آیت اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ میں ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ کا کیا مطلب ہے؟
مسئلہ:
از محمد حنیف رضوی خطیب سنی کھاڑی مسجد کرلا بمبئی
تیسرے پارہ کی آیت کریمہ میثاق والی اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ میں ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ کا کیا مطلب ہے جبکہ ہمارے رسول سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیائے کرام کے بعد تشریف لانے والے تھے؟ مفصل اطمینان بخش جواب سے نوازیں۔
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب
آیت کریمہ کے معنی میں مفسرین کرام کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کے لئے سب انبیاء سے عہد لیا گیا کہ اگر تمہارے پاس محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو تم ان پر ضرور ایمان لانا یہی قول حضرت علی، ابن عباس، قتادہ اور سدی کا بھی ہے۔ رضی اللہ عنہم (تفسیر کبیر)
اور یہ عہد حضور کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے علی سبیل الفرض ہے اگرچہ حضور سب انبیاء کے بعد تشریف لانے والے تھے اور علی سبیل الفرض کی مثالیں قرآن کریم میں بہت ہیں
مثلاً پ ۲۴ رکوع ۵ میں ہے
لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبِطَنَّ عَمَلُکَ اگر تو نے اللہ کا شریک ٹھہرایا تو ضرور تیرا سب عمل برباد ہو جائے گا‘‘۔ حالانکہ کوئی نبی خدا تعالیٰ کاشریک کسی کو ہرگز نہیںٹھہرا سکتا
اور ملائکہ کے بارے میں فرمایا:
وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ تَجْزِیْہِ جَھَنَّمَ (پ ۱۷ ع۲) ’’ یعنی جو ان میں سے کہے میں اللہ کے سوا معبود ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے‘‘۔
حالانکہ ان کے بارے میں خداتعالیٰ نے خود فرمایا: وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ (پ ۱۷ ع۲)
’ یعنی ملائکہ اس کے حکم پر کاربند ہوتے ہیں‘‘۔ یہاں تک کہ پ ۲۵ ع۳ میں فرمایا
قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاِنَّا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ۔ یعنی تم فرماؤ! اگر رحمن کے لئے لڑکا ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا‘‘۔
حالانکہ خداتعالیٰ کی ذات پاک ہونے سے پاک ہے جیسا کہ سورۂ اخلاص میں فرمایا لَمْ یَلِدْ۔ لہٰذا جس طرح یہ سب علیٰ سبیل الفرض ہیں ایسے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب انبیائے کرام کے ایمان لانے اور مدد کرنے کا عہد بھی علیٰ سبیل الفرض ہے (تفسیر کبیر)
اور بعض کا قول یہ ہے کہ سب انبیائے کرام سے ایک دوسرے کے بارے میں عہد لیا گیا۔ اس صورت میں ثُمْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ الخ کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر نبی سے اس بات کا عہد لیا گیا کہ اگر تم کسی نبی کا زمانہ پاؤ تو ان کی تصدیق کرو اور ان کی مدد کرو‘ اور اگر کوئی نبی تمہارے زمانہ میں نہ ہو تو اپنی امت کو آنے والے نبی پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کی تاکید کرو۔ یہ قول حضرت سعید بن جبیر، حسن اور طاؤس کا ہے رضی اللہ عنہم اور تفسیر کبیر، تفسیر خازن۔ تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر صاوی میں اسی قول کو مقدم کیا گیا ہے‘ اور تفسیر روح البیان میں صرف اسی قول کو بیان کیا‘ اور بعض لوگوں نے کہا کہ آیت میثاق میں نبی سے مراد امت ہے
جیسا کہ آیت کریمہ یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآء میں نبی سے مراد امت ہے تو اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ امتیوں سے عہد لیا گیا کہ آنے والے رسول پر تم ضرور ایمان لانا۔ (تفسیر کبیر)
اور بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کریمہ میں مضاف کا حذف ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی اولاد بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ جب تمہارے پاس تمہاری کتاب کی تصدیق کرنے والا رسول آئے تو تم اس پر ضرور ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا۔ (تفسیر کبیر۔ تفسیر مدارک)
اور بعض لوگوں کا قول ہے کہ انبیائے کرام اور ان کی امتوں سب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عہد لیا گیا مگر ذکر صرف انبیائے کرام کا اس لئے ہوا کہ انبیاء کا عہد ان کی امت کا عہد ہے کہ متبوع کا عہد تابع کا عہد ہوتا ہے۔ (تفسیر خازن۔ تفسیر معالم التنزیل)
اور بعض لوگوں کا قول یہ ہے کہ انبیائے کرام اپنی امتوں سے عہد لیتے تھے کہ جب سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہوں تو ان کے اوپر ضرور ایمان لانا اور ان کی مدد ضرور کرنا۔ تفسیر کبیر اور تفسیر خازن میں ہے کہ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے مگر قول اوّل قوی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دنیا میں کوئی نبی ورسول نہیں آیا مگر خداتعالیٰ نے ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا عہد لیا اور پیغمبر نے اپنی قوم سے عہد لیا کہ اگر تم ان کا زمانہ پاؤ تو ان پر ضرور ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔ (تفسیر خازن)
وھو تعالٰی ورسولہُ الاعلی اعلم بالصواب۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی
۸؍ ربیع الاول ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۷)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند