(۱)
تقدیر کیا ہے؟
(۲)
تقدیر کو اللہ تعالیٰ نے جو بری یا بھلی پیدا فرمایا اس میں کیا کیا لکھا رہتا ہے؟
(۳)
کیا چوری کرنا، زنا کرنا، قتل کرنا، کسی کا گھر جلانا، کسی سے محبت کرنا وغیرہم یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے؟
(۴)
کیا تقدیر بدل سکتی ہے؟ یعنی جو چیز قسمت میں نہیں لکھی ہے وہ کوشش کرنے پر مل سکتی ہے؟
(۵)
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے پیدا ہوتے ہی کیوں اللہ اچھی اور بری تقدیر بنا دیتا ہے جبکہ وہ اچھی اور بری باتیں پہچاننے کی عقل نہیں رکھتا ہے۔
مسئلہ:
ازشاکر علی مدرس مدرسہ غوثیہ سکھوئیا پوسٹ مڑلا ضلع بستی
(۱)
تقدیر کیا ہے؟
(۲)
تقدیر کو اللہ تعالیٰ نے جو بری یا بھلی پیدا فرمایا اس میں کیا کیا لکھا رہتا ہے؟
(۳)
کیا چوری کرنا، زنا کرنا، قتل کرنا، کسی کا گھر جلانا، کسی سے محبت کرنا وغیرہم یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے؟
(۴)
کیا تقدیر بدل سکتی ہے؟ یعنی جو چیز قسمت میں نہیں لکھی ہے وہ کوشش کرنے پر مل سکتی ہے؟
(۵)
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے پیدا ہوتے ہی کیوں اللہ اچھی اور بری تقدیر بنا دیتا ہے جبکہ وہ اچھی اور بری باتیں پہچاننے کی عقل نہیں رکھتا ہے۔
الجواب:
(۱)
اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق ہر بھلائی برائی کو مقدر فرما دیا ہے اسے تقدیر کہتے ہیں۔
وھو تعالٰی اعلم
(۲)
انسان کو جو کچھ نفع نقصان پہنچنے والا تھا اور وہ جو کچھ اچھائی برائی کرنے والا تھا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محقوظ میں لکھ دیا گیا ہے یہ نہیں کہ جیسا لکھ دیا گیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے‘ بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا لکھا گیا۔
وھو تعالٰی اعلم
(۳)
چوری و زنا وغیرہ انسان اپنے اختیار سے کرتا ہے‘ اور اس فعل کے کرنے کی قدرت منجانب اللہ ہوتی ہے اسی لئے اس فعل پر انسان سے مواخذہ ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ انسان نہ تو مجبور محض ہے‘ اور نہ مختار کل
(۴)
تقدیر کی تین قسمیں ہیں۔ مبرم حقیقی۔ معلق محض اور معلق شبیہ بہ مبرم۔ ان میں مبرم حقیقی کا بدلنا ممکن ہے‘ اور معلق محض اکثر اولیاء کرام کی دعاؤں سے ٹل جاتی ہے‘ اور معلق شبیہ بہ مبرم تک صرف خاص اکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ ایک چیز کا کسی انسان کے لئے نہ ملنا اگر مبرم حقیقی میں سے ہے تو کوشش کرنے پر نہیں مل سکتی ہے‘ اور اگر قضا مبرم حقیقی نہ ہو تو ذکر و اذکار یا بزرگوں کی دعاؤں سے مل سکتی ہے‘ اور آنے والی بلا ٹل سکتی ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے: ان الدعاء یرد القضاء یعنی بے شک دعا قضا (تقدیر) ٹال دیتی ہے۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم
(۵)
انسان پیدا ہونے کے بعد جو کچھ نیکی و بدی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ازل ہی میں اپنے علم سے وہ سب کچھ لکھ چکا ہے۔ تقدیر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے ان میں زیادہ غور و فکر کرنا سبب ہلاکت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما اس مسئلے میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو اوروں کی کیا حقیقت ہے؟ تقدیر حق ہے اس کے انکار کرنے والے کو حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کا مجوس بتایا ہے۔
واللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی اعلم۔
کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۳؍ شعبان ۱۳۸۲ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۷)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند