متوفی۷۰۱ھ لکھتے ہیں:واللَّھوُ کلُّ باطلٍ ألھَی عَن الخیرِو لَھوُ الحدیثِ نحو السَمربالأساطیرِ التی لَا أصلَ لَھا والغِناءُ۔(مدارک التنزیل،سورۃ لقمن،۲-۳/۲۷۸،تحت الأیۃ،۶،لھو الحدیث،مطبوعۃ:دارالفکر،بیروت)
یعنی:’’لہو‘‘ہر وہ باطل و لغو چیز ہے جو نیکی اور بھلائی سے غافل کردے،اور ’’لہو الحدیث ‘‘ سے مراد رات کے وقت لوگوں کے سامنے بے اصل و بے بنیاد کہانیاں بیان کرنا اور گانے گانا ہے۔
اور امام ابو اسحاق احمد بن محمد ثعلبی متوفی ۴۲۷ھ لکھتے ہیں:قال أبو الصَھباء البَکرِی :سألتُ ابنَ مسعودٍ عَن ھذہِ الآیۃِ،فَقال:ھُو الغِناءُ واللہِ الَذِی لَاإلہَ إلّا ھُو یُردِّدھا ثلاثَ مرّاتٍ۔۔۔عَن ابنِ عباسٍ:وکُلّ مَاکَان مِن الحَدیث مُلھیّاًعَن سَبیلِ اللہِ إلی مَانَھَی عَنہُ فَھُو لَھوٌومِنہُ الغِناءُ وغَیرہ۔(الکشف والبیان،سورہ لقمان،۵/۴۷-۴۸،تحت الآیۃ:ومن الناس من یشتری۔۔۔إلخ،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولی۱۴۲۵ھ-۲۰۰۴م)
یعنی:ابو صہباء بکری نے کہا کہ میں نےحضرت ابن مسعود(رضی اللہ عنہ)سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا ،تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں (اس آیت سے مراد )گانا گانا ہے،اور اس بات کو آپ نے تین مرتبہ دھرایا۔۔۔(حضرت) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہر وہ بات جو اللہ کے راستے سے اس طرف لے جائے جس سے اس نے منع فرمایا ہے ’’وہ لہوہے‘‘،اور ان میں سے گانا گانا وغیرہ ہے۔
اور امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری متوفی۲۵۶ھ اپنی سند کے ساتھ حضور نبی رحمت ﷺکا فرمان روایت کرتے ہیں:لَيَكُونَنَّ مِن أمّتِي أقوَامٌ يَستَحِلُّونَ الحِرَوالحَرِيرَوالخَمرَوَالمَعَازِفَ۔(صحیح البخاری،کتاب الأشربۃ، باب:ماجآء فیمن یستحلّ الخمر۔۔۔إلخ،۳/۴۹۸،برقم:۵۵۹۰،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۲۰ھ-۱۹۹۹م)
یعنی:میری اُمّت میں عنقریب کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بدکاری ،ریشم،شراب
اور آلاتِ موسیقی کو حلال ٹہرالیں گے۔
اور امام احمد بن حنبل متوفی ۲۴۱ھ اپنی سند کے ساتھ ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :قال رَسُولُ اللہِ ﷺ: لایَحلُّ بَیعُ المُغَنِّیاتِ ولاشِراؤھُنّ ولاتِجارۃٌ فِیھنَّ وأکلُ أثمانِھِنّ حرامٌ۔(المسند لأحمد،حدیث أبی أمامۃ باھلی،۵/۲۵۲، برقم:۲۲۱۶۹،مطبوعۃ:المکتب الإسلامی،بیروت)
یعنی:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:گانا گانے والیوں (اوروالوں)کی خرید وفروخت کرنا،ان کی تجارت کرنااور ان کے عوض ملنے والی قیمت کا کھانا حرام ہے۔
قرآن وسنّت کے ان ہی مذکورہ دلائل کی بنیاد پر فُقہاءِکرام نےلہوولعب اور حرام کام پراِجارہ کرنا،ناجائز وحرام قراردیاہے۔
چنانچہ علّامہ برہان الدین ابو الحسن علی بن حسن ابوبکر فَرغانی مَرغینانی حنفی متوفیٰ ۵۹۳ ھ لکھتے ہیں:ولا یجوزُ الاستئجارُ علی الغِناءِ والنوحِ وکذا سائرُ الملاہِی لأنّہ استئجارُ علی المعصیۃِ والمعصیّۃُ لاتستحقُ بالعَقدِ۔(الہدایۃ،کتاب الإجارات،باب الإجارۃ الفاسدۃ،۲/۳-۲۳۶،مطبوعۃ:دارارقم،بیروت)
یعنی:گانے ،نوحےاور اس طرح کے تمام لہو ولعب کے کاموں پر اِجارہ کرنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ مَعصِیت(گُناہ)والے کام ہیں اور استحقاقِ معصیّت کسی عقد سے نہیں ہوتا۔
اورعلامہ علاءالدین ابو بکربن مسعود کاسانی حنفی متوفیٰ۵۸۷ھ لکھتے ہیں:الاستئجارُعلی المعاصِی أنّہ لایَصحُّ،لأنّہ استئجارٌ علی منفعۃٍ غیرِمقدورۃ الاستیفاء شرعاً،کاستئجارِ المُغنیّۃِوالنّائحۃِ۔(بدائع الصنائع،کتاب الإجارہ،فصل فی شرائط الرکن،۵/۵۶۲،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت، الطبعۃ الاولی۱۴۱۸ھ-۱۹۹۷م)
یعنی:گُناہ و معاصی کے کام پر اجارہ کرناجائزنہیں ہے ،کیونکہ یہ ایسی منفعت پر اِجارہ کرنا ہے جس کا وُصول کرنا شرعا غیرِ مقدور ہے،جیساکہ انسان کا لہوولعب،گانا گانے اور نوحہ کرنے کا اِجارہ کرنا۔
اور مَوسُوعہ فقہیہ کُویتیہ میں ہے:الإجارۃُ علی المنافعِ المُحرّمۃِ کالزنیٰ والنَوحِ والغِناءِ والمَلاھِی محرمۃٌ، وعقدُھا باطلٌ ،لایستحق بہ أجرۃً۔(الموسوعۃ الفقھیۃالکویتیۃ،إجارۃ،الإجارۃ علی المعاصی والطاعات،مطبوعۃ:وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ،الکویت،۱۴۱۴ھ-۱۹۹۳م)
یعنی:حرام کام کےمنافع پر اجارہ کرنا حرام ہے ،جیساکہ زنا،نوحہ،گاناگانااور لہوولعب(وغیرہ)،اور ایسا عقد باطل ہے کہ ان کاموں کے کرلینے کے باوجود (کرنے والا)اُجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔
اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتےہیں :حرام فعل کی اُجرت میں جو کچھ لیا جائے ،وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ مَعاصی پر جائز ہے ،نہ اِطاعت پر۔(فتاوی رضویہ،اعتقادیات وسیر،۲۱/۱۸۷،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور،اشاعت:۱۴۲۳ھ-۲۰۰۲م)
اورعلامہ مفتی وقارالدین قادری حنفی متوفی۱۴۱۳ھ لکھتے ہیں:معصیّت پر اُجرت لینا بھی معصیّت ہوتی ہے،لہذا جس طرح تصویر بنانا حرام ہے،اس کی مزدوری لینا بھی حرام ہے۔(وقارالفتاوی،ممنوعات ومباحات کابیان،۲/۵۱۸،مطبوعہ:بزمِ وقارالدین،کراچی،اشاعتِ اول:۱۴۱۹ھ-۱۹۹۸م)
معلوم ہواکہ حرام کام کی اُجرت لینا حلال نہیں ہے ، اگرلےلی توجس سے لی ہے اسے واپس کرنا واجب ہے ، اگر دینے والے کاعلم نہیں تو پھر وہ رقم صدقہ کردے۔
چنانچہ علامہ محمدبن حسین قادری حنفی متوفی۱۱۲۸ھ ’’بحرالرائق‘‘کے تتمہ میں لکھتے ہیں:وإن أعطَاہ الأجرَوقَبَضَہ لایَحلُّ لَہ ویَجبُ عَلیہِ رَدّہٗ عَلی صَاحِبِہ۔(البحر الرائق،کتاب الإجارۃ،باب الإجارۃ الفاسدۃ،۸/۳۵،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۱۸ھ-۱۹۹۷م)
یعنی:اگر اس (ناجائز کام کرانے والے )نے (ناجائز کام کرنے پر )اُجرت دی، اور اس (کام کرنے والے)نے قبضہ کرلیاتو اس کے لئے یہ اُجرت حلال نہیں ہے، اس پر واجب ہے کہ اُجرت مالک کو واپس کردے۔
اور صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں:ان صورتوں میں اُجرت لینا بھی حرام ہے،اگر لے لی تو واپس کرےاور معلوم نہ رہاکہ کس سے اُجرت لی تھی،تو اسے صدقہ کردےکہ خبیث مال کا یہی حکم ہے۔(بہارِ شریعت،اجارہ فاسدہ کابیان،۳/۱۴۴،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ،کراچی،طباعت:۱۴۳۴ھ-۲۰۱۳م)
یاد رہے!مذکورہ حکمِ حُرمت فقط فلموں ،ڈراموں میں کام کرنےاور اس طرح کے دیگر معصیّت والے کاموں کی اُجرت کا ہے ،البتہ اداکاروں کو ان کی اچھی اداکاری (Best performance)یا وجہ ِشُہرت (Fame)کی وجہ سے جو تحائف و دیگر انعامات ملتے ہیں،وہ حلال و جائز ہیں۔
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتےہیں:اور وہ مال جو انہیں گانے ناچ،مُجلے میں انعام بلاشرط یعنی اُجرتِ مقررہ سے زیادہ ملتا ہےان کے حق میں حُکمِ ہِبہ(تحفہ)رکھتا ہےکہ وہ عقد اِجارہ باطلہ جوان افعال مُحرّمہ پرہوا یہ مال اس کے تحت میں داخل نہیں بلکہ بہت لوگ بطورِخوشنودی کچھ اپنی ناموری کے خیال سےبعض جاہل یہ سمجھ کر کہ ایسےمقامات پرانعام دینا شانِ ریاست ہےدیاکرتے ہیں تووہ اس مال کی مالك ہوگئیں(یاہوگئے)،اسی طرح ڈومنیوں(گانے والوں یا والیوں ) کوجوبیل ملتی ہےاس کابھی یہی حکم ہے۔(فتاوی رضویہ،کسب وحصولِ مال،۲۳/۵۰۸،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن،لاہور،اشاعت:۱۴۲۳ھ-۲۰۰۲م)
کتبہ:
ابو مسعود محمد طلحہ حیدری
المُتَخصّص فِی الفِقهِ الإسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)
۲۶ ربیع الاول ۱۴۴۵ھ۔۱۳،اکتوبر۲۰۲۳م TF-1690
الجواب صحیح
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
شیخ الحدیث جامعۃ النّور ورئیس دارالإفتاء النّور
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
المفتی محمد جنید النعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
المفتی ا بو ثوبان محمد کاشف مشتاق النعیمی
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
المفتی عرفان النّعیمی
دارالإفتاء
دعا مسجد، آگرہ تاج کالونی، کراتشی