وہابی دیوبندی اہل حدیث کی مسجد یا مدرسے میں چندہ دینا کیسا نیز کیا ان کے یہاں چندہ دینے سے مقصد پورا ہوجاتا ہے؟
WAHABI DEWBANDI AHLE HADEES KI MASJID YA NADARSE MEN CHANDA DENA KAISA HAI?AUR KYA UN KE YAHAN CHANDA DENE SE MAQSAD PURA HOJATA HAI?
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
تمام علماء کرام سے میرا ایک سوال ہے کہ کسی بھی وہابی دیوبندی اہل حدیث کی مسجد یا مدرسے میں چندہ دینا کیسا ہے
کیا ان لوگوں کے یہاں پیسے دینے سے مقصد پورا ہو جاتا ہے
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل حافظ محمد اسیرالحق قادری رضوی پورنوی بہار الہند
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
وہابی دیوبندیوں اہل حدیث کے مساجد و مدارس میں چندہ دینا ناجائز و حرام اور گناہ ہے نیز وھابی دیوبندی کے مساجد و مدارس مساجد و مدارس ہی نہیں ہیں 👇
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ کفار کی مسجد مثل گھر کے ہے
📗✒المفوظ حصہ اول صفحہ 109
اور قدیم فتاویٰ رضویہ تحریر فرماتے ہیں کہ ان کی مسجد ایک مکان ہے ۔
📗✒فتاویٰ رضویہ ج6 ص 429
🍍صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ وھابی دیوبندی کی بنائی ہوئی مسجد شرعا مسجد نہیں اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یعنی اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں
📗✒پ 10 سورہ توبہ آیت مبارکہ 18
📗✒فتاوی امجدیہ ج 1 ص 256
🕌مسجد ہونے کے لئے زمین کا وقف ہونا شرط ہے اور کافر وہ بھی مرتد کا مسجد کے وقف درست نہیں بلکہ مرتد کا کسی کار خیر کے لئے وقف وقف نہیں اس لئے ان فرقوں کی بنائی ہوئی مسجد نہیں
🕌 اور رہے وہ مدارس و مساجد وہ مقامات جہاں وھابی دیوبندی وغیرہ نے اپنی عبادت گاہیں وغیرہ بناچکے ہیں، اگر وہ پہلے سے مسلمانوں کی مساجد و مدارس تھیں تو ظاہر ہے کہ ان کے تسلط کی وجہ سے وہ مساجد و مدارس کی حیثیت سے خارج نہیں ہوں گے مساجد و مدارس ہی رہیں گے۔ درمختار‘ کتاب الوقف‘ مطلب فی أحکام المسجد میں ہے: أما لو تمت المسجدیۃ ثم أراد البناء منع ولو قال عنیت ذلک لم یصدق تتارخانیۃ ، فإذا کان ہذا فی الواقف فکیف بغیرہ فیجب ہدمہ ولو علی جدار المسجد۔
اور اگر وہ کسی مسلمان کی ذاتی ملکیت تھی ، انہوں نے اسے اپنا ہم خیال بنا کر وہاں اپنی عبادت گاہ بنائی تھی تو وہ بدستور مسلمان ہی کی ملکیت میں ہے، ان کا بنانا بجائے خود غلط تھا ، اب وہ مسلمان خوداُسے مسجد کیلئے وقف کرسکتا ہے چنانچہ وہاں مسجد بنائی جاسکتی ہے ۔جیساکہ ردالمحتار ،کتاب الوقف میں ہے :افاد ان الواقف لا بد ان یکون مالکہ وقت الوقف ملکا باتا ولو بسبب فاسد ۔ (ردالمحتار ،کتاب الوقف ، مطلب قدیثبت الوقف بالضرورۃ)
اگر وھابی دیوبندیوں کی اپنی ذاتی ملکیت تھی ، اور انہوں نے اُس پر اپنی عبادتگاہ بنائی تھی تو چونکہ وہ خارج عن الاسلام ہونے کی وجہ اُن کے وقف کرنے سے وہ چیز انکی ملکیت سے خارج نہیں قرار پاتی ۔لھذا مسلمانوں کو اس زمین پر مسجد بنانے کا حق حاصل نہیں رہتا کیونکہ غیر کی زمین پر مسجد بنانے کی شریعت اجازت نہیں دیتی ، ہاں اگر ان سے وہ زمین خرید لی جائے تو اس جگہ مسجد و مدرسہ بنانا ازروئے شریعت جائز ہے۔ مسلمان وھابی دیوبندیوں سے وہ عمارت یا زمین خرید کر اُسے مسجد بنا سکتے ہیں ۔ولو بنی الذمی فی حیاتہ بیعۃ أو کنیسۃ أو بیت نار کان میراثا بین ورثتہ فی قولہم جمیعا علی اختلاف المذہبین أما علی أصلہما ، فظاہر ؛ لأنہ معصیۃ وأما عندہ فلأنہ بمنزلۃ الوقف والمسلم لو جعل دارا وقفا إن مات صارت میراثا کذا ہذا۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘ کتاب الوصایا)
ان کی تعمیر کردہ عبادت گاہیں ویران اور غیر آباد ہوں اور ان کے قبضہ وتصرف میں نہ ہوں تو مسجد ضرار پر قیاس کرتے ہوئے یہ گنجائش نکلتی ہے کہ اسلامی مملکت میں حاکم اسلام اسے منہدم کرسکتا ہے۔
📗✒تفسیر نسفی سورۃ التوبۃ آیت 107 کی تفسیر کے ضمن میں ہے:کل مسجد بنی مباہاۃ أو ریاء أو سمعۃ أو لغرض سوی ابتغاء وجہ اللہ أو بمال غیر طیب فہو لاحق بمسجد الضرار۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ وہابی دیوبندی اہل حدیث ان کی مساجد و مدارس مکاتب وغیرھم یہ سب دینی کام ہیں ہی نہیں ہیں اسلئے ان کے یہاں چندہ دینے سے مقصد تو پورا نہیں ہوگا البتہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوںگے۔
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
کتبہ:جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند8390418344