کیا عالم کےلئے سادات کی مہر نہ ہونا ضروری ہے؟
زید کہتا ہے کہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر کو رضی اللہ عنہ کہنا کفر ہے‘ اور جو کہے وہ کافر ہے؟
کیا حضرت اورنگ زیب عالمگیر کو رضی اللہ عنہ قابل گردن زدنی ہیں؟
کیا حضرت عالمگیر کو جنتی کہنے والا وہ توبہ کرے؟
زید یہ کہتا ہے کہ عالمگیر عالم دین نہ تھا بلکہ ایک دنیاوی حاکم تھا اور حکمران تھا۔ اس کو عالم دین کہنا جائز نہیں کیا درست ہے؟
زید حضرت عالمگیر کو جہنمی کہنے پر دلیل پیش کرتا ہے
مسئلہ: محمد عمران قادری رضوی مصطفوی غفرلہٗ ربہٗ محلہ منیر خاں پیلی بھیت
یکم جمادی الآخری ۱۳۸۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع عظام دامت برکاتہم العالیہ مسائل ہذا میں (۱) زید کہتا کہ جس شخص کے پاس اہل سادات کی مہر نہ ہو وہ عالم نہیں ہو سکتا۔ یونہی جس کے پاس اہل سادات کی مہر نہ ہو وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ عالم دین اور خلیفہ ہونے کے لئے اہل سادات کی مہر ہو یا ان کی اجازت ہو کیا زید کا قول صحیح ہے؟
(۲) زید کہتا ہے کہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر کو رضی اللہ عنہ کہنا کفر ہے‘ اور جو کہے وہ کافر ہے؟
(۳) حضرت منصور رضی اللہ تعالیٰ نہ کو پھانسی کا فتویٰ دینے والے مع عالمگیر کے قابل گردن زدنی ہیں اور سب جہنمی ہیں جہنم میں جائیں گے۔ سب کو توبہ کرنی چاہئے اور جو حضرت عالمگیر کو جنتی کہے وہ توبہ کرے؟
(۴) زید یہ بھی کہتا ہے کہ عالمگیر عالم دین نہ تھا بلکہ ایک دنیاوی حاکم تھا اور حکمران تھا۔ اس کو عالم دین کہنا جائز نہیں؟
(۵) حضرت عالمگیر کو جہنمی کہنے پر دلیل پیش کرتا ہے کہ قرآن میں ہے:
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خَالِدًافِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًاo
یعنی قتل مومن عمداً (قصداً) کفر ہے‘ اور جو مومن کو قتل کرے وہ بحکم قرآن کافر اور جہنمی ہے‘ اورعالمگیر نے اپنے بھائی کو قصداً قتل کیا اس لئے وہ کافر اور جہنمی ہے‘ اور اپنے باپ کو بھی قید کیا اور اس پر ظلم کیا اس لئے وہ ظالم و جابر بھی ہے کیا زید کا قول صحیح ہے؟ اگر نہیں تو زید کی اس دلیل کا جو اس نے قرآن سے پیش کیا ہے کیا جواب ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔ (۱) زید جاہل محض اور اس کا قول غلط ہے عالم دین ہونے کے لئے عقائد دینیہ و احکام شرعیہ سے واقفیت ضروری ہے‘
اور یونہی کسی شخص کا خلیفہ ہونے کے لئے جامع شرائط بیعت شیخ کی اجازت ضروری ہے۔ ان دونوں امور میں بحیثیت سیادت نسب حضرات سادات کرام کی مہر و اجازت کو کوئی دخل نہیں۔
(۲) یہ زید صرف جاہل ہی نہیں بلکہ جری اور بیباک اور شریعت مطہرہ سے بالکل بے لگام معلوم ہوتا ہے۔ اس نے حضرت عالمگیر علیہ الرحمۃ والرضوان کے حق میں کلمۂ ترضی استعمال کرنے والوں کو کافر کہہ کر اپنے اوپر کفر لازم کر لیا اس پر توبہ و تجدید ایمان اور کسی جامع شرائط بیعت پیر سے مرید ہو تو تجدید بیعت اور بیوی والا ہو تو تجدید نکاح فرض ہے‘ اور جن مسلمانوں کے سامنے یہ کلمہ خبیث بول کر انہیں ایذا پہنچائی ہے ان سے اس کا معافی مانگنا لازم ہے۔ زید اگر توبہ وغیرہ امور انجام دینے کے بجائے اپنی بے لگامی پر قائم رہے تو مسلمانوں پر فرض ہے‘ اور اہم فرض ہے کہ اس سے سارے اسلامی تعلقات منقطع رکھیں۔
(۳) ان جملوں کو بک کر زید فاسق موذی ہو گیا اس پر توبہ فرض ہے جن مسلمانوں کے سامنے یہ جملے بول کر زید نے انہیں ایذا پہنچائی ان سے معافی مانگنا اس پر لازم ہے۔
(۴) حضرت محی الدین عالمگیر اورنگ زیب علیہ الرحمۃ والرضوان سلطان اسلام ہونے کے ساتھ حافظ قرآن‘ عالم دین عادل‘ متقی پرہیزگار تھے جن کی نگرانی میں فتاویٰ عالمگیری جیسی عظیم و جلیل ضخیم کتاب مرتب ہوئی وہ عالم دین نہ ہو گا تو پھر عالم دین کون ہو گا۔
(۵) عمداً مومن کا قتل سخت ترین گناہ کبیرہ ہے‘ اور گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق و مستحق عذاب نار ضرور ہے لیکن کفر نہیں اہلسنّت کی مستند و متد اوّل کتاب شرح عقائد نسفی میں ہے: والکبیرۃ لاتخرج المومن عن الایمان آیت کریمہ میں قتل مومن بالعمد پر شدید ترین سزاؤں کی وعید ضرور ہے لیکن قاتل مومن کو کافر نہیں فرمایا‘ اور یہی وجہ ہے کہ مفسرین کرام نے یہاں خلود فی النار سے مدتہائے دراز مراد لیا ہے۔ اگر قاتل مومن شرعا کافر ہو جاتا تو خلود فی النار سے ابدی جہنمی مراد لیتے۔ زید کا یہ قول کہ ’’جو مومن کو قتل کرے وہ بحکم قرآن کافر اور جہنمی ہے‘‘ غلط اور باطل ہے کیونکہ قاتل مومن اشد فاسق اور مستحق جہنم ضرور ہے لیکن کافر نہیں اور یہ بحث تو اس صورت میں ہے کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو بلاوجہ شرعی قتل کیا جائے اور اگر شرعی وجہ کے پیش نظر کوئی مسلمان قتل کیا گیا تو قاتل پر کوئی مواخذہ نہیں مثلاً جو لوگ مسلمان ہوتے ہوئے ڈاکہ زنی کرتے ہوں یا بغیر کسی حق شرعی کے بادشاہ اسلام سے بغاوت کر کے ساعی فساد ہیں وہ ضرور قتل کئے جائیں گے اور قتل کرانے والے پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔
دارا شکوہ تو بانی فتنہ و ساعیٔ فساد ہونے کےساتھ دشمن شعار دین و مروج الحاد و زندقہ تھا کیونکہ ’’اوبمصاحبت ہنود و گیاں بے ایمان شدہ بود‘‘ (ملاحظہ ہو وقائع عالمگیری ص ۲۷ مرتبہ نبیھ احمد سنڈیلوی) لہٰذا دارا کا قتل بربنائے وجہ شرعی ہے۔ رہا شاہجہاں مرحوم پر ظلم وستم کا افسانہ تو وہ زید کی من گڑھت کہانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمۃ والرضوان شعائر اسلام کے پاسباں، مروج شریعت اسلامیہ، دین کے غازی، مجاہد اور مجدد تھے۔ آپ کے زہد و تقویٰ، حق پرستی، عدل و انصاف، حمایت دین، نکابت مفسدین پر اگر شہادت درکار ہو تو ملاحظہ ہو تفسیرات احمدیہ حضرت مولانا احمد جیون علیہ الرحمۃ والرضوان مصنف نور الانوار حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمۃ والرضوان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
ناصر الشریعۃ القویمۃ سالک الطریقۃ المستقیمۃ باسط مھاد العدل والانصاف ھادم اساس الجور والاعتساف مروج الشریعۃ الغراء مؤسس الملۃ الحنفیۃ البیضاء صاحب الفاخر صاحب جامع المراتب والمناقب بحر الدر رابی الظفر مربی ذی الفضل الصغیر الکبیر محی الدین اورنگ زیب عالم گیر۔
۔ تفسیرات احمدیہ ص ۶ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل کے خطبہ میں اکابر علمائے اسلام کی متفقہ گواہی ملاحظہ ہو:
ھو المطیم علی العدل والشجاعۃ والندی والمفطور تقنہ من الذھد والورع والتقویٰ امیر المومنین ورئیس المسلمین امام الغزاۃ وراس المجاھدین ابوالظفر محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جو بادشاہ اپنے زمانے کے اکابر حاملین شریعت علماء کی نگاہوں میں عادل و منصف متقی و زاہد متورع‘ حامیٔ دین‘ مروج شریعت ہو اس کو ظالم و جابر، کافر وجہنمی کہنا کتنی بڑی بدبختی اور شقاوت ہے‘ اور اگر ملحد جوگیوں اور فرقہ پرست غیرمسلموں سے متاثر ہو کر بیباک شخص یہ کہہ دے کہ حضرت مولانا احمد جیون منصف نور الانوار اور اکابر علمائے مصنّفین فتاویٰ عالمگیری (معاذ اللہ تعالیٰ) جھوٹے تھے تو قطع نظر اس امر کے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا خود کذاب و مکار، عیار و بہتان طراز ہے‘ مگر اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ تو اگر سچا ہے تو حضرت عالمگیر کے زمانے کے حاملین شریعت علماء کی اس امر پر تو بھی گواہی پیش کر کہ حضرت عالمگیر ظالم و جابر، کافر جہنمی تھے۔ زید اور اس کے جیسے خیالات فاسدہ رکھنے والے سب لوگ کان کھول کر سن لیں کہ مطالبۂ مذکور قیامت تک پورا نہیں کیا جا سکتا‘ تو اے لوگو! اس جہنم کی آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
بالجملہ زید اگر اپنی آخرت کی بھلائی کا خواہاں ہے تو وہ اپنے ان اقوال باطلہ سے فوراً توبہ کر ڈالے کہ موت کا وقت معلوم نہیں۔
واللّٰہ تعالٰی ھو الھادی یھدی من یشاء الی صراط مستقیم واللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ اعلم جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ: بدر الدین احمد القادری الرضوی،
من اساتذہ فیض الرسول ببراوں الشریفۃ من اعمال بستی
(یو پی)، ۲۱؍ من جمادی الاخریٰ ۱۳۸۸ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۸۱/۸۰)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند