فطرہ اور چرم قربانی کی رقم سے مسجد بنائی تو مسجد ہوئی یا نہیں ، اور اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

فطرہ اور چرم قربانی کی رقم سے مسجد بنائی تو مسجد ہوئی یا نہیں ، اور اس میں نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ ۔۔
جس مسجد کی تعمیر فطرہ اور چرم قربانی کی رقم سے ہوئی ہو اس مسجد میں نماز پڑھنا کیسا ہے نیز اس مسجد کی کمیٹی والوں پر کیا حکم شرع لاگو ہوگا نیز جس امام صاحب نے یہ کہا ہو کہ فطرہ کی رقم عید گاہ میں خرچ کر سکتے ہیں اس امام کے متعلق کیا حکم ہے؟
المستفتی ۔محمد علاء الدین رضوی دیناجپوری ۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
چرم قربانی یا اس کی رقم  مسجد میں دینا نہ صرف بلا کراہت جائز ہے بلکہ باعث اجر و ثواب ہے
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
*” ہاں جلد براہ راست ( مسجد و مدرسہ دینیہ میں ) صرف کی جاسکتی ہے ، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وائتجروا : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اجر وثواب حاصل کرو ، اور اگر مسجد ومدرسہ میں دینے کے لئے داموں کو فروخت کی تو دام بھی براہ راست صرف کئے جاسکتے ہیں “*
*(فتاوی رضویہ ، کتاب الاضحیۃ ، رقم المسئلۃ : ۲۸۵ ، ۲۰/۵۰۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*
دوسری جگہ فرماتے ہیں
*” امام زیلعی سے گزرا : لانہ قربۃ کالتصدق : کہ یہ صدقہ کی طرح قربت ہے۔اس کار قربت مثل مسجد یا مدرسہ دینیہ یا تعلیم یتیماں میں صرف کرنے کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ خود اس نیت سے لے کر اس کارخیر میں صرف کرنے والوں کو دے دیں “*
*(ایضا ، ص۴۹۵)*
اور ایک جگہ فرماتے ہیں
*” تعمیر مسجد نیز از آن است، پس بالیقین رواست  “*
*(ایضا ، ص۴۸۶)*
یعنی ، مسجد کی تعمیر بھی نیکی کا کام ہے۔ لہذا اس کا مصرف تعمیر مسجد کے لئے بالیقین جائز ہے
اور ایک جگہ یوں فرماتے ہیں
*” قربانی کے چمڑوں کو للہ مسجد (میں) دے دینا کہ انھیں یا ان کی قیمت کو متولی یا منتظمان مسجد مسجد کے کاموں مثلا ڈول ، رسی، چراغ، بتی، فرش، مرمت، تنخواہ مؤذن، تنخواه امام وغیرہا میں صرف کریں، بلاشبہ جائز و باعث اجر و کار ثواب ہے “*
*(ایضا ، ص۴۷۶)*
البتہ فطرہ کی رقم مسجد میں لگانا جائز نہیں کہ اس کیلئے تملیک فقیر شرط ہے جو مسجد میں مفقود ہے
چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
*” وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف و فی کل حال “*
*(الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر ، ص۱۴۱ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، صدقہ فطر  زکوٰۃ کی طرح ہے مصارف میں اور ہر حالت میں ،
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
*” المراد في أحوال الدفع إلى المصارف من اشتراط النية واشتراط التمليك، فلا تكفي الإباحة “*
*(ردالمحتار ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر ، ۶/۱۷۲ ، تحقیق: صالح فرفور ، دارالثقافۃ والتراث)*
یعنی ، ” و فی کل حال ” سے مصارف کو دیتے وقت نیت اور تملیک کی شرط مراد ہے لہذا اباحت کافی نہیں ہوگی
فلہذا بلا ضرورت اور عند الضرورت بلا حیلہ شرعی مسجد  میں فطرہ کی رقم صرف کرنا جائز نہیں ، لیکن اگر صرف کردیا تو بھی مسجد مسجد ہوجائےگی اور اس میں نماز پڑھنا بھی جائز ہوگا
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں
