ڈر کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخت کر دیا پھر زبانی طلاق کے مطالبہ پر دو مرتبہ ہوں کہا اور اب کہتا ہے میں نے طلاق نہیں دی ہے تو کیا حکم ہے؟
مسئلہ: از محمد بشیر رہرا بازار ضلع گونڈہ
زید کا عقد بکر کی لڑکی زینب کے ساتھ ہوا تھا طرفین کے مابین رنجش اور نااتفاقی ہو گئی اور زن و شوہر میں بھی نااتفاقی ہو گئی۔ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد زید اپنی بیوی زینب کو لینے آیا بکر نے کہا زینب تمہارے گھر جانے کے لئے تیار نہیں ہے لہٰذا تم اسے طلاق دے دو۔ تو زید نے کہا کہ میں طلاق نہیں دوں گا بلکہ اسے لے جاؤں گا بکر نے کہا اگر نہیں طلاق دو گے تو تمہیں ماروں گا اور گریبان پکڑ کر مارنے کے لئے بھی آمادہ ہو گیا اور اس سے پہلے بکر کی والدہ ایک تحریری طلاق نامہ لکھوا کر رکھے ہوئے تھی لکھنے والا فاسق معلن تھا اور اس پر غیرمسلم کی شہادت تھی اب بکر نے کہا کہ اس پر تم دستخط کرو تو زید نے کہا کہ یہ طلاق نامہ ہے میں اس پر دستخط ہرگز نہیں کروں گا پھر بکر نے سختی کی تو زید نے ڈر کی وجہ سے اس پر دستخط کر دیے پھر بکر نے کہا کہ تم کہو کہ میں خدا ورسول کے یہاں سے طلاق دیتا ہوں تو زید نے اس جملے کے کہنے سے بھی صاف صاف انکار کر دیا مگر بکر نے کہا کہ تم کو زبانی بھی کہنا ہو گا۔ تو بکر کے قول بالا پر زید نے دو مرتبہ صرف ہوں کہا اور تیسری مرتبہ اس قول کا اس نے اقرار کر لیا تو ایسی صورت ہو جانے کے بعد اپنے گھر آ کر زید کہتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ اس وقت ڈر کی وجہ سے نہ سمجھ سکا کیا کہتا ہوں تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی کہ نہیں؟ اگر واقع ہوئی تو کون سی؟ رجعی، بائن یا مغلظہ؟ بینوا توجروا۔
الجواب: زید نے دو مرتبہ ’’ہوں‘‘ اگر ایسے لہجے میں کہا کہ جس سے انکار سمجھا جاتا ہے تو صورت مستفسرہ میں صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی اور اگر ایسے انداز میں کہا کہ جس سے اقرار سمجھا جاتا ہے تو طلاق مغلظہ واقع ہوئی۔ بشرطیکہ عورت مدخولہ ہو اس لئے کہ زبان سے کہنے میں اکراہ شرعی کی صورت میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ تنویر الابصار و درمختار میں ہے
: یقع طلاق کل زوج بالغ عاقل و لومکرھا ا ھ۔ وھو تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۵؍ صفر المظفر ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۲،ص:۱۲۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند