مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد دوسری جماعت کرنا کیسا؟نماز کے بعد دعائے ثانی میں فاتحہ پڑھنا کیسا؟

مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد دوسری جماعت کرنا کیسا؟
نماز کے بعد دعائے ثانی میں فاتحہ پڑھنا کیسا؟

مسئلہ: از شیخ لعل محمد امام اقصیٰ مسجد پوسٹ و مقام پوسد ضلع ایوت محل (مہاراشٹر)
اول(۱) مسجد محلہ جس کا امام و مؤن مقرر ہے بطریق مسنون جماعت ہو چکی ہے اب دوسری جماعت قائم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب فقہ تحریر فرمائیں۔
دوم(۲) یہاں پر دستور ہے کہ نماز پڑھانے کے بعد امام اپنی جگہ ہی پر نماز پڑھتا ہے‘ اور سنت و نوافل پڑھنے کے بعد دعائے ثانی بآواز بلند کرتا ہے بعدہٗ فاتحہ پڑھتا ہے‘ اور ایسا ہر نماز پنجگانہ کے بعد کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ ایسا کرنے کو ناجائز و بدعت کہتے ہیں… لہٰذا دریافت طلب یہ امر ہے کہ امام کا اپنی ہی جگہ پر رہ کر نماز پڑھنا اور بعد نماز فاتحہ پڑھنا اور اس کا دستور بنا لینا جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ قرآن و حدیث جواب تحریر فرمائیں۔

الجواب: (۱) مسجد محلہ میں جس کا امام و مؤذن مقرر ہوں اس میں محلہ والے بطریق مسنون موافق المذہب امام کے پیچھے جماعت کر چکے اس کے بعد باقی لوگوں کا اس مسجد میں دوسری جماعت قائم کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ ظاہر الروایۃ سے حکم کراہت نقل کیا گیا ہے‘ مگر فقہائے کرام نے فرمایا کہ حکم کراہت صرف اس صورت میں ہے جب کہ باقی لوگ دوسری اذان کے ساتھ جماعت ثانیہ کریں ورنہ بالاجماع مکروہ نہیں۔ اس مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر باقی لوگ اذان جدید کے ساتھ اعادۂ جماعت کریں تو مکروہ تحریمی ہے‘ اور اگر محراب نہ بدلیں تو مکرہ تنزیہی ہے‘ اور اگر اذان دوبارہ نہ پڑھیں اور محراب بدل کر جماعت ثانیہ قام کریں تو بلاکراہت جائز ہے یہی صحیح ہے‘ اور اسی پر فتویٰ ہے۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۷۷ میں ہے:
المسجد اذاکان امام معلوم وجماعۃ معلومۃ فی محلۃ فصلی اھلہ بالجماعۃ لایباح تکرارھا فیہ باذان ثان اما اذا صلوا بغیر اذان یباح اجماعاً و کذا فی مسجد قارعۃ الطریق کذا فی شرح المجمع للمصنف ا ھ۔
اور فتاویٰ بزازیہ جلد اوّل مع ہندیہ ص ۶۲ و ردالمحتار جلد اوّل ص ۲۶۵ میں ہے:
عن ابی یوسف اذا لم تکن علی الھیئۃ الاولٰی لاتکرہ والاتکرہ وھو الصحیح وبالعدول عن المحراب تختلف الھیئۃ۔وزاد فی التاترخانیۃ عن الولوالجیۃ وبہ ناخذ۔ا ھ
۔مگر یہ جماعت ثانیہ کا جواز صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو کبھی کسی عذر کے سبب جماعت اولیٰ کی حاضری سے محروم رہے نہ یہ کہ جماعت ثانیہ کے بھروسے پر بلاعذر شرعی قصداً جماعت ترک کرے یہ بلاشبہ ناجائز و گناہ ہے۔ وھو تعالٰی اعلم
دوم(۲) جائز ہے بشرطیکہ اس کے خلاف کو جائز نہ سمجھتا ہو کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سب لوگوں کا مجموعی طور پر دعا کرنا اور سورۂ فاتحہ یا دوسری آیتوں کو تلاوت کے بعد اس کا ایصال ثواب کرنا شرعاً ممنوع نہیں کہ بندہ جب چاہے تنہا دعا کرے یا مجموعی طور پر اسے شریعت کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اپنی تلاوت یا کسی کارخیر کے ایصال ثواب کا بھی ہر وقت مجاز ہے۔ رہا سوال اس کے دستور بنا لینے کا تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسے کہ بعض لوگ بعد نمازِ فجر تلاوت قرآن کریم کا دستور بنا لیتے ہیں حالانکہ شریعت نے بعد نماز فجر تلاوت قرآن کے لئے وقت نہیں معین فرمایا ہے‘ اور بخاری و مسلم کی حدیث ہے: کان عبداللہ بن مسعود یذکر الناس فی کل خمیس۔ (مشکوٰۃ ص ۳۳) یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وعظ فرماتے تھے حالانکہ شریعت نے ہر جمعرات کو وعظ کے لئے حکم نہیں دیا ہے۔ رہا اس طریقے کو بدعت کہنا تو وہ بدعت ضرور ہے مگر بدعت سیئہ نہیں ہے بلکہ بدعت حسنہ یا بدعت مباحہ ہے‘ اور بدعت حسنہ و بدعت مباحہ عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہیں۔ مثلاً مسلمان بچوں کو ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرایا جاتا ہے ایمان کی یہ دوقسمیں اور ان کے یہ دونوں نام بدعت ہیں کلموں کی تعداد، ان کی ترتیب اور ان کے نام سب بدعت ہیں۔ قرآن کریم کے تیس پارے بنانا ان میں رکوع قائم کرنا اور اس پر زبر زیر وغیرہ لگانا اور آیتوں کا نمبر لگانا سب بدعت ہے حدیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا یہ بھی بدعت ہے اصول حدیث اور اصول فقہ کے سارے قاعدے قانون بدعت ہیں۔ فقہ اور علم کلام یہ بھی از اوّل تا آخر بدعت ہے نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت اور رمضان المبارک میں بیس رکعت تروایح پرہمیشگی کرنا بدعت ہے خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نعمۃ البدعۃ ھٰذہ۔ یعنی یہ بہترین بدعت ہے۔ (بخاری شریف مشکوٰۃ شریف ص ۱۱۵) روزہ کی نیت اس طرح زبان سے کہنا: نویت ان اصوم غدا للّٰہ تعالٰی من فرض رمضان اور افطار کے وقت زبان سے کہنا:
ہ بھی دونوں بدعت ہیں اس طرح شریعت کے چار طریقے حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی‘ اور طریقت کے چار سلسلے قادری، چشتی، نقشبندی اور سہروردی سب بدعت ہیں اور ان کے وظیفے جو دستور کے مطابق پڑھے جاتے ہیں اور مراقبے و چلے وغیرہ بھی بدعت ہیں جن کو سب لوگ دین کا کام سمجھ کر کرتے ہیں لہٰذا جس طرح یہ سب بدعتیں جائز ہیں اسی طرح دعائے ثانی و فاتحہ کی بدعت بھی جائز ہے۔ وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۴۱/۳۴۰/۳۳۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top