نماز جمعہ کا چندہ خطبہ کے بعد اقامت سے پہلے کروانا کیسا ہے؟
الإستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع مبین اس مسئلہ میں کہ ہمار یہاں کی جامع مسجد مکہ حنفیہ کی انتظامیہ اور امام صاحب نے ایک عرصہ سے یہ نیا طریقہ اختیار کیا کہ نماز جمعہ کا چندہ خطبہ کے بعد اقامت سے پہلے کرواتے ہیں اور اس میں چندے کی ٹوکری لیکر نمازیوں کی گردن پھلانگ کر ممبر پر رکھ دی جاتی ہے۔ازروئے شرع کیا چندے کا یہ طریقہ شرعاً جائز ہے کہ نہیں۔
(سائل: حضرت مولانا وسیم قادری رضوی،شاہ فیصل کالونی،کراچی)
باسمہ تعالٰی و تقدّس الجواب:
شریعت ِمطہّرہ کی رُو سے خطبہ اور اقامت کا باہم متّصل ہونا مطلوبِ شرع اور ان کے درمیان فصَل کا پایا جانا مکروہ و ناپسندیدہ اور خلا فِ سنّت عمل ہےاور فصل کے اجنبی ہونے کی صورت میں خطبہ کے اعادہ کاحکم دیاجائے گا جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
خطبہ ٔ جمعہ کے فوراً بعد اقامت کہی جائے
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:’’(فَإذا أتمّ) ای الإمامُ الخُطبۃَ( أقِیمَتْ) بحیث یتّصلُ أوّل الاقامۃِ بآ خرِ الخُطبۃِ و تَنتھی الإقامۃُ بِقیامِ الخَطیبِ مقامَ الصّلاۃِ‘‘(ردّ المحتار علی الدّرّالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب الجمعۃ، ۳/۴۳، تحت قولہ: فإذا أتم،مطبوعۃ: دارالمعرفۃ،بیروت ،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۰ھ-۲۰۰۰م)
یعنی،جب امام خطبہ مکمل کرلے تو اقامت کہی جائے اس طرح کہ اوّلِ اقامت آخرِ خطبہ کے ساتھ ملی ہو اور اقامت خطیب کے اپنے جگہ کھڑے ہونے کے ساتھ ختم ہو۔
خطبہ اور اقامت کے درمیان فصل مکروہ ہے،چنانچہ امام ابو بکر بن علی بن محمد حداد زبیدی حنفی متوفی۸۰۰ھ لکھتے ہیں: وإن خَطبَ قاعداً أو على غيرِ طهارةِ جَازَ) لحُصولِ المقصُودِ وهو الذِّكرُ والوعظُ إلا أنّه يُكرَه لما فيْه من الفَصلِ بينَهما وبينَ الصّلاةِ(الجوھرۃ النیرۃ،کتاب الصلوۃ،باب صلاۃ الجمعۃ،۱/۲۲۵،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۷ھ-۲۰۰۶م)
یعنی،اگر بیٹھ کر یا بغیر طہارت کے خطبہ پڑھا تو یہ جائز ہے مقصود کے حاصل ہونے کی وجہ سے اور وہ وعظ و نصیحت ہے مگر یہ کہ خطبہ اور نماز کے درمیان فاصلہ ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔
اور علامہ عبد اللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی ۶۸۳ ھ لکھتے ہیں:’’فإن خَطبَ قاعداً أو على غيرِ وضوءٍ جاز) لما رُويَ أنّ عثمان لما أسنّ كان يخطبُ قاعداً، ولأنّ الطّهارةَ ليستْ بشرط للخطبة لأنّه ذكرٌ لا يَشترِط له اسْتقبالُ القبلةِ فلا تَشترطُ له الطهارةُ كالتلاوةِ والأذانِ والإقامةِ، إلا أنّه يُكره لما فيه من الفصْلِ بين الخُطبةِ والصّلاة بالوضوءِ، وقد أسَاءَ لمخالَفته السنّةِ‘‘۔( کتاب الإختیار لتعلیل المختار،کتاب الصلاۃ ،باب:صلاۃ الجمعۃ،ص:۱۱۰، مطبوعۃ:دار المعرفۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ:۱۴۲۳ھ۲۰۰۲م)
