دینی استاد کا درجہ والدین سے زیادہ ہے ، استاد کا شاگردوں کو مارنا ، اور مارنے پر اس کے اوپر پنچایت بٹھانا اور اس کو مدرسہ سے برخاست کردینا شرعاً کیسا ہے ؟

دینی استاد کا درجہ والدین سے زیادہ ہے ، استاد کا شاگردوں کو مارنا ، اور مارنے پر اس کے اوپر پنچایت بٹھانا اور اس کو مدرسہ سے برخاست کردینا شرعاً کیسا ہے ؟
ا__(💚)____

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتےہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ زید ایک باشرع عالم دین ہیں اور مدرسہ میں پڑھاتےہیں ایک دن بچوں کی کسی غلطی کی وجہ سے زید بچوں کو دو تین چھڑی کر کے ماردئیے اور  بچوں نے اس کی اطلاع والدین اور سرپرست کو دے دیۓ اس کے بعد بچوں کے والدین نے مدرسے کے اراکین کو صحن مدرسہ میں جمع کرکے زید پر پنچ کرنے لگے اور زید کو ظالم کہنے لگے پھر زید کو تمام جاہلوں کے بیچ میں کھڑاکرکے معافی منگواۓ اور مدرسہ سے بھی برخاست کردیا ،
لھذاطلب امر یہ ہے کہ  زید کو تمام جاہلوں کے بیچ معافی منگوانا اور مدرسہ سے خارج کرنا کیساہے قرآن وحدیث یا فقہ کی عبارات کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا

سائل صابررضا بنگال
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

*سنی صحیح العقیدہ مسلمان #دینی استاد اپنے شاگرد کے حق میں #رسول #اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا #نائب ہوتا ہے*

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️” عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموما اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصا نائب حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے “*

*📔(#فتاوی_رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، علم وتعلیم ، رقم المسئلۃ:۳۰۱ ، ۲۳/۶۳۹ ، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)*

*فلہذا اس کا حق شاگردوں پر ان کے ماں باپ سے بھی مقدم ہے*

چنانچہ علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ وجماعت علمائے ہند فرماتے ہیں

*🖋️” ويقدم حق معلمه على حق أبويه وسائر المسلمين “*

*📔(#الفتاوی_الھندیۃ ، کتاب الکراھیۃ ، باب المتفرقات ، ۵/۴۵۹ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی، شاگرد اپنے استاذ کا حق اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حقوق پر مقدم رکھے

*اسی لئے ضرورت پیش آنےپر  بقدر حاجت تنبیہ و اصلاح ونصیحت کیلئے  سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا استاذ کیلئے جائزہے*

چنانچہ امام عبدالبر بن محمد المعروف بابن شحنہ حلبی حنفی متوفی ۹۲۱ھ فرماتےہیں

*🖋️” بخلاف المعلم المامور لان المامور یضربہ نیابة عن الاب لمصلحتہ ، والمعلم یضربہ بحکم الملک بتملیک ابیہ لمصلحةالمعلم “*

*📔(#تفصیل_عقدالفرائد المعروف بشرح ابن وھبان ، فصل من کتاب الکراھیۃ ، رقم الشعر : ۸۰۰ ،  ۲/۱۷۳ ، الوقف المدنی الخیری)*
یعنی ، برخلاف معلم مامور کے اسلئے کہ وہ مصلحت کی بنا پر باپ کی نیابت میں مار سکتا ہے ، اور باپ کی تملیک کے سبب ملکیت کے حکم کیوجہ سے ، مصلحت تعلیم کی بناء پر استاد اسے مارےگا

*البتہ یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونےپائے*

چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ  فرماتےہیں

*🖋️” وقیدہ الطرطوسی بان یکون بغیر آلة جارحة وبان لایزید علی ثلاث ضربات ۔۔۔ قال الشرنبلالی : والنقل فی کتاب الصلوة : یضرب الصغیر بالید لا بالخشبة ولا یزید علی ثلاث ضربات “*

*📔(#ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب الاستبراء وغیرہ ،  ۹/۶۱۶ ، دارعالم الکتب ، طبعۃ خاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی، امام طرطوسی نے یہ قیدزائد فرامائی کہ آلہ جارحہ سے نہ ہو اور تین ضرب سے زیادہ نہ مارے ، علامہ شرنبلالی نے فرمایا کہ کتاب الصلاۃ میں منقول ہےکہ چھوٹے بچے کو ہاتھ سے مارے لکڑی سے نہیں اور تین ضرب سے زیادہ نہ مارے

اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی  فرماتےہیں

*🖋️” زدن معلم کودکاں را وقت حاجت بقدر حاجت محض بغرض تنبیہ واصلاح و نصیحت بےتفرقہ اجرت وعدم اجرت روا است ، اما بایدکہ بدست زند نہ بہ چوب ، و در کرتے برسہ بار نیفزاید “*

*📔{#فتاوی_رضویہ ،  ۲۳/۶۵۳ ، رضا فاؤنڈیشن}*
یعنی،  ضرورت پیش آنے پر بقدر حاجت تنبیہ ، اصلاح اور نصیحت کے لئے بلا تفریق اجرت و عدم اجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے،

*صورت مسئولہ میں اگر عالم صاحب نے اپنے ان شاگردوں کو واقعتاً معمولی مار مارا تھا جیساکہ سوال سے ظاہرہے تو یہ شرعاً جائز تھا ، والدین کا اس پر اعتراض کرنا ہی غیر شرعی ہے ، اور اس کیلئے پنچایت قائم کرکے استاد کو ذلیل کرنا اور برسرعام جہلاء کے سامنے معافی منگوانا سراسر ظلم و زیادتی اور ناجائز و گناہ ہے ،اس صورت میں عالم صاحب ظالم نہیں بلکہ خود یہ لوگ ظالم ہیں ،  بچے کے والدین اور ان کا ساتھ دینے والے تمام لوگوں پر فرض ہےکہ استاد عالم دین صاحب سے ویسے ہی برسرعام معافی مانگیں اور توبہ و استغفار کریں ،*

*اور اگر بہت شدید مارا تھا تو اگرچہ اعتراض کا حق ہے ، مگر یوں عالم دین استاد صاحب کو سب کے سامنے پنچایت بٹھاکر ذلیل و رسوا کرنا اور معافی منگوانا مروت و اخلاق اور آداب شاگردی کے خلاف ہے ، کہ خلاف شرع امر کے صدور پر بھی استاذ کے ساتھ بےادبی سے پیش آنے کی اجازت نہیں*

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں

*🖋️”مگر اس نہ ماننے میں گستاخی و بے ادبی سے پیش نہ آئے فان المنكر لا يزال بمنکر ۔۔۔۔  اس کا وہ حکم کہ خلاف شرع ہو مستثنیٰ کیا جائے گا بکمال عاجزی وزاری معذرت کرے “*

*📔(#فتاوی_رضویہ ، ۲۳/۶۴۰)*

*شاگرد اور شاگرد کے سرپرست یاد رکھیں کہ استاذ کو تکلیف پہونچانے والا برکت علم سے محروم رہتا ہے*

امام اہلسنت فرماتے ہیں

*🖋️” علماء فرماتے ہیں جس سے اس کے استاد کو کسی طرح کی ایذا پہنچی وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا “*

*📔(#ایضا)*

*مذکورہ ماں باپ سوچیں کہ اگر بچے کے باپ نے یا اس کی ماں نے ویسا ہی مارا ہوتا جس طرح استاد نے مارا ہے تو کیا بچے کا باپ اس کی ماں کے خلاف یا بچے کی ماں اس بچے کے باپ کے خلاف اسی طرح پنچایت بلاکر ماں یا باپ کو ذلیل کرتا اور سب کے سامنے معافی منگواتا اور گھر سے نکال دیتا ؟*
*ہرگز نہیں ! تو پھر استاذ دینی جس کا حق ان دونوں ماں باپ سے زیادہ ہے اس کے ساتھ ایسا سلوک کس طرح روا ہوسکتا ہے ؟ فاعتبروا یااولی الابصار !*

*اور کمیٹی والے جنہوں نے ان ماں باپ کے کہنے پر اپنے  مدرس پر پنچایت بٹھائی اور ذلیل کیا اور معافی منگوائی اور محض اس بنا پر  انہیں مدرسہ سے نکال دیا سب کے سب حد سے بڑھنے والے جفاکار ہیں ، ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں ، عالم صاحب سے معافی مانگیں اور فوراً مدرسہ میں بحال کریں*

*قال اللہ تبارک وتعالیٰ*

*” وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ “*

*📓(#القرآن_الکریم ، ۵/۲)*
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔

*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*والله تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبہ ۔۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۴/رجب المرجب ۱۴۴۴ھ مطابق ۶/فروری ۲۰۲۳ء*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ محمد عطاء الله النعیمی عفی عنہ ، خادم الحدیث والافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*عرفان العطاری النعیمی غفرلہ*
*دارالافتاء کنزالاسلام،جامع مسجد الدعاء کراچی*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب مصیب*
*ابوآصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی ، رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*محمد شہزاد النعیمی غفرلہ،دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی*
ا__(💚)____
*الجواب الصحیح ۔ فقط جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند*
ا__(💚)____
*الحلقۃالعلمیۃ ٹیلیگرام گروپ*

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top