پرندوں کو پالنا کیسا ہے ان کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے اور ان کو اڑانا کیسا ہے  PARINDON KO PAALNA KAISA HAI? UNKI KHAREED WA FAROKHAT KARNA KAISA HAI? AUR UN KO UDHANA KAISA HAI?  परिंदों को पालना कैसा है? उन की खरीद फरोख्त करना कैसा है? और ऊन को उड़ाना कैसा है?

  پرندوں کو پالنا کیسا ہے
ان کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے
اور ان کو اڑانا کیسا ہے 
PARINDON KO PAALNA KAISA HAI?
UNKI KHAREED WA FAROKHAT KARNA KAISA HAI?
AUR UN KO UDHANA KAISA HAI? 
परिंदों को पालना कैसा है?
उन की खरीद फरोख्त करना कैसा है?
और ऊन को उड़ाना कैसा है?
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿 
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
 آج کل عوام الناس پرندوں کو پالتے ہیں اور انہیں پنجرے میں قید کرکے رکھتے ہیں یہ سب عند الشرع کیسا ہے نیز ان کی خرید و فروخت کرنا اور اڑانا کیسا ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائلہ💢 مدینہ پروین
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*

*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
  📚✒ مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ 👇👇
👈(1)پرندوں کو پالنا جائز ہے اس طور پر کہ ان کی  خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جائے  اور شریعت مطہرہ میں اس کی ممانعت نہیں کی گئی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:*
يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه.یعنی اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا*

📗✒بخاري، الصحيح، 5: 2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت*

📗✒مسلم، الصحيح، 3: 1692، رقم: 2150، دار احياء التراث العربي بيروت*

*🔍مذکورہ بالا حدیث مبارکہ  سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔

 🍁حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں
*إن في الحديث دلالة على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي*

*📖👈🏻اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔*

*📗✒عسقلانى، فتح البارى، 10: 584، دار المعرفة بيروت*

* پرندوں کو پالنا جائز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیونکہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اس کے متعلق سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ
دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الارض فوجبت لها النار بذلک رواه البخاري عن ابن عمر رضی الله تعالی عنهما ، وجملة “فوجبت “من رواية الإمام أحمد عن
جابر بن عبد الله رضي الله عنهما۔ یعنی
ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھ رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی (اس کو امام بخاری نے سیدنا حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سے روایت کیا اور جملہ “فوجبت” (یعنی اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی ، حضرت امام احمد بن حنبل نے بروایت سیدنا حضرت جابر  رضی الله تعالی  عنها ذکر فرمایا
*📗✒بخاری، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2*

📗✒فتاوی رضویہ ج 16 ص 312

*👈🏻لہٰذا پرندے پالنے کے متعلق  چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

ان کے کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔*
ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔*
اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کو مانوس کیا جائے تاکہ ان کو قید کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر* *بالفرض قید کرنا بھی پڑے تو ان کی رہائش کا بہتر سے بہتر بندوبست کیا جائے، تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔*
ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔بیمار ہونے کی صورت میں مکمل علاج معالجہ کیا جائے۔*

👈(2)اور رہی بات ان کے خرید و فروخت کی تو ان  کی خرید وفروخت درست ہے  اس طور پر کہ ان کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جائے  اور آمدنی حلال ہے۔
عن أنس قال أنفجنا أرنبا ونحن بمر الظہران فسعی القوم فتعبوا فاخذتہا فجئت بہا اِلی أبی طلحۃ فذبحہا فبعث بورکیہا أو قال بفخذیہا اِلی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقبلہا
📗✒( ترمذی، کتاب الاطعمہ)

ولا بأس بأکل الأرنب لأن النبی علیہ السلام أکل منہ حین أھدی اِلیہ مشویا وأمرأصحابہ رضی اﷲ عنہم بالأکل منہ 📗✒( ہدایۃ ۴/۴۲۵ )

قال في المجتبی رامزًا: لا بأس بحبس الطیور والدجاج في بیتہ ولکن یعلفہا
📗✒شامي اشرفی: ۹/۵۷۵

فتاوی ہندیہ میں ہے
يجوز بيع الحيات اِذا کان ينتفع بها في الادوية واِن کان لا ينتفع بها لا يجوز والصحيح انه يجوز بيع کل شئي ينتفع به. بيع الکلب المعلم عندنا جائز وکذلک بيع السنورو سباع الوحش والطير جائز عندنا معلما کان أو لم يکن. وبيع الکلب الغيرالمعلم يجوز اِذا کان قابلا للتعليم واِلا فلا. قال محمد رحمه اﷲ تعالٰي و هکذا نقول في الاسد اِذا کان بحيث يقبل التعليم و يصاد به ان يجوز البيع فاِن الفهد والبازي يقبلان التعليم علی کل حال فيجوز بيعهما علی کل حال. ويجوز بيع الذئب الصغير الذی لا يقبل التعليم وقال ابو يوسف رحمه اﷲ تعالٰی صغيره و کبيره سواء. وبيع الفيل جائز وفی بيع القردة روايتان عن ابی حنيفة رحمه اﷲ تعالٰی في رواية يجوز وهی المختار کذا فی محيط السرخسی. ويجوز بيع جميع الحيوانات سوی الخنزير وهو المختار.
یعنی ’’سانپوں کی تجارت جائز ہے جب ان سے دوائیں بنائی جائیں اگر اسکے لئے مفید نہیں تو بیع جائز نہیں۔ صحیح یہ ہے ہر چیز جس سے نفع اٹھایا جائے اسکی تجارت جائز ہے۔ ہمارے نزدیک سکھائے ہوئے کتے کی بیع جائز ہے یونہی بلی اور وحشی درندوں اور پرندوں کی خرید و فروخت درست ہے سکھائے سدھائے ہوں یا نہ ہوں۔جس کتے کو سدھایا پڑھایا نہ جائے اگر وہ قابل تعلیم ہے تو اس کا لین دین بھی جائز ہے اگر قابل تعلیم نہیں (پاگل ہے) تو اسکی بیع درست نہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہم شیر کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر قابل تعلیم و تربیت ہے اور اس سے شکار کیا جاتا ہے تو اس کی بیع جائز ہے۔ بھیڑیا اور باز تعلیم ہر حال میں قبول کرتے ہیں لہذا ان کی ہر حال میں تجارت بھی جائز ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا چھوٹے بڑے کا ایک ہی حکم ہے ہاتھی کی تجارت جائز ہے بندر کی خرید و فروخت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت جواز کی ہے اور یہی مختار ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے اور خنزیر کے علاوہ تمام حیوانوں کی خرید و فروخت جائز ہے یہی مذہب مختار ہے۔

📗✒الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 3 : 11، دار الفکر

*👈🏻لہٰذا پرندوں کی خرید و فروخت کرنے کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:*

👈*ان کے کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔*
👈*ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔*
👈*اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کو مانوس کیا جائے تاکہ ان کو قید کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر* *بالفرض قید کرنا بھی پڑے تو ان کی رہائش کا بہتر سے بہتر بندوبست کیا جائے، تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔*
👈*ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔*
👈*بیمار ہونے کی صورت میں مکمل علاج معالجہ کیا جائے۔*

👈(3)پرندوں کو اڑانا درست ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:*
يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه.یعنی اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا*

📗✒بخاري، الصحيح، 5: 2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت*

*📗✒مسلم، الصحيح، 3: 1692، رقم: 2150، دار احياء التراث العربي بيروت*

*مذکورہ بالا حدیث مبارکہ  سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا اور وہ اس کے ساتھ کھیلتا تھا ۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ نے منع نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو اڑانے اور   پالنے کی اجازت ہے

سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ پرندوں کو اڑانے  کی ایک نوعیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں  بلکہ ان کا خالی اڑانا کہ نہ کسی کی بے پردگی ہو نه کنکریوں سے نقصان، خو کب ظلم شدید سے خالی ہے جبکہ رواج زمانہ کے طور پر ہو کہ کبوتروں کو اڑاتے ہیں اور ان کا دم بڑھانے کے لئے (جس میں اصلا دینی یا دنیوی نفع نہیں فیصدی کا خیال کہ اگلے زمانہ میں تھا اب خواب و خیال و افسانہ ہو گیا ہے نہ ہر گز یہ ان جہال کا مقصود نہ کبھی ان سے یہ کام کوئی لیتا ہے۔ محض بے فائده اپنے بیہودہ بے معنی شوق کے واسطے انہیں اترنے نہیں دیتے وہ تھک تھک کے نیچے گرتے یہ مار مار کر پھر اڑادیتے ہیں صبح  کا دانہ دیر تک کی محنت شاقہ پرواز سے ہضم ہو گیا بھوک سے بیتاب ہیں اور یہ غل مچاکر بانس دکھا کر آنے نہیں دیتے خالی معدے شہپر تھے اور کسی طرح نیچے اترنے، دم لینے دانہ پانی سے اوسان ٹھکانے کرنے کا حکم نہیں۔ یہاں تک کہ گھنٹوں اور گھنٹوں سے پہروں انہیں اسی عذاب شدید میں رکھتے ہیں یہ خود کیا کم ظلم ہے اور ظلم بھی بے زبان بے گناہ جانور پر کہ آدمیوں کی ضرر رسانی سے کہیں سخت تر ہے اوف آگے تحریر فرماتے ہیں کہ بے درد کو پرائی مصیبت نہیں معلوم ہوتی اپنے اوپر قیاس کر کے دیکھیں اگر کسی ظالم کے پالے پڑیں کہ وہ میدان میں ایک دائرہ کھینچ کر گھنٹوں ان سے کاواکاٹنے کو کہے یہ جب تھکیں پست ہو کر ر کیں، کوڑے سے خبر لے، ان کا دم چڑھ جائے ، جان تھک جائے، بھوک پیاس بیحد ستائے، مگر وہ کوڑا لئے تیار ہے کہ رکنے نہیں دیتا، اس وقت ان کو خبر ہو کہ ہم بے زبان جانور پر کیا ظلم کرتے تھے ، دنیا گز شتنی ہے، یہاں احکام شرع جاری نہ ہونے سے خوش نہ ہوں ایک دن انصاف کا آنے والا ہے جس میں شاخدار بکری سے منڈی بکری کا حساب لیا جائے گا حالانکہ جانور غیر مکلف ہے تو تم مکلفین کہ تمہارے ہی لئے ثواب و عذاب جنت و جہنم تیار ہوئے ہیں کس گھمنڈ میں ہو وہاں اگر نار سقر میں کاوا کانٹا پڑاکہ وہاں ” جزاء وفاقا یعنی پوری پوری جزا ہے تو اسوقت کے لئے طاقت مہیا کر رکھو،

📗✒فتاوی رضویہ ج 16 ص 311/310

 رسول الله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الارض فوجبت لها النار بذلک رواه البخاري عن ابن عمر رضی الله تعالی عنهما ، وجملة “فوجبت “من رواية الإمام أحمد عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما۔ یعنی  ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھ رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی (اس کو امام بخاری نے سیدنا حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سے روایت کیا اور جملہ “فوجبت” (یعنی اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی ، حضرت امام احمد بن حنبل نے بروایت سیدنا حضرت جابر  رضی الله تعالی  عنها ذکر فرمایا
*📗✒بخاری، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2*

🕹البتہ کبوتر یا دیگر پرندے اڑانےکو مشغلہ بنانا،ہر وقت ان ہی کے ساتھ شوقیہ مصروف رہنا منع ہے۔ مشکاۃ شریف کی روایت میں حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
” ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتروں کے پیچھے پڑا ہوا تھا، یعنی ان کے ساتھ لہو و لعب کرنے اور ان کو اڑانے میں مشغول تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان ہے اور شیطان کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ “
📗✒احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ بیہقی ،)
_****************************************_
       *(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نائےگائوں ضلع ناندیڑ  مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*
*(بتاریخ ۲۸/ نومبر بروز جمعرات  ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*

_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🏮الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم دارالحدیث ودارالافتاء جامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان)کراچی
🏮ماقال المجیب فھو حق واحق ان یتبع
✅الجواب’ ھوالجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
🏮✔الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمدامجدعلی نعیمی، رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال، خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآبا اترپردیش الھند
🏮الجواب صحیح والمجیب نجیح
واللہ اعلم بالصواب فقط قیس محمد قادری تیغی گورکھپور سابق پرنسپل
مدرسہ کلیمیہ چشتیہ اھلسنت نقشہ بکسہ ضلع مہراج گنج جنوبی یو پی
🏮الجواب صحیح و المجیب نجیح فقط
محمد امیـــن قادری رضوی دیوان بازار مراداباد یوپی
🏮الجواب صحیح ابصــــــــــــار احمـــــــد نــــــــــــوری بریلوی  مقیم حال سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ہمدرد یونیورسٹی نئی دہلی وسرپرست اعلیٰ قادری رضوی اورگنائزیشن
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top