نہ ہندو ہوں نہ مسلم نہ عیسائی نہ کافر ہوں
ہوں خادم اپنے مرشد کا مرا مذہب محبت ہے
یہ کہنا کیسا ہے؟
مسئلہ:
محمد ایوب قادری گونڈوی۔ نوری مسجد جنکشن بریلی شریف
زید کا اس شعر کے مطابق عقیدہ ہے‘ اور زید کہتا ہے کہ میرے مرشد گرامی بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بیعت کرتے تھے میں ان کی خانقاہ کا سجادہ نشین ہوں اور میرے مرشد گرامی نے مجھے خلافت عطا فرمائی ہے۔ میرے مرشد گرامی یہ شعر پڑھتے تھے اور عقیدہ بھی رکھتے تھے اس لئے میں بھی وہی شعرپڑھتا ہوں اور میرا بھی عقیدہ ہے وہ شعر یہ ہے:
نہ ہندو ہوں نہ مسلم نہ عیسائی نہ کافر ہوں
ہوں خادم اپنے مرشد کا مرا مذہب محبت ہے
دریافت طلب یہ امر ہے کہ یہ شعر کیسا ہے‘ اور اس کے مطابق عقیدہ رکھنے والے کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟
الجواب:
فتاویٰ عالمگیری جلد دوم احکام المرتدین میں ہے:
من شک فی ایمانہ وقال انا مومن انشاء اللّٰہ فھو کافر اھ۔ اور بہار شریعت حصہ نہم بیان مرتد میں ہے کہ ’’جس شخص کو اپنے ایمان میں شک ہو یعنی کہتا ہے کہ مجھے اپنے مومن ہونے کا یقین نہیں یا کہتا ہے معلوم نہیں میں مومن ہوں یا کافر تو وہ کافر ہے اھ‘‘ ان عبارتوں سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جب اپنے ایمان میں شک کرنے والا کافر ہے تو جو شخص یہ کہے کہ میں مسلم نہیں ہوں وہ بدرجۂ اولیٰ کافر ہے بعد میں یہ کہنا کہ میں کافر نہیں اسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ لہٰذا شعر مذکور کفری ہے۔ مرید ہو یا سجادہ نشین کوئی بھی ہو اس کے مطابق عقیدہ رکھنے والا کافر ہے۔ اس پر توبہ تجدید ایمان فرض ہے‘ اور بیوی والا ہے تو تجدید نکاح بھی ضروری ہے۔
وھوتعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی
۲؍ ربیع الاول ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۵۲/۵۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند