بے پردہ عورتوں کو سامنے بٹھا کر تعویذ ، پانی دینے والے امام کا شرعی حکم

بے پردہ عورتوں کو سامنے بٹھا کر تعویذ ، پانی دینے والے امام کا شرعی حکم

السلام عليكم و رحمت اللہ و برکاتہ


جو امام بے پردہ عورت کو اپنے سامنے پیٹھا کر تعویز اور پانی دے اس کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل ۔۔۔ خان قمرعالم نظامی ، بھیونڈی
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ*


*الجواب بعون الملک الوھاب*
” بے پردگی ” کا مطلب یہ ہے کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
*” بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ ، یا پنڈلی کا کوئی جز ، تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقاً حرام ہے ، خواہ وہ پیر ہو یا عالم ، یا عامی جوان ہو یا بوڑھا “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، دیکھنا ، چھونا ، ۲۲/۲۳۹,۲۴۰ ، رقم المسئلۃ: ۹۷ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)


فی زمانہ اس پردہ میں چہرہ بھی شامل ہے
چنانچہ امام حسین بن علی سغناقی حنفی متوفی ۷۱۱ھ فرماتے ہیں
” قال مشائخنا تمنع المرأة الشابة عن كشف وجهھا بين الرجال في زماننا هذا في رواية “المنتقی ” وفي رواية أخرى هو عورة، وبه أخذ الفقهیہ أبو الليث  للفتوى “
(النہایۃ شرح الھدایۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاۃ التی تتقدمھا ، ۲/۲۴۳ ، جامعۃ ام القرٰی ، العام الجامعی: ۱۴۳۵)
یعنی ، ہمارے مشائخ نے فرمایا کہ ہمارے زمانہ میں جوان عورت کو مردوں کے درمیان چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے گا ، اور دوسری روایت میں ہے کہ یہ بھی ” عورت” ہے

امام فقیہ ابواللیث نے فتویٰ کیلئے اسی کو اختیار فرمایا
اور امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ و علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
” وتمنع المَرْأَة الشَّابة مِنْ كَشْفِ الوَجْه بين الرجال لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة “
(تنویر الابصار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاۃ ، ص۵۸ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)
یعنی ، جوان عورت کو مردوں کے درمیان چہرہ کھولنے سے منع کیا جائے گا ، اسلئے نہیں کہ چہرہ عورت میں داخل ہے بلکہ خوف فتنہ کی وجہ سے
اور

امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی فرماتے ہیں
” پھر ان ائمہ علماء کے یہ احکام ہر گز حکم اقدس کے خلاف نہ ٹھہرے بلکہ عین مطابق مقصود شرع قرار پائے ، اس طرح رفتہ رفتہ حاملان شریعت و حکمائے امت نے حکم حجاب دیا اور چہرہ چھپانا کہ صدر اول میں واجب نہ تھا واجب کر دیا “
(فتاوی رضویہ ، کتاب السیر ، رقم المسئلۃ:۱۸۴ ، ۱۴/۵۵۲)


فلہذا امام سغناقی حنفی نے فرمایا
” النظر إلى وجهِ الْمَرْءةِ الشابةِ، أو إلى شعور الإمَاء عَنْ شَهْوَةٍ ، حَرَامٌ “
(النہایۃ شرح الھدایۃ ، ۲/۲۴۲)
یعنی ،جوان عورت کے چہرے یا باندیوں کے بالوں کو شہوت دیجھنا حرام ہے فلہذا برصدق مستفتی واقعی اگر ایسا ہی ہے جیساکہ سوال میں بیان کیا گیا ہے تو امام مذکور فاسق ہے کہ مرتکب حرام ہے

چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
” بیگانہ مرد کا بے پردہ عورت کے پاس جانا ہر حالت میں حرام ہے “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، داڑھی ، حلق و قصر ، ختنہ و حجامت ، رقم المسئلۃ: ۲۱۶ ، ۲۲/۶۰۴ )


اور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان قادری حنفی متوفی ۱۴۳۹ھ فرماتے ہیں
” عورتوں کی خلوت میں اجنبی کا بیٹھنا اور بے پردگی بلاشبہ حرام بدکام بد انجام”
(فتاوی تاج الشریعہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، باب المزامیر وغیرہا ، رقم المسئلۃ:۹ ، ۹/۲۳۰ ، مطبوعہ مرکز الدراسات الاسلامیۃ بریلی شریف)

اور اگر اس کا یہ فعل مشتہر بھی ہوتو فاسق معلن ہے ، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کا اصلاح حال ظاہر نہ ہو امامت کے لائق نہیں

چنانچہ تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان قادری حنفی بےپردہ عورتوں کو پڑھانے والے ایک امام کے بارے میں فرماتے ہیں
” اگر یہ جرائم اس پر ثابت و مشتہر ہوں تو وہ بھی امامت کے لائق نہیں ، کسی اور سنی صحیح العقیدہ صحیح القراۃ صحیح الطہارت غیر فاسق معلن کو امام بنائیں “
(فتاوی تاج الشریعہ ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، رقم المسئلۃ: ۴۵۶ ، ۴/۸۹ )


اور بے پردہ عورتوں کو سامنے بٹھا کر مرید کرنے والے پیر کے بارے میں فرماتے ہیں
” اگر واقعہ یہ ہے کہ مرید ہونے کیلئے عورتیں اس کے سامنے بے پردہ آتی ہیں تو وہ سخت فاسق معلن ہے جبکہ انہیں بے پردگی سے منع نہ کرتا ہو “
(ایضا ، ص۳۳۵ ، رقم المسئلۃ:۳)


اور اجنبی عورتوں سے ملنے جلنے والے امام کے بارے میں حکم شرع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
” اگر یہ واقعہ ہے کہ امام مذکور ان اجنبی عورتوں کے سامنے آتا ہے اور یہ شرعاً ثابت ہے تو وہ فاسق معلن ہے اسے امام بنانا گناہ اور اس کی اقتدا مکروہ تحریمی اور نماز واجب الاعادہ ہے ، اس پر توبہ لازم ہے ، بعد توبہ جب اصلاح حال ظاہر ہوجائے تو امامت کے قابل ہوگا “
(ایضا ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ۴/۱۰۳ ، رقم المسئلۃ: ۴۷۱)


البتہ اگر بے پردگی نہ ہو اور حدود شرع میں رہ کر امام مذکور تعویذ پانی وغیرہ عورتوں کو دے تو شرعاً کوئی حرج نہیں


چنانچہ امام اہلسنت فرماتے ہیں
” اگر بدن موٹے اور ڈھیلے کپڑوں سے ڈھکا ہے نہ ایسے باریک که بدن یا بالوں کی رنگت چمکے ، نہ ایسے تنگ  کہ بدن کی حالت دکھائیں ، اور جانا تنہائی میں نہ ہو اور پیر جوان نہ ہو، غرض کوئی فتنہ نہ فی الحال ہو نہ اس کا اندیشہ ہو تو علم دین امور راہ خدا  سیکھنے کے لئے جانے اور بلانے میں حرج نہیں “
(فتاوی رضویہ ، ۲۲/۲۴۰)


واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۲۶/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۲/ اکتوبر ۲۰۲۳ء*
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد جنید العطاری النعیمی
المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح* مفتی عبدالرحمن قادری ،  دارالافتاء غریب نواز  لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
ملک محمد کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح
المفتی بغوثیۃ دارالافتاء کاشی پور اتراکھنڈ

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top