کیا حضور نے باغ فدک حضرت فاطمہ کو دیا تھا؟

کیا حضور نے باغ فدک حضرت فاطمہ کو دیا تھا؟

یہ کہنا صحیح نہیں کہ باغ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا۔ یہ رافضیوں کا افتراء ہے جس کا جواب دینا ہم پر لازم نہیں۔ یعنی اہل سنت کی معتبر کتابوں سے باغ فدک کا دینا ثابت نہیں بلکہ ساری کتابوں سے حضور کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک کا نہ دینا ثابت ہے جیسا کہ مشہور و معروف کتاب ابوداؤد شریف کی حدیث ہے:
عن المغیرۃ قال ان عمر بن عبدالعزیز جمع بنی مروان حین استخلف فقال ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانت لہ فدک ینفق منھا ویعودمنھا علیٰ صغیر بنی ھاشم و یزوج منھا ائمھم وان فاطمۃ سالتہ ان یجعلھا لھا فابٰی فکانت کذٰلک فی حیوۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی مضی لسبیلہ فلما ان ولی ابوبکر عمل فیھا بما عمل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حیوتہ حی مضی لسبیلہ فلما ان ولی عمر بن الخطاب عمل فیھا بمشل ماعملا حتی مضی لسبیلہ ثم اقطعھا مروان ثم صارف لعمر بن عبدالعزیز فرایت امراء منعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاطمۃ لیس لی بحق وانی اشھد کم انی رددتھا علیٰ ماکانت یعنی علی عہد رسول اللّٰہ صلی

اللّٰہ علیہ وسلم وابی بکر و عمر۔
۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبداالعزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت کا جب زمانہ آیا تو انہوں نے بنی مروان کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جس کی آمدنی وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے تھے اور بنی ہاشم کے بچوں کو پہنچاتے تھے اور اس سے مجرد مرد و عورت کا نکاح بھی کرتے تھے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے سوال کیا کہ فدک ان ہی کے لئے مقرر کر دیں تو حضور نے انکار کر دیا تو ایسے ہی آپ کی زندگی بھر رہا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی پھر جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فدک میں ویسا ہی کیا جیسا کہ حضور نے کیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی رحلت فرما گئے پھر جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ حضور اور ابوبکر نے کیا تھا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے۔ پھر مروان نے (اپنے دور میں) فدک کواپنی جاگیرمیں لے لیا یہاں تک کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کی جاگیر بنا۔ پس میں نے دیکھا کہ جس چیز کو حضور نے اپنی بیٹی فاطمہ کو نہیں دیا اس پر میرا حق کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا میں آپ لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اسی دستور پر واپس کر دیا جس دستور پر کہ وہ پہلے تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانۂ مبارک میں۔
(مشکوٰۃ شریف ص ۳۵۶)
اس حدیث شریف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک کا نہ دینا واضح طور پر ثابت ہے بلکہ شرح ابن الحدید جو رافضیوں کی معتبر مذہبی کتاب نہج البلاغۃ کی شرح ہے اس میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
قال لھا ابوبکر لما طلبت فدک بابی وامی انت الصادقۃ الامینۃ عندی ان کان رسول اللّٰہ عھد الیک عھد اووعدک وعدا صدقتک وسلمت الیک فقالت لم یعھدی الی فی ذٰلک۔
جب فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے فدک طلب کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ میرے نزدیک صادقہ امینہ ہیں‘ اگر حضور نے آپ کے لئے فدک کی وصیت کی ہو یا وعدہ کیا ہو تو اسے میں تسلیم کرتا ہوں اور فدک آپ کے حوالے کر دیتا ہوں تو سیّدہ نے فرمایا کہ فدک کے معاملہ میں حضور نے میرے لئے کوئی وصیت نہیں فرمائی

ہے۔
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سیّدہ کو باغ فدک دینے کا جو افسانہ بنایا گیا ہے وہ صحیح نہیں اس لئے کہ حضرت سیّدہ خود فرما رہی ہیں کہ حضور نے فدک کے لئے میرے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی ہے‘ اور نہ وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا جب حضور نے باغ فدک حضرت سیّدہ کو دیا نہیں اور دینے کا وعدہ بھی نہیں فرمایا اور نہ وصیت فرمائی تو پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غصب کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘ اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کو فدک ہبہ کر دیا تھا تو یہ مسئلہ رافضی و سنی دونوں کے یہاں متفقہ طور پر مسلم ہے کہ ہبہ کی ہوئی چیز پر تاوقتیکہ موہوب لہ یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے اس کا قبضہ و تصرف نہ ہو جائے وہ چیز موہوب لہ کی ملک نہیں ہو سکتی اور فدک بالاتفاق حضور کی ظاہری حیات میں کبھی حضرت سیّدہ کے قبضہ میں نہیں آیا بلکہ حضور ہی کے اختیار میں رہا اور آپ ہی اس میں مالکانہ تصرف فرماتے رہے۔

(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۹۳/۹۲/۹۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top