کیا بدمذہبوں کی تعداد زیادہ ہے؟
احادیث مقدسہ میں طبقہ ناجیہ کی علامت ونشانی بیان فرمائی گئی کہ وہ اہل اسلام کا سب سے بڑا طبقہ ہے۔اس کو سواد اعظم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث نبوی میں ہے(اتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار)
ترجمہ:(مسلمانوں کی)بڑی جماعت کی پیروی کرو.جو اس سے الگ ہوا٫وہ الگ ہو کر جہنم میں گیا۔
اہل سنت وجماعت ہی سواد اعظم اور فرقہ ناجیہ پے۔اس کے قلیل التعداد ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے٫گرچہ قانون یہی ہے کہ اگر بالفرض کسی زمانے میں ایک ہی آدمی راہ حق پر ہو تو وہی سواد اعظم ہے٫لیکن علمائے اسلام نے سواد اعظم کا ظاہری معنی ہی مراد لیا ہے کہ اہل حق ہر عہد میں کثیر تعداد میں موجود ہوں گے۔تفصیل ہمارے رسالہ”السواد الاعظم”میں ہے۔
دراصل وہ تمام مومنین جو خود کو سنی کہتے ہیں اور بدمذہبوں کی کسی علامت کو بدمذہبوں کی پیروی میں اختیار نہ کیے ہوں٫وہ تمام مومنین سنی ہیں۔
ہاں جو شخص اپنے سنی ہونے کا انکار کرے اور اپنے آپ کو کسی بدمذہب فرقے کا فرد بتائے تو اس کو سنی قرار نہیں دیا جا سکتاہے۔اس کی تفصیل ہمارے رسالہ:”فرقہ وہابیہ: اقسام واحکام”میں ہے۔
دراصل اقرار پر شرعی حکم وارد ہوتا ہےاور ہر مسلمان کو دین کے ضروری عقائد وضروری فقہی مسائل کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔
لا علم ہونے کا معنی کیا ہے؟
اگر کوئی شخص خود کو بدمذہب جماعت کے حقائق سے بالکل لاعلم بتائے تو جب وہ حقائق بتانے پر اپنے سنی ہونے کا اعتراف کر لے اور بدمذہب جماعت کی طرف اپنی نسبت نہ کرے تو یہ مانا جائے گا کہ وہ شخص اپنے اقرار کے مطابق حقائق سے لاعلم تھا۔
اگر وہ حق کو قبول کرنے میں حیلےبہانے کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لاعلم نہیں٫بلکہ تقیہ باز ہے۔تعلیم یافتگان کی طرح جاہلوں میں بھی تقیہ بازی پائی جاتی ہے۔
بدمذہب جماعت کی علامت کو اختیار کرنا
بدمذہبوں کی پیروی میں بدمذہبوں کی علامت کو اختیار کرنے والا بدمذہب ہی مانا جاتا ہے۔اسی طرح جو اپنے آپ کو جس جماعت کی طرف منسوب کرے٫وہ بھی اسی جماعت کا فرد مانا جاتا ہے۔
مذہب یہود اور مذہب نصاری کے خود ساختہ کفریات سے لاعلم اور بالکل جاہل یہودی ونصرانی بھی مومن نہیں ہے,کیوں کہ وہ اپنے آپ کو یہودی ونصرانی مانتا ہے اور اپنے مسلمان ہونے کا انکار کرتا ہے۔
جو مسلمان شراب کی حرمت سے لاعلم ہو اور شراب پیتا ہو تو وہ گنہ گار ہو گا۔شراب کی حرمت سے لا علمی کے سبب وہ معذور نہیں ہو گا۔بقدر ضرورت دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔
ہاں وہ سنی مسلمان جو محض روزہ ونماز کی تبلیغ کے نام پر تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ میں چلے گئے اور تبلیغی جماعت کو اپنی لاعلمی کے سبب سنی جماعت ہی سمجھتے رہے اور تبلیغیوں کی پیروی میں کسی وہابیانہ علامت کو قبول نہ کئے تو ایسے لوگ بدمذہب شمار نہیں ہوں گے۔
لیکن عام مشاہدہ ہے کہ لوگ ایک دو چلہ کے بعد ہی فاتحہ ونیاز، عرس ومولود النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور دیگر معمولات اہل سنت کو شرک وبدعت کہنا شروع کر دیتے ہیں۔پس ایسے لوگ بدمذہب ہیں۔سنی نہیں ہیں۔یہاں لاعلمی عذر نہیں کیوں کہ بقدر ضرورت دین کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
علم حاصل کرنے کا صرف یہی معنی نہیں کہ کوئی کتاب لے کر کسی استاذ سے پڑھے٫بلکہ جو شخص اہل علم سے پوچھ کر یا سن کر بقدر ضرورت دین کا علم حاصل کر لے تو یہ بھی حصول علم اور طلب علم کی ایک صورت ہے۔وہ طلب علم کے فریضہ کو ادا کرنے والا قرار پائے گا۔عہد رسالت٫عہد صحابہ اور قرون اولی میں کتاب لے کر استاذ سے پڑھنے کا رواج نہیں تھا۔محدثین زبانی حدیثیں بیان کرتے اور مجتہدین بھی زبانی شرعی مسائل بتاتے تھے۔کتابیں بعد میں لکھی گئیں۔عہد رسالت میں صرف قرآن مقدس رقم کیا گیا تھا۔پہلی صدی کے آخری حصہ میں احادیث طیبہ لکھی جانے لگیں۔فقہی اور دیگر کتابیں اس کے بعد لکھی گئیں۔یہ بہت مشہور ہے کہ سب سے پہلے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلے فقہی مسائل کو رجسٹروں میں لکھوایا۔اس کے بعد فقہی مسائل لکھے جانے لگے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:یوم ولادت اقدس 1445