ہمبستری کے بعد غسل کیوں واجب ہوتا ہے جبکہ دوسری نجاستیں صرف مقام مخصوص کے دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں۔
مسئلہ: از محمد یعقوب جمہنی پوسٹ تلولی ضلع بستی…
ہمبستری کے بعد غسل کیوں واجب ہوتا ہے جبکہ دوسری نجاستیں صرف مقام مخصوص کے دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں۔ دلیل کے ساتھ تحریر فرمائیں؟
الجواب: قرآن مجید میں جنب کے متعلق مبالغہ کا صیغہ آیا ہے۔
جیسا کہ پ ۶ رکوع ۶ میں ہے: اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا اور اس میں طہارت کے لئے حکم کو وضو کی طرح بعض اعضاء کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ پورے بدن کی طہارت مطلوب ہے‘ اور اس کی عقلی وجہیں تین ہیں: اوّل یہ کہ انزال منی کے ساتھ قضائے شہوت میں ایسی لذت کا حصول ہوتا ہے کہ جس سے پورا بدن متمتع ہوتا ہے اس لئے اس نعمت کے شکریہ میں پورے بدن کے دھونے کا حکم ہوا۔ اسی سبب سے وجوب غسل کے لئے علی وجہ الدفق الشھوۃ کی قید ہے کہ بغیر اس کے لذت کا حصول نہیں ہوتا۔ اسی لئے اس صورت میں وضو واجب ہوتا ہے نہ کہ غسل۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جنابت پورے بدن کی قوت سے حاصل ہوتی ہے اسی لئے اس کی زیادتی کا اثر پورے جسم سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا جنابت سے پورا بدن طاہر و باطن بقدر امکان دھونے کا حکم ہوا اور یہ باتیں پیشاب وغیرہ میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں حاضری کے لئے کمال نظافت چاہئے اور کمال نظافت پورے بدن کے غسل ہی سے حاصل ہو گا مگر پیشاب وغیرہ جس کا وقوع کثیر ہے اس میں خداتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بندوں کی آسانی کے لئے وضو کو غسل کے قائم مقام کر دیا اور جنابت کا وقوع چونکہ کم ہے اس لئے اس میں پورے بدن کا دھونا لازم قرار دیا گیا۔
جیساکہ تفسیر روح البیان جلد دوم ص ۳۵۵ اور بدائع الصنائع جلد او ص ۳۶ میں ہے:
انما وجب غسل جمیع البدن بخروج المنی ولم یجب بخروج البول والغائط وانما وجب غسل الاعضاء المخصوصۃ لاغیر بوجوہ۔ احدھا ان قضاء الشھوۃ بانزال المنی استمتاع بنعمۃ یظھر اثرھا فی جمیع البدن وھو اللذۃ فامر بغسل جمیع البدن شکراً لھذہ النعمۃ وھٰذا الایتقرر فی البول والغائط۔ والثانی ان الجنابۃ تاخذ جمیع البدن ظاھرہ وباطنہ لان الوطی الذی ھوسببہ لایکون الاباستعمال لجمیع مافی البدن من القوۃ حتی یضعف الانسان بالا کثارمنہ ویقوی بالامتناع فاذا اخذت الجنابۃ جمیع البدن الظاھر والباطن وجب غسل جمیع البدن الظاھر والباطن بقدر الامکان ولاکذٰلک الحدث فانہ لایاخذ الاالظاھر من الاطراف لان سببہ یکون بظواھر الاطراف من الاکل والشرب ولایکونان باستعمال جمیع البدن فاوجب غسل ظواھر الاطراف لاجمیع البدن والثالث ان غسل الکل اوالبعض وجب وسیلۃ الی الصلاۃ التی ھی خدمۃ الرب سبحانہ وتعالیٰ والقیام بین یدیہ وتعظیمہ فیجب ان یکون المصلی علی اطھر الاحوال وانظفھا لیکون اقرب الی التعظیم واکمل فی الخدمۃ وکمال النظافۃ یحصل بغسل جمیع البدن وھٰذا ھو العزیمۃ فی الحدث ایضًا الاان ذٰلک مما یکثر وجودہ فاکتفٰی فیہ بالیسر النظافۃ وھی تنقیۃ الاطراف التی تنکشف کثیرا وتقع علیہ الابصار ابد واقیم ذٰلک مقام غسل کل البدن دفعا للحرج وتیسیرا وفضلا من اللہ ونعمۃ ولاحرج فی الجنابۃ لانھا لاتکثرفبقی الامر فیھا علی العزیمۃ۔
ھٰذا ما عندی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۹؍ صفر المظفر ۱۴۰۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۶۷/۱۶۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند