کیا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے کی اقتدا درست ہے؟

کیا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے کی اقتدا درست ہے؟

مسئلہ: از رفعت اللہ متعلم مدرسہ غوثیہ فیض العلوم بڑھیا ضلع بستی۔
زید اپنی داڑھی کے بال کتروا کر ایک مشت سے کم رکھتا ہے تو اس کی اقتداء درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو مطلق طور پر یا تخصیص کے ساتھ اور جن لوگوں نے شخص مذکور کی اقتداء میں اپنی نمازوں کو ادا کیا ہے ان پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے مع الدلیل واضح فرمائیں؟

الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔ داڑھی کے بال ایک مشت سے کم کرنا جائز نہیں جیسا کہ درمختار مع شامی جلد دوم ص ۱۱۶ ‘ردالمحتار جلد دوم ص ۱۱۷‘ بحر الرائق جلد دوم ص ۲۸۰‘ فتح القدیر جلد دوم ص ۲۷۰‘ اور طحطاوی علیٰ مراقی ص ۴۱۱ میں ہے:
واللفظ للطحطاوی الاخذ من اللحیۃ وھودون ذٰلک (ای القدر المسنون وھوالقبضۃ) کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ اجد…
یعنی داڑھی جب کہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کو کاٹنا جس طرح کہ بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں… اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۲۱۲ میں فرماتے ہیں کہ ’’گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آں کہ آں راسنت گویند بمعنیٰ طریقہ سلوک در دین ست یا بہجت آں کہ ثبوت آں بسنت ست چونکہ نماز عید را سنت گفتہ اند‘‘… یعنی داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے‘ اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے یا اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ نماز عید کو مسنون فرمایا (حالانکہ نماز عید واجب ہے) اور بہار شریعت جلد شانزدہم ص ۱۹۷ میں ہے: ’’داڑھی بڑھانا سنن انبیائے  سابقین سے ہے مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے‘‘۔ لہٰذا زید داڑھی کے ایک مشت سے کم کرنے کی عادت کے سبب فاسق معلن ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے حتیٰ کہ داڑھی ایک مشت سے کم کرنے والے کی نماز بھی اس کی اقتداء میں جائز نہیں جن لوگوں نے جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھیں سب کا اعادہ واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص ۲۷۳ میں ہے: جن صورتوں میں کراہت تحریم کا حکم ہے صلحاء و فساق سب پر اعادہ واجب ہے۔ جب مبتدع یا فاسق معلن کے سوا کوئی امام نہ مل سکے تو منفرداً پڑھیں کہ جماعت واجب ہے‘ اور اس کی تقدیم ممنوع بکراہت تحریم اور واجب و مکروہ دونوں ایک مرتبہ میں ہیں۔
ودرء المفاسد اھم من جلب المصالح۔ ا ھ۔ ھٰذا ماظھرلی والعلم عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی المولٰی تعالی علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۸؍ ذی الحجہ ۱۳۹۰ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۰۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top