کیا عرب میں کوئی کافر نہ ہوگا نہ کافر کی حکومت ہوگی؟
حالانکہ ملک عرب میں وہابی نجدی کی حکومت ہے
مسئلہ: محمد محی الدین محلہ باغیچہ التفات گنج ضلع فیض آباد
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں کوئی کافر نہ ہو گا اور نہ کافروں کی حکومت ہوگی۔ جیسا کہ مشکوٰۃ شریف میں ہے: شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ عرب کے لوگ اس کو پوجیں۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ آج ملک عرب خصوصاً مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں نجدی وہابی کی حکومت ہے جسے اہل سنت و جماعت مسلمان نہیں مانتے‘ تو اس صورت میں حدیث شریف کا مطلب کیا ہے؟ اطمینان بخش مفصل جواب تحریر فرما کر اہلسنّت و جماعت کو مطمئن فرمائیں لک الحمد یا اللّٰہ والصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
الجواب: بعون الملک العزیز الوھاب
جدی وہابی وہ قوم ہے جو صرف اپنے کو مسلمان سمجھتی ہے‘ اور جو لوگ ان کے فاسد اعتقادات کی موافقت نہیں کرتے انہیں کافر و مشرک کہتی ہے۔ اسی لئے وہ لوگ اہلسنّت و جماعت کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں اور علمائے اہلسنّت کے خون کو حلال ٹھراتے ہیں جیسا کہ خاتم المحققین حضرت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
اتباع عبدالوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذھب الحنابلۃ لکنھم اعتقد وا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقادھم مشرکون استباحوا بذٰلک قتل اھل السنۃ وقتل علمائھم۔
عنی عبدالوہاب کے ماننے والے نجد سے نکلے اور مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ پر قبضہ کر لیا وہ لوگ اپنا مذہب حنبلی بتاتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صرف وہی لوگ مسلمان ہیں اور جو ان کے اعتقاد کی مخالفت کریں وہ کافر وہ مشرک ہیں۔ اسی سبب سے وہ لوگ اہلسنّت اور ان کے علماء کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔
(شامی مطبوعہ دیوبند ص ۳۰۹ ج ۳)
اور دیوبندیوں کے مولانا حسین احمد نانڈوی سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں: ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتداء تیرہویں صدی نجد عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اہلسنّت والجماعت سے قتل و قتال کیا‘ ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا‘ ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا‘ ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا‘ اہل حرمین کو خصوصاً اور اہل حجاز کو عموماً اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں‘ سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے‘ بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا‘ اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے‘‘۔
(الشہاب الثاقب ص ۴۲)
اور اسی کتاب کے ص ۴۳ پر لکھتے ہیں: ’’محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ تھا کہ جملہ اہل اسلام و تمام مسلمانان د یار مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا ان کے اموال کو ان سے چھین لینا حلال و جائز بلکہ واجب ہے‘‘ اسی وجہ سے وہابیوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں بے انتہا مظالم ڈھائے یہاں تک کہ جنت البقیع‘ مدینہ شریف کے قبرستان میں حضرت عثمان غنی، حضرت دائی حلیمہ، حضور کی صاحبزادی بی بی فاطمہ‘ حضرت امام حسن‘ حضور کی ازواج مطہرات اور بہت سے جلیل القدر صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کے مزارات کو ہتھوڑں اور پھاوڑوں سے توڑ اور کھود کر پھینک دیا‘ اور مکہ معظمہ میں بھی جنت المعلیٰ قبرستان میں ام المومنین حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مزار مبارک کے گنبد کو توڑ دیا اور عالی شان مزار کو کھود کر پھینک دیا۔ بیچ قبرستان سے صحابہ کرام کی قبروں پر پختہ سڑک بنا دی۔ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمۃ والرضوان کے مزار کے اوپر پکی سڑک بنا دی‘ اور یہاں تک کہ مسجدیں جو بنص قرآن اللہ تعالی کی ہیں
جیسا کہ پ ۲۹ سورۂ جن میں ہے: وان المسجد للّٰہ وہابیوں نے انہیں بھی گرا دیا۔ مسجد شجرہ جہاں درخت نے حضور کے سچے نبی ہونے کی گواہی دی تھی اسے کھود کر پھینک دیا اور غار ثور غار حرا کے مبارک پہاڑوں کی مسجدوں کوبھی ڈھا دیا اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گنبد خضراء کے توڑنے کا پروگرام بھی بنا رہی ہے۔ حضرت سیّد احمد بن زینی دحلان مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’وہابی جب مسجدوں اور قبروں کو مکہ معظمہ میں توڑ رہے تھے تو بڑی ڈینگیں مارتے تھے۔ ڈھول بجا بجا کر گانا گاتے تھے اور صاحب قرآن کو گالیاں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس ظالم قوم وہابی نے بعض قبروں پر پیشاب بھی کیا۔
(خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام جلد ثانی ص ۲۷۸)
سوال میں مشکوٰۃ شریف کی جس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے اس کے اصلی الفاظ یہ ہیں:
ان الشیطان قدایس من ان یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب ولکن فی التحریش بینھم۔
اس حدیث شریف کا ترجمہ مشکوٰۃ مترجم وہابی مطبوعہ کراچی جلد اوّل ص ۲۳ میں یوں ہے: شیطان اس امر سے مایوس ہو گیا ہے کہ مصلی (مومن) جزیرۂ عرب میں اس کی عبادت کریں (یعنی بت پرستی میں مبتلا رہیں) اور اسی وجہ سے وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے پیدا کیا کرتا ہے۔ انتہٰی بالفاظہ۔ وہابی کے اس ترجمہ سے واضح ہو گیا کہ شیطان کی عبادت کا مطلب ہے بت پرستی میں مبتلا رہنا یعنی جزیرۂ عرب کے مسلمان بت پرستی میں مبتلا رہیں ایسا نہ ہو گا‘ اور محدث کبیر حضرت شیخ عبدالحق دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’طیبی گفتہ مراد بمصلین مؤمنا نند و مراد بعبادت شیطان عبادت اصنام و اگرچہ اصحاب مسیلمہ و مانعی الزکوٰۃ براہ ارتداد رفتندا ما عبادت اصنام نہ کردند‘‘ یعنی علام طیبی نے فرمایا کہ مصلیوں سے مومنین مراد ہیں اور شیطان کی عبادت سے بتوں کی پوجا مراد ہے‘ اور اگرچہ مسیلمہ کے ساتھی اور مانعین زکوٰۃ مرتد ہوئے لیکن ان لوگوں نے بتوں کی پوجا نہیں کی
(اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۸۳)
اور حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
معنی الحدیث ایس من ان یعود احد من المومنین الی عبادۃ الصنم ویرتدالی شرکہ فی جزیرۃ العرب ولایرد علٰی ذٰلک ارتداد اصحابہ مسیلمۃ ومانعی الزکوٰۃ وغیرھم ممن ارتد وا بعد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لانھم لم یعبد والصنم
عنی حدیث شریف کا معنی یہ ہے کہ جزیرۂ عرب میں کوئی مومن بت پرستی کی طرف لوٹ کر شرک نہ کرے گا‘ اور اس پر اصحاب مسیلمہ اور مانعین زکوٰۃ وغیرہ کے مرتد ہونے کا اعتراض نہ پڑے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوئے تھے اس لئے کہ ان مرتدوں نے بتوں کی پوجا نہیں کی تھی
(مرقاۃ جلد اوّل ص ۱۱۸)
اور اسی طرح مشکوٰۃ شریف ص ۱۹میں حدیث مذکور کے حاشیہ پر لمعات سے بھی ہے۔
ان شروح و حواشی کے حوالہ جات سے حدیث شریف کا مطلب بالکل واضح اور متعین ہو گیا کہ مخبر صادق حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اب عرب کے مسلمان اپنے دین سے پھر کر بت پرستی نہ کریں گے۔ لہٰذا جزیرۂ عرب کے لوگوں کا کسی وقت مرتد ہو جانا یا اس پر کسی زمانہ میں مرتدوں کی حکومت کا قائم ہو جانا حدیث شریف کے خلاف اور منافی نہیں جیسا کہ حضور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری زمانہ کے فوراً بعد مسیلمہ کذاب‘ اس کے متبعین اور مانعین زکوٰۃ جزیرۂ عرب ہی میں مرتد ہوئے‘ اور ۳۲۰ھ میں عباسی خلیفہ مقتدرباللہ کے زمانہ میں مرتد ابوطاہر قرامطی کے فتنہ کے سبب حج بند ہو گیا۔ اس نے خاص حج کے زمانہ میں مکہ معظمہ پر غلبہ حاصل کیا مسجد حرام کے اندر ہزاروں حاجیوں کو قتل کر ڈالا اور مقدس پتھر حجر اسود پر اپنا گرز مار کر اس کو توڑ ڈالا پھر اس کو اکھاڑ کر اپنے دارالسلطنت ہجر میں لے گیا۔ یہاں تک کہ بیس برس تک کعبہ معظمہ سے حجر اسود جدا رہا۔ پھر عباسی خلیفہ مطیع کے زمانہ میں جب قرامطہ مغلوب ہو گئے تو حجر اسود پھر ’’ہجر‘‘ سے لا کر کعبہ معظمہ کی دیوار کے کونے میں بدستور سابق جوڑا گیا۔ ان ساری تفصیلات کو حضرت علامہ یوسف بن اسمٰعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
قال بن الربیع بن سلیمان کنت بمکۃ سنۃ القرامطۃ فصعد رجل لقطع المیزاب وانا اراہ فعیل صبری وقلت ربی ما احملک فسقط الرجل علی دما غہ فما وصعد القرمطی المنبر وھو یقول انا باللّٰہ وباللّٰہ انا اخلق الخلق وافنیھم انا
عنی محمد بن ربیع بن سلیمان نے بیان کیا کہ میں فتنہ قرامطہ کے سال مکہ شریف میں موجود تھا میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک آدمی کعبہ معظمہ کے پرنالے کو اکھاڑنے کے لئے اس کی چھت پر چڑھ گیا۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا میں نے کہا: اے میرے پروردگار! تو کیا ہی حلیم ہے۔ اسی وقت وہ شخص سر کے بل زمین پر گر پڑا اور مر گیا اور ابوطاہر قرامطی مسجد حرام کے منبر پر چڑھ کر کہنے لگا کہ میں خدا کی قسم۔ خدا کی قسم! میں مخلوق کو پیدا بھی کرتا ہوں اور ان کو فنا بھی کرتا ہوں۔
(حجتہ اللہ علی العالمین جلد ثانی ص ۸۲۹)
اور پھر خلیفہ مستعصم باللہ کے دور ۶۵۴ھ میں مدینہ طیبہ پر رافضیوں کا قبضہ رہا اسی زمانہ میں مسجد نبوی میں ایسی بھیانک آگ لگ گئی کہ مسجد اور اس کی زیب و زینت کا سارا سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ حضرت علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ آگ کے اس واقعہ کو لکھنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
ان الاستعلاء علی المسجد و المدینۃ کان فی ذٰلک الزمان الشیعۃ وکان القاضی والخطیب منھم حتی ذکر ابن فرحون ان اھل السنۃ لم یکن احذ منھم یتظاھر بقراء ہ کتب اھل السنۃ
عنی اس زمانہ میں مسجد نبوی ا ور مدینہ شریف پر رافضیوں کا قبضہ تھا قاضی شہر اور مسجد نبوی کے امام و خطیب سب روافض تھے۔ یہاں تک کہ ابن فرحون کا بیان ہے کہ کوئی شخص مدینہ منورہ میں اہل سنت و جماعت کی کتابوں کو علانیہ نہیں پڑھ سکتا تھا۔
(وفا ء الوفاء جلد اوّل ص ۴۲۹)
ان شواہد سے ظاہر ہو گیا کہ زمانۂ موجودہ یا آئندہ میں اگر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر مرتدوں کا تسلط ہو تو یہ کوئی نئی بات نہ ہو گی کہ پہلے زمانہ میں بھی اس مقدس سرزمین پر مرتدوں اور بدمذہبوں کا کئی کئی سال تک قبضہ وتسلط رہا پھر جب خداتعالیٰ نے چاہا تو حرم کو ان کے قبضہ و تسلط سے پاک فرمایا۔
ھٰذا ظھرلی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۴؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۵۷/۵۶/۵۵/۵۴/۵۳)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند