کیا کچہری سے طلاق لینا بیکار ہے؟جس مولوی نے کچہری سے طلاق لینے کا رواج نکالا اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟

کیا کچہری سے طلاق لینا بیکار ہے؟
جس مولوی نے کچہری سے طلاق لینے کا رواج نکالا اس کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟

مسئلہ: از مولانا محمد یعقوب رضوی جامعہ غازیہ سیّد العلوم بڑی تکیہ بہرائچ (یو-پی)
زید اپنی لڑکی ہندہ کی شادی ایک جگہ کرنا چاہتا تھا مگر چند وجوہات کی وجہ سے اس کی شادی الگ کر دی گئی۔ چونکہ لڑکے کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ لڑکے کے ذمہ دار اس کے چچا وغیرہ تھے۔ عقد کے وقت جانبین میں نباہ وغیرہ کے متعلق کچھ باتیں ہوئیں کہ لڑکے کو پتہ نہیں حصہ ملے یا نہ ملے۔ اس کے چچا وغیرہ اس لڑکی کو تنگ کریں۔ پھر اس کا پرسان حال کون ہو گا۔ لہٰذاطے پایا کہ ایک کاغذ پر یہ لوگ لکھ دیں کہ اگر ان لوگوں نے لڑکی یا اس کے شوہر کو پریشان کیا تو لڑکی اپنے میکے میں بیٹھ کر اپنا کھانا کپڑا لے سکتی ہے۔ اس پر لڑکے والوں نے کہا کہ اس مضمون کا جو چاہو لکھ لو ہم لوگ اس پر تیار ہیں کہ لڑکے کے حصے کے متعلق جو چاہو لکھوا لو۔ پھر لوگوں نے کہا کاغذ پر دستخط کر دو بعد میں مضمون لکھ دیا جائے گا ایک سادہ کاغذ پر اس کے چچا اورگواہان نے دستخط کر دیئے۔ عقد ہو گیا لڑکی اپنے سسرال گئی چند بار آئی گئی۔ پھر کچھ دنوں بعد (چونکہ لڑکی کا ایک بھائی مولانا ہے اس نے کاغذ پر بعد میں اس طرح مضمون لکھ لیا کہ لڑکے نے طلاق کا مالک بھی لڑکی کو بنا دیا تھا کہ جب لڑکی چاہے گی طلاق لے لے گی) دونوں گھروں میں جھگڑا ہو گیا خاندان میں کچھ لوگ آپس میں لڑ گئے۔ کچھ نے کہا بھیجنا پڑے گا کچھ نے کہا نہیں بھیجا جائے گا پھر یہ ہوا کہ دونوں جانب سے سامان کی واپسی ہو جائے اور شریعت کے مطابق طلاق ہو جائے۔ مگر لڑکی کے بھائی وغیرہ نے کہا کہ زیور مہر میں ہو گیا۔ اور طلاق کی ضرورت نہیں ہے طلاق اسی کاغذ پر لکھ دی گئی اسی پرانے دستخط کے مطابق۔ اور چپکے سے عدالت سے طلاق لے کر لڑکی کی شادی دوسری جگہ کر دی اب پورے علاقہ میں رواج بن گیا ہے کہ مولانا صاحب نے عدالت سے طلاق لے کر الگ نکاح کر دیا ہے لہٰذا ہم لوگ بھی کریں گے اور انہیں کو دیکھ کر دو تین واقعات اور ہو چکے ہیں لہٰذا اور لڑکے کے وارثان و گواہان قسم کھاتے ہیں کہ طلاق وغیرہ کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی اور نہ موجود لوگوں میں سے کوئی اور کہتا ہے لہٰذا اس کا جواب مفصل تحریر کیا جائے۔ تاکہ لوگوں کو اطمینان ہو جائے اور یہ رواج ختم ہو کہ جو چاہے اپنی لڑکی کا عقد عدالت سے طلاق لے کر الگ کر دے‘ اور جن لوگوں نے اس مضمون بنانے اور لڑکی کو الگ عقد کرنے میں حصہ لیا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب: اگر یہ بات صحیح ہے کہ لڑکے نے لڑکی کو طلاق کا مالک نہیں بنایا تھا تو اس کے بھائی کے لکھ دینے سے لڑکی اپنے اوپر طلاق نہیں واقع کرسکتی اگرچہ شوہر کے چچا وغیرہ نے لڑکی کو طلاق کا مالک بنا بھی دیا ہو کہ لڑکا جب نابالغ ہو اس صورت میں بھی ولی طلاق کا مالک نہیں ہوتا اور کچہری سے طلاق لینا بے کار ہے۔ عندالشرع ہرگز معتبر نہیں کہ طلاق کا اختیار شوہر کو ہے نہ کہ کچہری کو حدیث شریف میں ہے: الطلاق لمن اخذ بالساق۔ لہٰذا مولوی نے کچہری سے طلاق لے کر اپنی بہن کی شادی دوسری جگہ کر دی تو اس نے اپنی بہن کو حرام کاری و زنا کاری کے لئے دیا العیاذ باللّٰہ تعالیٰ۔ اور اس مولوی کی اتباع میں کچہری سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادیاں کرنے والے نکاح خواں، گواہ اور میاں بیوی بننے والے سب کے سب سخت گنہگار ہیں اور سب کے برابر اس برائی کا دروازہ کھولنے والا مولوی تنہا گنہگار ہے حدیث شریف میں ہے:
من سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزرمن عمل بھا من بعدہ من غیر ان ینقص من اوزار ھم شیء۔
یعنی جو شخص کہ مذہب اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کرے گا تو اس پر اس کے رائج کرنے کا بھی گناہ ہو گا اور ان لوگوں کے عمل کرنے کا بھی گناہ ہو گا جو اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ ہو گی (مسلم شریف) لہٰذا مولوی مذکور پرلازم ہے کہ وہ اپنی بہن کو واپس لا کر یا تو اس کے شوہر اوّل کے پاس بھیجے یا باقاعدہ طلاق لے کر شرعی طریقہ سے دوسری جگہ شادی کرے اور کچہری کی طلاق کے باطل ہونے کا اعلان عام کرے‘ اور مولوی وغیرہ جتنے ناجائز عقد کرنے والے ہیں اور جو لوگ اس میں کسی طرح حصہ لینے والے ہیں سب علانیہ توبہ و استغفار کریں۔ اگر وہ لوگ ایسا نہ کریں تو سب مسلمان ان کا بائیکاٹ کریں ورنہ وہ بھی گنہگار ہوں گے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَیْطٰنُ فَـلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo(پ ۷ ع ۱۴) وھو تعالیٰ اعلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۳؍ ذی القعدہ ۱۴۰۱ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۲،ص:۱۳۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top