*” مال مختلط کہ مورث وجوہ مختلفہ سے جمع کرلے اور وارث کو اس کی کچھ تفصیل کا پتا نہیں چل سکا کہ کتنا حلال ہے کتناحرام ہے، جو حرام ہے کس کس سے لیا ہے تو امر مجہول کا مطالبہ اس سے نہیں ہو سکتا ایسی ہی جگہ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ : الحرمة لا تتعدى ؛ بيان المسئلة فى الدر المختار وردالمحتار وغيرھما من الاسفار ، کہ حرمت متعدی نہیں ہوتی ، اس مسئلہ کی وضاحت درمختار اور ردالمحتار وغیرہ کتب میں ہے ، تو مسجد مذکور ضرور مسجد ہے اور اس کا وقف صحیح اور اس میں نماز جائز “*
*(فتاوی رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، رقم المسئلۃ : ۱۴۴ ، ۱۶/۲۹۸)*
دوسری جگہ فرماتے ہیں
*” بالفرض یہ روپیہ حرام ہی ہوتا تو امام کرخی کے مذہب مفتی بہ پر مسجد کی طرف اس کی خباثت سرایت نہ کر سکتی جب تک اس پر عقد و نقد جمع نہ ہوتے یعنی وہ روپیہ دکھا کر بائعوں سے اینٹ کڑیاں زمین و غیرہا خریدی جاتیں کہ اس روپے کے عوض میں دے پھر وہی زر حرام ثمن میں ادا کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ عام خریداریاں اس طور پر نہیں ہو تیں تو اب بھی ان مسجدوں میں اثر حرام ماننا جزاف و باطل تھا “*
*(ایضا ، ص۵۱۵)*
ایک اور جگہ فرماتے ہیں
*” مسجد مدرسہ وغیرہ میں بعینہ روپیہ نہیں لگایا جاتا بلکہ اس سے اشیاء خریدتے ہیں۔ خریداری میں اگر یہ نہ ہوا ہو کہ حرام دکھا کر کہا کہ اس کے بدلے فلاں چیز دے ، اس نے دی ، قیمت میں زر حرام دیا ، تو جو چیز خریدیں وہ خبیث نہیں ہوتی ، اس صورت میں فاتحہ وعرس کا کھانا جائز ہے اور اکثر یہی صورت ہوتی ہے۔ مسجد میں نماز ،  مدرسہ میں تحصیل علم جائز ہے  “*
*(احکام شریعت ، حصہ اول ، ص ۱۲۴ , ۱۲۵ ، مطبوعہ نظامیہ کتاب گھر لاہور)*
برصدق مستفتی فطرہ کی رقم سے مسجد بنانے والوں پر فرض ہے کہ اپنے اس ناجائز عمل سے توبہ کریں اور فوراً فطرہ کی وہ تمام رقم جو مسجد میں لگائی گئی ہے فطرہ دینے والوں کو واپس کریں اور دینے والے معلوم نہ ہوں تو ان کی طرف سے مستحقین کو پہونچائیں
چنانچہ علامہ محمد بن حسین طوری حنفی متوفی ۱۱۳۸ھ فرماتے ہیں
*” ويردونه على أربابه إن عرفوهم وإلا يتصدقوا به “*
*(تکملۃ البحر الرائق ، کتاب الکراھیۃ ، فصل فی البیع ، ۸/۳۶۹ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۸ھ)*
یعنی ، اگر معلوم ہوں تو ان کے مالکان کو لوٹائے ورنہ اسے صدقہ کردے اور اگر یہ کمیٹی والے لوگوں کے وکیل تھے جیساکہ عموماً گاؤں دیہات میں ہوتا ہے کہ لوگ اپنے فطرہ کی رقم کمیٹی کے پاس جمع کردیتے ہیں اور وہ مستحقین تک پہونچاتے ہیں تو یہ وکالت ہے  اس قسم کے معاملات میں وکالت جائز ہے
چنانچہ امام برہان الدین ابن مازہ بخاری حنفی متوفی ۶۱۶ھ فرماتے ہیں
*” ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإیداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان “*
*(ذخیرۃ الفتاوی ، کتاب الوکالۃ ، الفصل الخامس ، ۱۵/۲۰۲ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۴۰ھ)*
یعنی ، بیوع ، اشربہ ، اجارہ ، نکاح ، طلاق ، خلع ، صلح ، اعارہ ، استعارہ ، ہبہ ، صدقہ ، ودیعہ ،اور  حقوق و خصومات ، قرض و رہن اور ارتہان پر قبضہ وغیرہ کیلئے وکیل بنانا جائز ہے مگر چونکہ فطرہ کی رقم کو انہوں نے غلط جگہ صرف کیا ہے لہذا بطورِ تاوان ساری رقم مالکان کو لوٹائیں اور اگر مالکان معلوم نہ ہوں تو ان کی طرف سے مستحقین کو صدقہ کردیں ، لانہ استہلاک مال المؤکل
*” وفی الاستہلاک یضمنہ بالاتفاق “*
(مجمع الضمانات ، الباب الاول ، مسائل الزکاۃ ، ص۵۳ ، دارالسلام مصر ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۰ھ)
یعنی ، جان بوجھ کر مال ضائع کرنے پر وکیل بالاتفاق تاوان دےگا اور اگر واقعی مجبوری اور ضرورت تھی کہ اس کے بغیر مسجد نہیں بن سکتی تھی اور دوسرا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا تو اب ضرورت کے تحت پہلے تو وہ ساری فطرہ کی رقم جو مسجد میں لگائی گئی ہے قرض حسن وغیرہ کے طور پر جمع کریں اور پھر فطرہ دہندگان کی طرف سے فقیر شرعی کو ادا کردیں اور وہ اپنی طرف سے مسجد میں کو دے دے ، بعدہ جن جن سے قرض وغیرہ لے کر رقم اکٹھی کیا تھا مسجد کی طرف سے قرض ادا کردے
چنانچہ علامہ نظام الدین برہان پوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں
*” والحيلة له أن يتصدق بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة “*
*(فتاوی ہندیہ ، کتاب الحیل ، الفصل الثالث ، ۶/۴۴۵ ، دارالکتب العلمیہ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۱ھ)*
اور امام اہلسنت فرماتے ہیں
*” جبکہ اس نے فقیر مصرف زکوۃ کو بہ نیت زکوۃ دے کر مالک کردیا  زکوٰۃ ادا ہو گئی اب وہ فقیر مسجد میں لگادے دونوں کے لیےاجرعظیم ہوگا “*
*(فتاوی رضویہ مترجم ، کتاب الزکاۃ ، ۱۰/۲۸۰)*
اسی سے عیدگاہ کا حکم بھی واضح ہوگیا ،  اور امام صاحب پر بھی بغیر علم فتوی دینے کی وجہ سے توبہ و رجوع لازم ہے
امام اہلسنت فرماتے ہیں
*” جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدیدہ کبیرہ ہے اگر قصداً ہے تو شریعت پر افتراء ہے اور شریعت پر افتراء اللہ عزو جل پر افترا ہے، اور اللہ عزو جل فرماتا ہے , ” إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللهِ الكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ؛ ترجمہ: وہ جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں فلاح نہ پائیں گے۔ اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ فتوی دے۔ حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من افتى بغير علم لعنته ملئكة السماء والارض ۔ ترجمہ: جو بغیر علم کے فتوی دے اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں ، ہاں اگر عالم سے اتفاقاً سہو واقع ہو اور اس نے اپنی طرف سے بے احتیاطی نہ کی اور غلط جواب صادر ہوا تو مواخذہ نہیں مگر فرض ہے کہ مطلع ہوتے ہی فورا اپنی خطا ظاہر کرے، اس پر اصرار کرے تو پہلی شق یعنی افتراء میں آجائے گا “*
*(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، علم و تعلیم ، رقم المسئلۃ: ۳۵۳ ، ۲۳/۷۱۲,۷۱۳)*
*ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۲/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۸/ اکتوبر ۲۰۲۳ء*
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح محمد جنید النعیمی غفرلہ المفتی بدارالافتاء بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح محمد شرف الدین رضوی غفرلہ ، دارالعلوم  قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ
مفتی ملک کاشف مشتاق صاحب
مفتی شہزاد صاحب
مفتی فرحان صاحب
مفتی راجہ کاشف صاحب
مفتی جنید صاحب
مفتی عبدالرحمن صاحب
مفتی جلال الدین صاحب
دامت برکاتہم العالیہ

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top