کیا طاہرالقادری مجدد ہے؟
KYA TAHIRUL QADRI MUJADDID HAI?
क्या ताहिरूल क़ादरी मुजद्दीद है?
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ:
کیا طاہر الپادری مجدد ہے کیا اسے مجدد مانا جائےگا اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
(سائل:محمد توحیدرضا ازھری مقام رانی سرسواں پوسٹ کسوںدھی بازار تھانہ میرگنج ضلع گوپالگنج بھار)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
کسی کے مجدد ہونے پر اب کوئی دلیل منصوص نہیں ہو سکتی وحی کا سلسلہ منقطع ہے اب یہی دلیل ہے کہ اس عہد کے علماء عوام خواص جسے مجدد کہیں وہ مجدد ہے اس کے علاوہ علماء نے مجدد کے لیے جو چیزیں بطور لوازم کے ذکر کی ہیں وہ طاہر الپادری میں موجود نہیں ہیں اس لئے طاہر الپادری مجدد نہیں ہے۔
سردست حضرت ملا علی قاری کا ارشاد مرقات شرح مشکوۃ سے نقل کرتے ہیں:
حدیث شریف میں ہے ان اللہ عزوجل یبعث لھذہ الائمۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا یعنی بے شک اللہ تعالی ہر سو سال پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لئے اس کے دین کو تروتازہ کرے گا۔
(مشکاۃ المصابیح صفحہ 36 کتاب العلم)
اس حدیث کے تحت ملا علی قاری لکھتے ہیں
ای یبین السنۃ من البدعۃ و یکثر العلم و یعز اھلہ و یقمع البدعۃ و یکسر اھلھا یعنی سنت کو بدعت سے علاحدہ کرے اور علم دین کو پھیلائے اور علمائے دین کو عزت دے اور بدعت کو اکھاڑے اور بدعتیوں کا زور توڑے۔
(مرقاۃ شرح مشکوۃ ج 1 ص 302)
چند سطر بعد جامع الاصول سے نقل فرمایا:
لاکن المبعوث بشرط ان یکون مشارأ الیہ فی کل فن من ھذہ الفنون نقلہ السید شیخ مشائخنا السیوطی ھو الذی احیا علم التفسیر الماثور فی الدر المنثور و جمع جمیع الاحادیث المتفرقۃ فی جامعہ الشھور و ماترک فنا الاولہ فیہ متن او شرح مسطور بل ولہ زیادات مخترعات یستحق ان یکون ھو المجدد فی القرن المذکور کما ادعاہ وھو فی دعواہ مقبول و مشکور ھذا والاظھر عندی واللہ اعلم ان المراد بمن یجدد لیس شخصا واحدا بل المراد بہ جماعۃ یجدد کل واحد فی بلد فی فن او فنون من العلوم الشرعیۃ ما تیسر لہ من الامور التقریریۃ او التحریریۃ و یکون سببا لبقائہ و عدم اندراسہ و انفضائہ الی ان یاتی امر اللہ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہستی سارے فن نے مشاعروں علی ہو اور ہمارے مشائخ کے شیخ حاتم الحفاظ علامہ جلال الدین سیوطی وہ ہیں جنہوں نے میں تفسیر ماثور کے علموں کو زندہ کیا اور کوئی نہیں چھوڑا جس میں ان کا کوئی معاشرہ نہ ہو بلکہ ان کے لئے بہت سے زیادہ جہاں اور بہت سی نہیں نکتہ آفرینیاں ہیں اس کے مستحق ہیں اور کے مجدد ہو گیا ہے اور وہ اپنے دعوے میں مشکور ہیں میرے نزدیک زیادہ ظاہر ہے کہ مجھے دکھ ایک ہی شخص کا ہونا ضروری نہیں میں جدت سے شخص واحد مراد نہیں بلکہ مراد جماعت ہے جس کا ہر فرد اسی شہر میں کسی فن کو یا علوم شرعیہ کے مختلف فنون کو تازہ کرے تقریر یا تحریر سے جو اسے میسر ہوں اور یہ اس فن کی بقا اور نہ ملنے کا سبب ہو یہاں تک کہ قیامت آئے۔
(مرقات شرح مشکات جلد ص302)
مجدد وہ ہوگا جو ایک صدی کے آخر کے اور دوسری صدی کے ابتدائی حصہ میں موجود ہو
وہ مشارالیہ ہو یعنی اپنے علم وفضل ورع و تقویٰ استقامت فی الدین تحریر یا تقریر یا دونوں میں ایسا یکتا ہو کہ وہ مرجع عوام و خواص ہو عوام و خواص سب اپنی دینی ضرورتوں میں اس کی طرف رجوع کرتے ہو اور سب اس کی باتوں کو تسلیم کرتے ہوں
دینی علوم و فنون اور جو علوم و فنون دینی علوم و فنون کے لیے ذریعہ ہیں سب کا جامع ماہر اور سب کی تنقید و تصویب کا ملکئہ تامہ رکھتا ہو
سنت کی حمایت و نصرت اور بدعات کا استیصال اور اس کی بیخ کنی میں مصروف ہو
حفاظت دین کی ہرممکن تدبیر اختیار کرے اسلام دشمن افکار اور تحریکات کے خلاف مصروف رہے
جو کچھ ملا علی قاری نے لکھا ہے
یہ خاتم الحفاظ علامہ جلال الدین السیوطی نے مرقاۃ السعود میں
اور شیخ الاسلام بدرالدین ابدال نے رسالہ مرضیہ میں بھی لکھا ہے
مولانا عبدالحی لکھنوی اپنے مجموعہ فتاوی میں لکھتے ہیں اس مائۃ سے مراد باتفاق محدثین آخری صدی ہے
( مجموعہ فتاوی جلد 2 ص 151 تا 152)
مجدد کی شرائط و علامات یہ ہیں
علوم مظاہرہ اور باطنہ کا عالم ہو
اس کے درس و تدریس تالیف و تصنیف سے نفع شائع ذائع ہو
احیاء سنت اور اماتت بدعت میں سرگرم ہو
ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے آغاز میں اس کے علم کی شہرت اور اس سے انتفاع معروف و مشہور ہو
پس اگر آخری صدی نہیں پائی یا اس سے اس زمانے میں انتفاع شریعت حاصل نہ ہوا ہو تو وہ مجددین کی صف سے خارج سمجھا جائے گا اور اس حدیث کا مورد و مصداق نہ ہو گا اور اس کا شمار مجددین میں نہ ہوگا
اب آئیے مذکورہ بالا معیار پر ڈاکٹر طاہر الپادری کو جانچئے
(۱)(۲)آنجناب طاہر الپادری نے اگرچہ چودہویں صدی کا اول زمانہ اور پندرھویں صدی کا زمانہ پایا لیکن آنجناب کے علم کی شہرت اور اس سے انتفاع معروف و مشہور نہیں ہے پس اگر پہلی صدی کا زمانہ پایا اور آخری صدی کا بھی اور اس دوران لوگوں نے انتفاع شریعت حاصل نہ کیا تو مجددین کے صف سے خارج سمجھا جائے گا اس حدیث کا مورد و مصداق نہ ہو گا اور اس کا شمار مجددین میں نہ ہوگا
(۳)طاہر الپادری کی تصانیف کا جو بھی مطالعہ کرے گا اس پر واضح ہوجائےگا کہ آنجناب تمام علوم و فنون میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی سب میں مہارت تامہ نہیں رکھتے ہیں اور سب کے ماہر بھی نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی کثیر تصانیف موجود نہیں ہیں اور اکثر و بیشتر کتابیں عقائد و نظریات شریعت مصطفویہ سے متصادم ہیں کتابوں سے صلح کلیت کا درس جھلک رہا ہے دوسری کتابوں کو تو رہنے دیجئے آنجناب کی ایک ہی کتاب فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے کو ہی لیجئے اس میں کفری عقائد و نظریات بھری ہوئی ہیں
(۴)پندرہویں صدی کے تمام علماء کرام کے کارنامے نظروں کے سامنے بلکہ مع شی زائد اور آنجناب کے کارنامے اب تک منظر عام پر نہیں آ سکے مگر جو آسکے ہیں انھیں سے مقابلہ کیجئے تو ظاہر ہو جائے گا کہ آنجناب کے کارنامے پوری صدی کے تمام علماء کرام کے کارناموں کے سامنے ہیچ بلکہ ان کے قدموں کی دھول کی برابری نہیں کرسکتے آنجناب کے رسائل اور کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آنجناب نے ایک نہیں بلکہ سیکڑوں بدعات و گمراہیات اور بری نظریات کو زندہ فرمایا اس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان سب خرافات و بدعات کو ذکر کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب چاہئے جس کی مجھے فرصت نہیں احیائے سنت کے لیے اماتت بدعت لازم ہے جو جناب مسٹر طاہر الپادری میں موجود نہیں بلکہ مسٹر طاہر القادری میں بدعت کی جو دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی یہ دونوں ضرور پائی جاتی ہیں مثلا انگریزوں کی شہ پر انگریزوں سے وظیفہ لے لے کر ایک دو نہیں دسیوں اعتقادی بدعت کے حامل بد مذہب پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں مثلا وہابی دیوبندی تبلیغی غیر مقلد نیچری قادیانی وغیرہ ان سب کا رد کرنا تو درکنار آنجناب انہیں کے گنگا رہے ہیں اور پیروی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جیسا کہ آنجناب کی اکثر و بیشتر کتابوں اور تقریروں سے پتہ چلتا ہے جیساکہ آنجناب کا کہنا ہے کہ
آج دنیا میں بنام مسلم جتنے مسلک اور فرقے پائے جاتے ہیں خواہ وہ وہابی دیوبندی اور رافضی کی شکل میں ہو یا خارجی اور نیچری اور قادیانی کی صورت میں ہوں سب کے سب بنیادی عقائد میں ایک ہیں ان تمام فرقوں میں اور اہل سنت والجماعت میں عقائد کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے اور جو اختلافات ہیں بھی تو وہ صرف فروعی اور جزئی ہیں لہذا عقائد کو نشانہ بنا کر کسی فرقہ کی تذلیل و تحقیر تو کیا اس کی تنقید و تفسیق بھی درست نہیں ہے چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں بحمد للہ مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتب فکر میں عقائد کے بارے میں کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ فروعی اختلافات صرف جزئیات اور تفصیلات کی حد تک ہیں جن کی نوعیت تعبیری اور تشریحی ہے اس لیے تبلیغی امور میں بنیادی عقائد کے دائرہ کو چھوڑ کر محض فروعات و جزئیات میں الجھ جانا اور ان کی بنیاد پر دوسرے مسلک کو تنقید و تفسیق کا نشانہ بنانا دانشمندی اور قرین انصاف نہیں
فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہو صفحہ نمبر 65
ہمارے ادارے منہاج القرآن میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی رکن بن سکتے ہیں اہل حدیث شیعہ دیوبندی بھی منہاج القرآن کے رکن ہیں
انٹرویو روزنامہ جنگ 27 فروری 1987
میں جماعت اسلامی سمیت کسی بھی مذہبی جماعت کو نااہل قرار نہیں دیتا بے شک مولانا مودودی نے بہت کام کیا
انٹرویو جنگ میگزین 27 فروری 1987
وغیرہ
اور بدعت کی دوسری قسم عملی میں داڑھی منڈانا یا کترنا اسلامی وضع چھوڑ کر انگریزوں کی وضع اختیار کرنا وغیرہ وغیرہ سیکڑوں بدعات کی تردید فرمانے کے بجا ئے اور کروڑوں بندگان خدا کو سنت کا پابند اور بدعات سے مجتنب فرمانے کے بجا ئے آنجناب خود ان سب عملی بدعات میں اول نظر آتے ہیں
(۵)احیائے دین اور اماتت بدعت کے لیے اپنے صرفہ سے کتابیں چھپوانا کتابوں کو تحریر فرمانا مدارس قائم کرنا اس مشن کو چلانے والے علماء پیدا کرنا خود درس دے کر دیندار مخلص علماء کو پیدا کرنا بڑے بڑے اجلاس کرنا علماء کو بلا بلا کر بدمذہبوں کے مقابلے اور ان کے خلاف تقریر کرانا خود تقریر کرنا اندرونی دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنا اور بیرونی دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنا
اب نظر ڈالیے جناب کی کارکردگی پر آنجناب نے کتابیں چھپوائیں اور تحریر بھی فرمائی لیکن ان کتابوں سے دین اسلام کو تقویت پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچا آنجناب نے مدارس قائم کئے اور اس مشن کو چلانے والے علماء پیدا کیے لیکن ان مدارس اور علماء سے دین اسلام کو تقویت نہیں ہزیمت ملی خود درس دے کر دیندار مخلص علماء پیدا کرنا تو درکنار خود ہی دیندار اور مخلص عالم دین نہیں ہیں تو دوسروں کو کیسے مخلص بنائیں بڑے بڑے اجلاس کرنا علماء کو بلا کر بدمذہبوں سے مقابلہ کرانا آنجناب بڑے بڑے اجلاس کرائیں لیکن ان اجلاس میں علماء کرام کے بجائے ہندو پنڈت راہب بدھسٹ پجاری وہابی دیوبندی نیچری قادیانی وغیرہ کو مدعو کیا ان سے مقابلہ کرنے کے بجائے ان سے دوستی کا ہاتھ دراز کیا
حاصل کلام یہ نکلا کہ علمائے سلف و خلف نے مجدد ہونے کی جو علامتیں اور لوازم لکھی ہیں وہ سب آنجناب مسٹر طاہر الپادری میں موجود نہیں ہیں مسٹر طاہر الپادری مجدد تو درکنار مسلمان کہنے کے لائق نہیں ہے آنجناب اپنے اقوال و افعال کی بنا پر اسلام سے خارج اور کافر بے دین ہے اسی وجہ سے ہندو پاک اور سندھ کے بے شمار جید علماء اہل سنت نے کفر کا فتوی صادر فرمایا۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند