نجس کپڑا پہن کر غسل کرنا کیسا ہے؟
مسئلہ: از ڈاکٹر شمشیر احمد انصاری محلہ کریم الدین پور گھوسی ضلع اعظم گڑھ
زید نے نجس کپڑا پہن کر غسل جنابت کیا اور غسل کے درمیان کپڑا تن سے جدا نہیں کیا اس کا غسل ہوا کہ نہیں؟ اگر نہیں تو کیا علت ہے؟ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم و کتب فقہ کی روشنی میں جواب سے مطلع فرمائیں۔
الجواب: نجس کپڑا پہن کر غسل کرنے کے بارے میں حضرت امام ابویوسف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر غسل کرنے والے نے اپنے کپڑے پر بہت پانی ڈالا تو وہ پاک ہو جائے گا اور جب کپڑا پاک ہو جائے تو وہ صحت غسل کو مانع نہ ہو گا۔ فتح القدیر جلد اوّل ص ۱۸۵ میں ہے:
قال ابویوسف فی ازار الحمام اذا صب علیہ ماء کثیر وھو علیہ یطھر بلاعصر
اس لئے کہ غسل میں بہت زیادہ پانی ڈالنا یقینا تین بار دھونے اور نچوڑنے کے قائم مقام ہو جائے گا۔
جیسا کہ بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۳۸ میں ہے:
یکن لوگ عموماً زیادہ پانی نہیں ڈالتے جس سے نجاست اور پھیل جاتی ہے بلکہ ہاتھ میں نجاست لگ جاتی ہے پھر بے احتیاطی سے سارا بدن یہاں تک کہ برتن بھی نجس ہو جاتا ہے اس لئے پاک ہی کپڑا پہن کر غسل کرنا چاہئے اور یا تو محفوظ مقام پر ننگے نہانا چاہئے۔ ہاں اگر ندی وغیرہ میں غسل کرے اور نجاست ایسی ہو کہ بغیر ملے زائل نہ ہو تو اسے مل کر دھوئے‘ اور اگر ایسی نہ ہو تو پانی کے دھکے اور بہاؤ سے کپڑا خودبخود پاک ہو جائے گا۔
شامی جلد اوّل ص ۲۲۲ میں ہے: الجریان بمنزلۃ التکرار والعصر ھو الصحیح (سراج)
وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۵؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۶۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند