السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائے اعلام و مفتیان کرام کی بارگاہ علم وادب میں گذارش ہے کہ مسئلہ ذیل کا جواب مرحمت فرمائیں ۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا وزیر اعظم، یا پردھان منتری کہنا کیسا ہے
مدلل و مبرھن جواب عطا فرمائیں
سرکاروں کا بڑا ہی کرم ہوگا
(سائل:کفش بردار علماء ذوالفقار احمد رضوی پونہ مہاراشٹرا)
و علیکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک و تعالی کا نائب اکبر مظہر اتم مظہر ذات و صفات کہنا چاہیے نہ کہ وزیر اعظم پردھان منتری کہنا چاہیے۔
لفظ وزیر ان معنی میں استعمال ہوتا ہے
وزیر کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں نیز وزیر کو وزیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے۔
فیروز اللغات میں ہے
وزیر:(۱)دیوان،مدارالمہام،منتری(۲)شطرنج کا ایک مہرہ
(فیروز اللغات،ص:۱۴۷۶)
فرہنگ آصفیہ میں بھی یہی منع ہیں
لہذا اللہ کا وزیر اعظم کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالی پر کوئی چیز بوجھ ہے جس کو اٹھانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے وزیر بنیں حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی پر کوئیچیز بوجھ نہیں ہے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
ولا یؤدہ حفظھما
یعنی:اور اسے بھاری نہیں ان کی نگہبانی
(قرآن مجید،پ:۳،سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:۲۵۵)
بخاری شریف میں ہے
ان اللہ لایمل
یعنی:اللہ تعالی نہیں تھکتا ہے۔
(بخاری شریف،ج:۱،ص:۱۵۴،کتاب التھجد باب ما یکرہ من الشدید فی العبادۃ اصح المطابع)
شارحِ بخاری، فقیہِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عز و جل کا نائب اکبر مظہر اتم مظہر ذات و صفات کہنا چاہیے،وزیر اعظم نہیں کہنا چاہیے۔
(فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ:۳۵۳ مکتبہ برکات المدینہ کراچی)
مذکورہ بالا حوالہ جات معلوم ہوا کہ اللہ تعالی پر کوئی چیز بوجھ نہیں ہے لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا وزیر اعظم کہنے میں اس بات کا ایہام ہے کہ اللہ تبارک و تعالی پر کچھ بار تھا عند الشرع ایسے الفاظ استعمال کرنا ممنوع ہیں
علامہ شامی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا :
“مجرد ایھام المعنی المحال کاف للمنع” (یعنی صرف محال معنی کا احتمال منع کیلیے کافی ہے۔
(رد المحتار،ج:۹،ص:۵۶۷،کتاب الحظر و الاباحۃ ،باب الاستبراء،مکتبہ زکریا)
اس کی نظیر راعنا ہے۔عربی زبان میں یہ مراعات باب مفاعلت سے امر کا صیغہ ہے جس کے ساتھ ضمیر منصوب جمع متکلم ہے جس کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں (ہماری رعایت فرمائیں)یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد کو جب صحابہ کرام اچھی طرح سن نہ پاتے یا سمجھ نہ پاتے تو عرض کرتے راعنا ہماری رعایت فرمائیے یہود کی لغت میں راعی کے معنی احمق کے ہیں یہ گستاخ قوم اپنی فطری بدباطنی کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راعینا کہتے قران مجید میں راعنا کہنے سے منع فرمایا گیا لہذا انہیں ہدایت کر دی گئی کہ بجائے راعنا کے انظرنا
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا
یعنی:اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں۔
(قرآن مجید،سورۃ البقرۃ،پ:۱،آیت نمبر:۱۰۴)
اے ایمان والو راعنا نہ کہو بلکہ انظرنا کہو راعنا اور راعینا میں دو زبانوں کا فرق تھا ایک عربی ایک عبرانی تلفظ کا بھی فرق تھا راعنا میں ی نہیں اور راعینا میں یا ہے مگر منع کر دیا گیا
نیز یہ الفاظ شریعت مطہرہ میں وارد بھی نہیں اس لئے ان کے استعمال سے احتراز ضروری ہے ۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
8390418344
Mashallah bahut khub