نسبندی کرانے والے کی امامت کا حکم کیا ہے؟
مسئلہ: از نور محمد مصباحی مدرس دارالعلوم رضویہ بڑھیا پوسٹ مذوبازار ضلع گونڈہ
زید مڈل اسکول کا ٹیچر ہے صوم و صلوٰۃ کا پابند بھی ہے۔ نس بندی کے دنوں میں نس بندی کا جو زور تھا اس سے ہر شخص واقف ہے ڈسٹرکٹ بورڈ کی طرف سے نوٹس آئی جس میں صاف طور سے لکھا ہوا تھا کہ آپ فیملی پلاننگ کے تحت اپنی یا اپنی اہلیہ کی نس بندی کرایئے اس پر زید نے عمل نہیں کیا اس کے معطلی کا کاغذ آیا زید نے کاغذ لیا اور تہیہ کر لیا کہ نس بندی نہیں کراؤں گا بھلے مجھے مستعفی ہونا پڑے کچھ ہی دنوں کے بعد تعلیمی محکمے کے بڑے افسر نے بلا کے جملہ ماسٹران کو جمع کر کے خطاب کیا کہ کوئی شخص استعفیٰ دے کر بھی نس بندی سے نہیں بچ سکے گا ہمارے ملک کا قانون ہے ہندوستان میں رہ کر اس کی مخالفت کرنا بغاوت کے مترادف ہو گا تعلیمی افسر نے یہ بھی کہا جو ماسٹر نس بندی نہیں کراتا ہے اسے میسا کے تحت جیل جاناپڑے گا ان حالات کے پیش نظر زید نے مجبور ہو کر نس بندی کرا لی اب نس بندی کرانے کے بعد زید پر ازروئے شرع کیا حکم لاگو ہو گا کیا زید کو سماج میں ذلیل نگاہوں سے دیکھا جائے گا کیا اس کی امامت اذان و اقامت وغیرہ جائز ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: جب کہ نس بندی کے بارے میں حکام نے دہشت پھیلا رکھی تھی اور ملازمین کو طرح طرح کی دھمکیوں سے ڈرایا جا رہا تھا اس صورت میں اگر زید نے مجبوراً نس بندی کرا لی تو اسے مجرم نہیں قرار دیا جائے گا لیکن احتیاطاً و علانیہ توبہ کر لے اب توبہ کے بعد بھی نس بندی کے سبب زید کی امامت اور اذان و اقامت پر اعتراض کرنے والے اور اسے ذلیل نگاہوں سے دیکھنے والے بلاشبہ گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گے حدیث شریف میں ہے: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۲؍ صفر المظفر ۱۳۹۸ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۶۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند