مرتد کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

مرتد کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

مسئلہ: از عبدالوارث اشرفی الیکٹرک دوکان مدینہ مسجد ریتی روڈ گورکھپور
مرتد کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
الجواب:وہ مرتد کہ جو کھلم کھلا اسلام سے پھر گیا اور جس نے کلمہ لا الہ الا اللہ کا انکار کر دیا اس کے بارے میں شریعت کا یہ حکم ہے کہ حاکم اسلام اسے تین دن قید میں رکھے پھر اگر وہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے توفبہا ورنہ اسے قتل کر دے۔
(در مختار مع شامی جلد سوم ص ۲۸۶)
اور وہ لوگ جو کہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں اور نماز و روزہ بھی کرتے ہیں مگر اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی دوسرے نبی کی توہین کر کے مرتد ہو گئے تو وہ چاہے سنی بریلوی کہے جاتے ہوں یا وہابی دیوبندی بادشاہ اسلام ان کی توبہ نہیں قبول کرے گا یعنی انہیں قتل کر دے گا۔ فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مرتد اگر ارتداد سے توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہے مگر بعض مرتدین مثلاً کسی نبی کی شان میں گستاخی کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول نہیں۔ توبہ قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ توبہ کرنے کے بعد بادشاہ اسے قتل نہ کرے گا۔
(بہار شریعت جلد نہم ص ۱۲۷)
لیکن نبی کے گستاخ کو قتل کرنا چونکہ بادشاہ اسلام کا کام ہے‘ اور یہ ہمارے یہاں ممکن نہیں‘ تو اب موجودہ صورت میں مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ ایسے لوگوں کا مذہبی بائیکاٹ کریں، ان کا ذبیحہ نہ کھائیں، ان کے یہاں شادی بیاہ نہ کریں۔ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اپنے قبرستان میں انہیں دفن ہونے دیں، مسلمان اگر ان کے ساتھ ایسا نہیں کریں گے تو گنہ گار ہوں گے۔ ارشاد خداوندی ہے
: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo۔
یعنی اور اگر شیطان تم کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالم قوم کے پاس نہ بیٹھو۔
(پ ۷ ع ۱۴)
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ۔
ور ظالموں کی طرف مائل نہ ہو کہ تمہیں (جہنم کی) آگ چھوئے گی۔
(پ ۱۲ ع ۱۰)
وھو سبحانہ و تعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۴۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top