یہودیوں کی پلاننگ اور فلسطین کی تباہی

یہودیوں کی پلاننگ اور فلسطین کی تباہی

اول(1)پہلی جنگ عظیم (1914-1918)کے دوران فلسطین سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے قبضہ سے نکل گیا اور برطانیہ نے 1917 میں فلسطین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔برطانیہ نے فلسطین کو یہودی ریاست بنانے کا اعلان کیا،پھر دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں بسانا شروع کر دیا۔یہودی اسی وقت سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہے ہیں،تاکہ کوئی فلسطینی مسلمان زندہ نہ رہے جو فلسطین کا دعویٰ کر سکے۔یہودیوں نے فلسطین کے باہر دیگر عرب ممالک میں آباد فلسطینی مسلمانوں پر بھی حملے کئے ہیں،تاکہ فلسطینوں کو ختم کر دیا جائے۔
اس طویل مدت میں یہودیوں نے بے شمار فلسطینی مسلمانوں کو ہلاک کیا.غزہ پٹی میں عام فلسطینی شہریوں پر بمباری کا مقصد بھی فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔حماس پر حملے کا بہانہ کر کے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ بہت سے فلسطینی مسلمان ہلاک ہو جائیں اور باقی ماندہ فلسطینی مسلمان غزہ پٹی چھوڑ کر دیگر مسلم ملکوں میں پناہ گزیں ہو جائیں۔امریکہ اور برطانیہ دونوں اسرائیل کے ساتھ ہیں۔امریکہ وبرطانیہ کے فوجی بھی اسرائیلی فوج کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں۔جنگی ہتھیار اور ساز وسامان بھی امریکہ،برطانیہ ودیگر مغربی ممالک سے بھیجے جا رہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین جنگ میں روس سے ہار چکے ہیں،لہذا فلسطین کو تباہ وویران کر کے اپنی فتح کا جھنڈا بلند کرنا چاہتے ہیں۔فلسطینی مجاہدین زمینی جنگ میں اسرائیل کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں۔اسرائیلی فوجی کثیر تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔اسرائیل کے ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ کی جا رہی ہیں۔یہودی فوج فلسطینی مجاہدین کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے،لیکن اسرائیل فضائی حملوں کے ذریعہ کثیر تعداد میں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے اور قیام اسرائیل کے قبل سے ہی یہودیوں کا یہ منصوبہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کا نام ونشان ختم کر دیا جائے،تاکہ کوئی فلسطین کا نام لیوا زندہ نہ رہے۔
دوم(2)اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 1948 میں قیام اسرائیل کے بعد سے 2023 تک اسرائیل نے دس لاکھ فلسطینی مسلمانوں کو قید کیا۔
یہودی فوج پانچ چھ سال کے بچوں کو بھی قید کر لیتی ہے۔فلسطینی عورتوں اور لڑکیوں کو بھی قید میں ڈال دیتی ہے۔جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے۔فلسطینی بچوں کے ساتھ بھی بدکاری کی جاتی ہے۔جیلوں میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ان کو بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔سخت مار پیٹ کی جاتی ہے۔چھوٹے بچوں کے بھی ہاتھ پاؤں توڑ دیئے جاتے ہیں،تاکہ وہ ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو جائیں۔بہت سے فلسطینیوں کو جیل ہی میں گولی مار دی جاتی ہے۔الغرض فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔
مختلف ممالک سے یہودیوں کو بلایا جاتا ہے اور وہ کسی بھی مسلمان کو اس کے گھر سے نکال کر اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔جب 1948 میں یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا،اس وقت سات لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر گیا۔یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔درحقیقت یہودیوں کے مسلسل مظالم کو چند لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ویسٹ بینک کے علاقوں میں اسرائیل نے یہودیوں کی بہت سی بستیاں بسائی ہیں۔ان یہودیوں کو سیٹلرس کہا جاتا ہے۔ان یہودیوں کو یہی مشن دیا گیا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کرتے رہیں۔فلسطینی مسلمانوں کا قتل،مارپیٹ،عصمت دری،ان کے مال و جائیداد کو چھین لینا،وغیرہ۔یہ لوگ مسلسل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے رہتے ہیں۔اگر یہ سیٹلرس کسی مسلمان کو قتل بھی کر دیں تو اسرائیلی کورٹ میں ان پر مقدمہ نہیں ہوتا ہے۔دراصل اسرائیلی حکومت نے ہی ان سیٹلرس یہودیوں کو اس کام پر لگایا ہے۔امریکہ نے حالیہ دنوں میں ایسے ہی یہودیوں کو ویزا دینے پر پابندی لگانے کا ذکر کیا ہے،لیکن امریکہ خود ہی دو منہ کا سانپ ہے۔
سوم(3)یہودی ونصاری کے پروپیگنڈہ میڈیا نے چند دنوں سے یہ من گھڑت خبر پھیلانا شروع کیا ہے کہ سات اکتوبر کے حملہ کے وقت حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی عورتوں سے بدکاری تھی،حالاں کہ حماس کے لیڈران کا کہنا ہے کہ حماس کے مجاہدین کی اکثریت حافظ قرآن ہیں اور اسلامی اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کی جاتی ہے۔سات اکتوبر کو حماس نے صرف یہودیوں کے فوجی اڈوں پر حملہ کیا تھا اور آزاد رپورٹ سے یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے کسی اسرائیلی شہری کو ہلاک نہیں کیا ہے اور یہی اسلامی تعلیم ہے کہ عام لوگوں پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔
حماس نے فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کرانے کے واسطے اسرائیلی شہریوں کو بندھک ضرور بنایا تھا،لیکن ان بندھکوں کو مہمانوں کی طرح رکھا۔حماس کی قید سے رہا ہونے والے قیدیوں نے بھی حماس کے حسن سلوک کا اعتراف کیا ہے۔
چہارم(4)غزہ پٹی میں مجاہدین کے ہاتھوں کثیر تعداد میں اسرائیلی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ان کے ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ کی جا رہی ہیں۔یہودی فوج مجاہدین سے مقابلہ کرنے میں بالکل ناکام ہے۔بہت سے فوجی اندھے ہو چکے ہیں۔بہت سے ہیضہ میں مبتلا ہو چکے ہیں۔اسرائیل میں کینسر پھیلتا جا رہا ہے۔حماس کے ترجمان جناب ابو عبیدہ سلمہ اللہ تعالی نے کل کے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے مجاہدین اسلام کی طرف سے ایسے فوجیوں کو جنگ کرتے دیکھا جنہیں ہم پہچانتے نہیں کہ وہ کون ہیں۔امید کہ یہ خداوندی مدد ہو:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
خبر کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ کے بعض علاقوں سے واپس اسرائیل جا رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت حماس کے لیڈروں سے جنگ بندی کی بات کر رہی ہے۔
یمن کے فوجی اور حزب اللہ کے سپاہی بھی اسرائیل پر حملے کر رہے ہیں۔ویسٹ بینک میں یہودی فوجیوں سے فلسطینی مسلمان مقابلہ آرائی کر رہے ہیں۔کہیں بھی یہودیوں کا قدم جم نہیں پا رہا ہے۔یہودی فضائی حملوں کے ذریعہ غزہ پٹی کے مسلمانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔افسوس کہ حماس کے پاس فضائی حملہ روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔یہودی حکومت غزہ کے مسلمانوں کو غزہ خالی کر کے مصر کے سرحدی علاقہ یعنی رفح بارڈر کی طرف جانے کو کہتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ علاقہ محفوظ ہے اور پھر اسرائیلی حکومت مصر کے سرحدی علاقوں میں بھی فلسطینی مسلمانوں پر بمباری کرتی ہے۔دراصل یہودی کائنات عالم کی سب سے بدترین قوم ہے۔یہودیوں کی کوئی بات قابل اعتبار نہیں۔

یہودی کا بچہ کوئی نہیں سچا
ایک نکلا وہ بھی حرامی کا بچہ

طارق انور مصباحی
جاری کردہ:07:دسمبر 2023

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top