یعنی،خطیب نے اگر بیٹھ کر یا بغیر وضو کےخطبہ دیا تو یہ جائز ہے؛ کیونکہ روایت کیا گیا ہے جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی عمر طویل ہوگئی تھی تو آپ بیٹھ کر خطبہ دیا کرتے تھے(اور بغیر وضو کے خطبہ کا جواز کی وجہ ) کیونکہ خطبے میں طہارت شرط نہیں کہ ذکر کیا گیا کہ استقبال قبلہ اور طہارت خطبے میں شرط نہیں،جیسے،تلاوت اذان اور اقامت میں شرط نہیں لیکن نماز اور خطبہ میں فاصلہ آنے کی وجہ سے یہ مکروہ ہےاور جو ایسا کرے تو اس نے مخالفت سنّت کی وجہ سے بُرا کیا۔
خطبۂ جمعہ اور نماز جمعہ میں وصل سنت ہے،چنانچہ علّامہ علاؤالدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ لکھتے ہیں:’’فلا تَشتَرطُ لها الطهارةُ إلا أنّها سنّةٌ؛ لأنّ السنّة هي الوَصلُ بين الخُطبةِ والصّلاةِ ولا يَتمكنُ من إقامةِ هذهِ السُنّة إلا بالطهّارةِ‘‘(البدائع الصنائع فی ترتیب الشّرائع،کتاب الصّلاۃ،باب الجمعۃ،فصل فی بیان شرائط الجمعۃ،،۲/۱۹۷، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃ الاولیٰ ۱۴۱۸ھ، ۱۹۹۷م)
یعنی،خطبے میں طہارت شرط نہیں مگر یہ کہ سنّت ہے؛کیونکہ سنّت وہ خطبہ اور نماز کے درمیان وصل(ملانا)ہے اور یہ سنّت خطبہ کو طہارت کی حالت میں دینے کے ساتھ ہی قائم ہوگی۔
خطبۂ جمعہ اور نماز کے درمیان فاصلۂ اجنبیہ جائز نہیں اور خطبہ کا اعادہ بھی ضروری ہے،چنانچہ امام ابو بکر بن علی بن محمد حداد زبیدی لکھتے ہیں:ولو أنّ الخطيبَ لو فَرغَ من الخطْبةِ سَبقهُ الحدثُ فذَهبَ إلى بيته وتوضّأ وجاءَ فصلّى بهم جاز،ولو تغدّى في بَيته وجَاءَ لم يجزْ أنّ يصلّي بهم ما لم يعدِ الخُطبةِ(الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الصّلوۃ باب:صلاۃُ الجمعۃ،۱/۲۲۶،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت،الطبعۃ الأولی ۱۴۲۷ھ-۲۰۰۶م)
یعنی،خطیب خطبے سے فارغ ہوا اور پھر اس کا وضو ٹوٹ گیا پس وہ گھر گیا اور وضو کیا پھر آکر نماز پڑھائی تو یہ جائز ہے اور اگر گھر جاکر کھانا کھایا اور پھر آکر نماز پڑھائی تو یہ نماز پڑھانا جائز نہیں یہاں تک کہ خطبے کا اعادہ کرلے۔
عموماً جمعہ کے دن نما زیوں کی تعداد معمول سے زیادہ ہوتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے خطبہ کے بعد اور اقامت و جماعت کے درمیان چندہ کرنا جہاں فصل طویل کی طرف لے جانے والا ہے وہیں تاخیر کے سبب نمازیوں پر گراں بھی ہےاور پھر ہمارے ہاں معروف و معہود جمعہ کے فرض کی ادائیگی کے بعد چندہ کرنا ہے ،لہذا مسجد انتظامیہ اور امام صاحب کو چاہیے کہ جمعہ کو چندہ خطبہ اور نمازِ جمعہ کے بعد کرے تاکہ سنّت پر عمل بھی ہو اور ہر طرح کی کراہت سے بھی خالی ہوکر ادائیگئ جمعہ کا سلسلہ ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد کامران صاحب قبلہ
المُتَخصّص فِی الفِقهِ الإسلامی
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)
یکم ربیع الثانی۱۴۴۵ھ۔۱۷،اکتوبر۲۰۲۳م TF-1693
الجواب صحیح
الدکتورالمفتی محمد عطاء اللّٰہ النّعیمی
شیخ الحدیث جامعۃ النّور ورئیس دارالإفتاء النّور
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی
الجواب صحیح
المفتی محمد جنید صاحب قبلہ
دارالإفتاء
جمعیۃ إشاعۃ أھل السنۃ(باکستان)،کراتشی