فرشتےکے متعلق لفظ اپاہج استعمال کرنے کے متعلق حکم شرعی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ
(۱)زید کا کسی فرشتے کو لفظ اپاہج توہین نیت سے کہنا کیسا ہے؟
(۲)یا لفظ اپاہج کا استعمال لا علمی کی وجہ سے کہا تو کیا حکم ہے؟
اگر کسی نے سبقت لسانی سے لفظ اپاہج کہہ دیا کہ کہنا چاہتا تھا ” کوئی دوسرا لفظ ” لیکن زبان سے نکل گیا ” اپاہج ” تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
وضاحت کے ساتھ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریں مہربانی ہوگی؟
(سائل:محمد خبیب القادری دیناپوری یو پی الھند)
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
(۱)(۲)اردو زبان میں لفظ ” اپاہج “ درج ذیل معنوں میں مستعمل ہے
لولا لنگڑا،لنجا چلنے پھرنے سے معذور(۲) سست، نکما،ناکارہ
(فیروزاللغات،ص:۵۵،آفتاب بک سیلر)
فرہنگ آصفیہ میں ہے
وہ شخص جو چلنے پِھرنے کے قابل نہ ہو۔ لنگڑا۔ لولا۔ لوتھ پوتھ۔۔۔ ۲۔ نکّماق۔ نکارہ۔ سُست۔۔۔
(فرہنگ آصفیہ)
ان معانی میں سے کوئی معنی کسی فرشتہ کیلئے درست نہیں ۔
صورت مذکورہ میں اگر زید
نے واقعی یہی معنی سمجھتے ہوئے توہین کی نیت سے یا لا علمی کی بنیاد پر فرشتےکے متعلق کہا ہے تو اس صورت میں کفر کا حکم صادر ہوگا
علامہ ابوشکور سالمی علیہ الرحمہ فرماتےہیں
من شتم ملکا او ابغضہ فانہ یصیر کافرا کمافی الانبیاء “*
{تمہید ابوشکور سالمی ص١٢٢ ، مطبوعہ فاروقی دہلی}
ومن ذکر نبیا او ملکا بالحقارة فانہ یصیر کافرا”
(تمہید ص١٢٢)
امام شیخی زادہ علیہ الرحمہ فرماتےہیں
ویکفر بتعییبہ ملکا من الملائکۃ او بالاستخفاف بہ “
(مجمع الانہر ج٢ص٥٠٧ ،دارالکتب العلمیۃ)
کہ کسی نبی یا فرشتہ کو عیب لگانا یا حقارت ذکر کرنا کفرہے“
فتاوی ھندیہ میں ہے:
“رجل عاب ملکا من الملائکۃ کفر “
(فتاوی ہندیہ،ج:٢،ص:٢٦٦ ، بولاق مصر)
کہ جو کسی فرشتےکوگالی دے ، بغض رکھے یاعیب لگائے وہ کافرہے“
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نبی یا فرشتہ کی توہین یا حضرت عزت جل جلالہ کو معاذ اللہ برا کہنا بلاشبہ کفر ہے۔
(فتاوی رضویہ،ج:۱۴،ص:۶۸۷،مطبوعہ ادبی دنیا)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
کسی فرشتہ کے ساتھ ادنیٰ گستاخی کفر ہے۔
(بہار شریعت،ج:۱،حصہ:۱،ص:۹۷)
شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
ملائکہ کی شان میں ادنی گستاخی بھی کفر ہے۔
(فتاوی شارح بخاری،ج:۱،ص:۶۶۲،عقائد متعلقہ قرآن ملائکہ،مطبوعہ،ناشر دائرۃ البرکات)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کی شان میں ادنی گستاخی کرنا بھی کفر ہے
رہی بات لا علم کی تو عند الشرع لاعلمی عذر شرعی نہیں چنانچہ امام قاضی خان فرماتے ہیں:
” يصير كافراً ولا يعذر بالجهل “
(فتاوی قاضی خان ، ۳/۵۱۸)
یعنی، لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کلمہ کفر بکنے والا کافر ہوجائےگا اور جہل کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا جائےگا
اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں:
” وإن لم يعتقد أو لم يعلم أنها لفظة الكفر، ولكن أتى بها عن اختيار فقد كفر عند عامة العلماء “*
(الدرالمنتقی فی شرح الملتقی علی ھامش مجمع الانھر ، ۳/۵۰۲)
یعنی: اگر اعتقاد نہ ہو اور یہ بھی نہ معلوم ہوکہ یہ کلمہ کفر ہے مگر اپنے اختیار سے بولا تو عام فقہاء کے نزدیک کافر ہوجائےگا
اور علامہ عبد الغنی نابلسی حنفی فرماتے ہیں:
” اما اذا كان ( جاهلابه ) أي بالكفر وقد تكلم به كما ذكر فهو كفر ايضـا ( عندعامة العلماء “*
(الحدیقۃالندیۃ ، ۱/۴۵۰)*
یعنی ، اگر کلمہ کفر لاعلمی میں بولے تو وہ بھی عام علماء کے نزدیک کفر ہے
فلہذا زید اپنے اس قول سے فوراً رجوع کرے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں انتہائی شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرےاور تجدید ایمان کرے اور شادی شدہ تھا تو تجدید نکاح بھی کرے نیز تجدید بیعت بھی کرے۔
یہ تو مسئلہ کا اصل حکم تھا ، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر اس طرح کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا تاآنکہ وہ خود اس کا اقرار نہ کرے ، فلہذا یہی کہاجائےگا کہ سبقت لسانی سے ایسا ہوا ہےاگر واقعی طور پر ایسا ہی ہےکہ کہنا چاہتا تھا ” کوئی دوسرا لفظ ” لیکن زبان سے نکل گیا ” اپاہج ” تو اس پر کفر لازم نہیں
چنانچہ امام فقیہ النفس ابوالمحاسن حسن بن منصور المعروف بقاضیخان اوزجندی فرغانی حنفی متوفی ۵۹۲ھ فرماتے ہیں:
” وأما الخاطيء إذا جرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بأن كان أراد أن يتكلم بما ليس بكفر فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ لم يكن ذلك كفراً عند الكل “*
(فتاوی قاضی خان ، کتاب السیر ، باب مایکون کفرا من المسلم و مالایکون ، ۳/۵۱۸ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۲۰۰۹ء)*
یعنی ، جب غلطی سے زبان پر کلمہ کفر جاری ہوجائے بایں طور کہ ارادہ درست کلمہ بولنے کا تھا مگر غلطی سے کلمہ کفر نکل گیا تو یہ تمام ائمہ کرام کے نزدیک کفر نہیں ہوگا
علامہ سید عبدالغنی نابلسی حنفی متوفی۱۱۴۳ھ فرماتے ہیں:
” (والتكلم بما يوجبه) اى الكفر من غير احتمال اصلا ولوبوجه ضعیف ( طائعا) بلا اکراه (من غير سبق اللسان ) الى ذلك ( عالما بانه كفر ) لصحة القصد الى ما ينافي الايمان فانه كفر بالاتفاق “*
(الحدیقۃالندیۃ ، الصنف الاول ، القسم الثانی ، الخلق الخامس ، ۱/۴۵۰ ، المکتبۃالنوریۃ لائلپور)*
یعنی:جو الفاظ بغیر احتمال کے کفر کے موجب ہیں اگرچہ وجہ ضعیف سے ہو خوشدلی سے بغیر اکراہ کے اور بغیر سبقت لسانی کے کفر جان کر بولے وہ بالاتفاق کفر ہے ،
اور صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں:
” کہنا کچھ چاہتا تھا اور زبان سے کفر کی بات نکل گئی تو کافر نہ ہوا یعنی جبکہ اس امر سے اظہار نفرت کرے کہ سننے والوں کوبھی معلوم ہو جاۓے کر غلطی سے یہ لفظ نکلا ہے اور اگر بات کی پیچ کی تو اب کا فر ہو گیا کہ کفر کی تائید کر تا ہے “
(بہار شریعت ، مرتد کابیان ، ۲/۴۵۶ ، المدینۃالعلمیۃ کراتشی)*
لیکن اس صورت حال میں توبہ و استغفار کا حکم ضرور دیا جائےگا چنانچہ امام محقق شیخی زادہ حنفی متوفی۱۰۷۸ھ فرماتے ہیں: ” وما كان خطأ الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح، ولكن يؤمر بالاستغفار، والرجوع عن ذلك ” (مجمع الانھر ، کتاب السیر والجھاد ، باب المرتد ، ۲/۵۰۱ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃالاولی:۱۴۱۹ھ)
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں:
“وما كان خطأ الألفاظ لايوجب الكفر فقائله يقر على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح، ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك “*
(ردالمحتار ، کتاب الجھاد ، باب المرتد، مطلب : جملۃ من لا یقتل اذا ارتد ، ۶/۳۹۱ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃ خاصۃ:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، وہ الفاظ کفر جو غلطی سے نکلیں وہ موجب کفر نہیں تو ان کا قائل اپنے حال پر برقرار رہےگا اور تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا جائےگا البتہ استغفار اور اس سے رجوع کا حکم ضرور دیا جائےگا
نیز یہاں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ قائل کی مراد یہ ہو کہ در حقیقت فرشتہ اپاہج نہیں ہوتا کیونکہ یہ عیب ہے اور فرشتہ عیب سے پاک ہوتا ہے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت اپاہج کی صورت میں متشکل ہو جیساکہ بخاری شریف کتاب الانبیاء ، بخاری ، – باب حديث أبرَصَ وأعمى وأقرع في بني إسرائيل ، میں ہے
” ثم إنه أتى الأبرص في صورته وهیئاته “
(صحیح البخاری،ص:۸۵۸،کتاب احادیث الانبیاء،باب حدیث ابرص و اعمی و اقرع فی بنی اسرائیل)
یعنی:فرشتہ کوڑھی کے پاس دوبارہ اپنی شکل و صورت میں کوڑی کے پاس آیا۔”
اس کے تحت عمدۃ القاری میں ہے
” قوله: «في صورته أي في الصورة التي كان عليها لما اجتمع به وهو أبرص “
(عمدۃ القاری،ج:۱۶،ص:۶۷،کتاب احادیث الانبیاء علیھم الصلوۃ والسلام،باب:۵۳)
یعنی: “اپنی شکل میں، یعنی وہ جس شکل میں تھا جب وہ اس سے ملا جب وہ کوڑھی تھا۔”
اور فتح الباری میں ہے
” قوله: الم إنه أتى الأبرص في صورته، أي: في الصورة التي كان عليها لما اجتمع به وهو أبرص، ليكون ذلك أبلَغَ في إقامة الحجة عليه “
(فتح الباری،ج:۱۰،ص:۲۷۹،کتاب احادیث الانبیاء باب:۵۱،حدیث:۳۴۶۴)
یعنی: کیا وہ کوڑھی کے پاس اس کی شکل میں آیا تھا، یعنی: جس شکل میں اس نے اس سے ملاقات کی تھی جب وہ کوڑھی تھا، تاکہ یہ اس کے خلاف ثبوت قائم کرنے میں زیادہ فصیح ہو
خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسئولہ میں اگر زید سے یہ محض سبقت لسانی کی وجہ سے ہوا یا اس کی مراد در حقیقت فرشتہ کا اپاہج ہونا نہیں بلکہ اپاہج کی صورت اس وقت متشکل ہونا تھا مگر چونکہ مافی الضمیر کی ادائیگی میں اس سے غلطی ہوئی فلہذا کفر لازم نہیں مگر اس سے علی الاعلان رجوع لازم ہے ، اور مذکورہ بالا معنی سمجھتے ہوئے یا لا علمی کی بناء پر جان بوجھ کر اور ” اپاہج ” ہی مراد لے کر اس نے یہ بولا ہے تو کفر لازم ہے ، توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان و نکاح بھی فرض ہے اور مرید ہے تجدید بیعت بھی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
8390418344
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث و رئیس الافتاء بالجامعۃ النور اشاعت اہلسنت (پاکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح محمد جنید النعیمی غفر لہ المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح ابوآصف راجہ محمد کاشف نعیمی غفرلہ المفتی بدارالافتاء الھاشمیۃ کراتشی
صح الجواب ، محمد قاسم النعیمی الاشرفی ، غوثیہ دارالافتاء ، کاشی پور ، اتراکھنڈ
الجواب صحیح ، مفتی محمد عمران النعیمی ، کراتشی
میں اس مدلل اور مبرھن جواب کی تائید و تصدیق کرتاہوں ۔ مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز جامع مسجد لمبی ملاوی وسطی افریقہ
الجواب الصحیح فقط محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
الجواب صحیح ، محمد شہزاد النعیمی ، جامعۃ النور
کراتشی