کیا داڑھی منڈانے والے کے پیچھے داڑھی منڈانے والوں کی نماز ہو سکتی ہے؟

کیا داڑھی منڈانے والے کے پیچھے داڑھی منڈانے والوں کی نماز ہو سکتی ہے؟

مسئلہ: از رمضان علی قادری رضویؔ۔ علی آباد بارہ بنکی۔ (یو-پی)۔
کیا داڑھی منڈانے والے کے پیچھے داڑھی منڈانے والوں کی نماز ہو سکتی ہے؟… زید کہتا ہے کہ جب کوئی داڑھی والا نہ ہو تو غیرداڑھی والے کے پیچھے نماز ہو جائے گی۔ جس طرح جمعہ کی امامت کے لئے جب باشرع آدمی نہ ملے تو فاسق معلن کی امامت درست ہے اسی طرح جب نماز پنجگانہ کے لئے کوئی حد شرع داڑھی والا نہ ہو تو داڑھی منڈانے والے کے پیچھے نماز ہو جائے گی۔ زید یہ بھی کہتا ہے کہ داڑھی فرض تو ہے نہیں بلکہ سنت ہے‘ اور جماعت فرض ہے۔ اگر حد شرع داڑھی والا امام نہ ملنے کی صورت میں جماعت نہ کی جائے گی تو ترک فرض ہو گا جو گناہ ہے ترک سنت سے ترک فرض نہ کیا جائے گا… بکر کہتا ہے کہ داڑھی بار بار منڈانا یا ایک مشت سے کم رکھنا فسق ہے‘ اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ لہٰذا داڑھی منڈانے والے کی امامت مکروہ تحریمی اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کا لوٹانا واجب ہے۔ پنج وفتہ نمازوں کی امامت کے لئے متشرع آدمی نہ ہونے کی صورت میں بھی اگر غیرداڑھی والے کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی تو بھی اعادہ واجب ہو گا… دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید و بکر میں سے کس کی بات صحیح ہے؟ نیز مسئلہ پوری تحقیق سے بحوالہ کتب بیان کر دیا جائے۔

الجواب: داڑھی منڈانا حرام ہے جیسا کہ درمختار میں ہے: یحرم علی الرجل قطع لحیتہ یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے‘ اور فتح القدیر جلدثانی ص ۲۷ درمختار مع شامی جلد ثانی ص ۱۱۶ ردالمحتار جلد ثانی ص ۱۱۷ بحر الرائق جلد ثانی ص ۲۸۰ اور طحطاوی علی مراقی ص ۴۱۱ میں ہے:
واللفظ للطحطاوی الاخذ من اللحیۃ وھودون ذٰلک (ای بقدر المسنون وھو القبضۃ) کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ احد واخذکلھا فعلی یھود الھند ومجوس الاعاجم ا ھ۔
یعنی داڑھی جب کہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کا کاٹنا جس طرح کہ بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک جائز نہیں اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایمان کے مجوسیوں کا ہے… اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: ’’داڑھی کترانا منڈانا حرا م ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد ثالث ص ۳۷۲) اور حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم رکھنا حرا م ہے (بہار شریعت ج ۱۶ ص ۱۹۷) اور محدث کبیر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حلق کردن لحیہ حرام ست و روش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں راقلندریہ گویند و گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است‘‘ و آنکہ راسنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دردین ست یابجہت آں کہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند… یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے انگریزوں، ہندؤں اور قلندریوں کا طریقہ ہے‘ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے‘ اور جن فقہا نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا (تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا) تو سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے یا اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ نماز وعید کو ممنون فرمایا (حالانکہ نماز عید و رحمت ہے)(اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۲۲۲) لہٰذا بار بار داڑھی کا منڈانے والا مرتکب حرام اور فاسق ہے اسے امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی۔ غنیہ شرح میں ہے: لوقدموا فاسقا یاثمون بناء علی ان کراھۃ تقدیمہ تحریم لعدم اعتنائہ باموردینہ وتساھلہ فی الاتیان بلوا زمہ فلا یعبد منہ الاخلال ببعض شروط الصلاۃ وفعل ماینا فیھا بل ھو الغالب بالنظر الی فسقہ ا ھ۔ یعنی اگر فاسق کو امامت کے لئے آگے بڑھائیں تو گنہگار ہوں گے کہ اس کو مقدم کرنا مکروہ تحریمی ہے اس لئے کہ وہ دینی امور کا لحاظ نہیں کرتا اور ان کی ادائیگی میں سستی برتتا ہے لہٰذا وہ نماز کی بعض شرطوں کو چھوڑے یا کوئی فعل منافی نماز کرے تو بعید نہیں بلکہ فاسق کا ایسا کرنا بہت ممکن ہے۔ لہٰذا داڑھی منڈانے والے فاسق معلن کے پیچھے داڑھی منڈانے والوں کی نفس نماز تو ہو جائے گی مگر پڑھنے والے گنہگار ہوں گے اور نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہو گی۔ ایسی نماز اگر دوبارہ پڑھیں گے تو گنہگار نہ ہوں گے… طحطاوی علی مراقی میں ہے: الکراھۃ فی الفاسق تحریمیۃ یعنی فاسق میں کراہت تحریمی ہے‘ اور درمختار میں ہے: کل صلا ۃ ادیت مع کراھۃ التحریمۃ تجب اعادتھا۔ یعنی ہر وہ نماز جو مکروہ تحریمی ہو جائے اس کا اعادہ واجب ہے‘ اور فاسق کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھنے کا حکم صرف اس صورت میں ہے کہ جب دوسری جگہ صالح امامت متقی کے پیچھے جمعہ نہ پا سکے ورنہ جمعہ کی نماز پڑھنا بھی فاسق کے پیچھے جائز نہیں۔ ردالمحتا جلد اوّل ص ۲۷۶ میں ہے: فی المعراج قال اصحابنا لاینبغی ان یقتدی بالفاسق الا فی الجمعۃ لانہ فی غیرھا یجدا ماما غیرہ ا ھ قال فی الفتح وعلیہ فیکرہ فی الجمعۃ اذا تعددت اقامتھا فی المصرعلی قول محمد المفتی بہ ا ھ یعنی معراج میں ہمارے اصحاب نے فرمایا کہ جمعہ کے علاوہ کسی دوسری نماز میں فاسق کی اقتدا ء مناسب نہیں اس لئے کہ دوسری نمازوں کے لئے دوسرا امام مل جائے گا اسی پر فتح القدیر میں فرمایاکہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول مفتیٰ بہ پر جب کہ شہر میں متعدد جگہ جمعہ قائم ہو تو اس صورت میں فاسق کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی مکروہ ہے… اورصالح متقی امام نہ ملنے کی صورت میں فاسق کے پیچھے جمعہ پڑھنے کا حکم اس لئے ہوا کہ اس کی اقتدا مکروہ تحریمی اور جمعہ فرض ہے جس کے لئے جماعت شرط‘ تو مکروہ تحریمی کے سبب فرض کو ترک نہ کیا جائے گا‘ اور جماعت فرض نہیں ہے بلکہ عام مشائخ کے قول پر واجب ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۷۷ میں ہے:
الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ کذا فی المتون والخلاصۃ والمحیط ومحیط السرخسی و فی الغایۃ قال عامۃ مشایخنا انھا واجبۃ وفی المفید وتسمیتھا سنۃ لوجوبھا بالسنۃ ا ھ
یعنی جماعت سنت مؤکدہ ہے ایسا ہی متون، خلاصہ، محیط، محیط سرخسی میں ہے‘ اور غایہ میں ہے کہ ہمارے عام مشائخ نے فرمایا کہ جماعت واجب ہے‘ اور مفید میں ہے کہ اس کا نام سنت اس لئے رکھا گیا کہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے‘ اور داڑھی رکھنا سنت نہیں بلکہ واجب ہے جس کا ترک فسق و حرام ہے‘ اور تارک فاسق جس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی جیسا کہ اوپر گزرا اور جماعت واجب۔ لہٰذا واجب کے لئے مکروہ تحریمی کا ارتکاب نہ کیا جائے گا کہ مکروہ تحریمی کا اعتناء واجب سے اہم واعظم ہے جیسا کہ الاشباہ والنظائر ص ۹۹ میں ہے:
اعتناء الشرع بالمنھیات اشد من اعتنائہ بالما مورات ا ھ
اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: ’’جب مبتدع یا فاسق معلن کے سوا کوئی امام نہ مل سکے تو منفرداً تنہا تنہا پڑھیں کہ جماعت واجب ہے‘ اور اس کی تقدیم ممنوع بکراہت تحریم اور واجب و مکروہ تحریمی دونوں ایک مرتبہ میں ہیں ودرء المفاسد اھم من جلب المصالح ہاں اگر جمعہ میں دوسرا امام نہ مل سکے تو جمعہ پڑھیں کہ وہ فرض ہے‘ اور فرض اہم (فتاویٰ رضویہ جلد ثالث ص ۲۷۳) لہٰذا زید کا قول غلط ہے‘ اور بکر کا قول صحیح ہے۔ وھو تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۶۰/۲۵۹/۲۵۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top