کیا بیوی اپنے شوہر پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے ؟ کیا شوہر کو مار سکتی ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر بیوی غصہ میں آکر شوہر کو مار دے تو اس کے لۓ کیا حکم ہے ؟
جواب عنایت فرمائیں گے مہربانی ہوگی
سائل محمد عبدالقادر جیلانی
مالدہ مغربی بنگال
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
بیوی کا اپنے شوہر کو مارنا ، اس پر ہاتھ اٹھانا شرعاً جائز نہیں ، اور نہ سماج ایسی عورت کو اچھی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ خود رب تبارک وتعالیٰ نے شوہر کا مقام و مرتبہ بیوی کے حق میں بلند کیا ہے
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
” وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ “
(القرآن الکریم ، ۲/۲۲۸)*
ترجمہ : اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے
اس فضیلت کی تفصیل ایک جگہ اس طرح بیان کی گئی کہ
” اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ-وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِـعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا “
(القرآن الکریم ، ۳/۳۴)*
ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ بلند بڑا ہے
اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
” لو كنت أمر أحداً ان يسجد لأحد لأمرت المرأة أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا “
(جامع الترمذی ، کتاب الرضاع ، باب ما جَاءَ في حَقٌّ الزَّوْجِ عَلَى الْمَرأة ، رقم الحدیث: ۱۱۶۲ ، ص۳۵۵ ، مطبوعہ دارالفکر بیروت ، ۱۴۲۵ھ)*
ترجمہ: اگر میں کسی کو کسی کیلئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے
دوسری حدیث پاک میں ہے
” أيما امرأة ماتت وزوجها عَنْهَا رَاضِ، دَخَلَتِ الْجَنةَ “
(ایضا ، رقم الحدیث: ۱۱۶۴)*
ترجمہ: جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی
اور ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ
” لا تؤذي أمراة زوجها في الدُّنيا، إلا قالت زوجته من الحور العين لا تؤذیہ قاتلك الله، فَإِنَّمَا هُوَ عِندَكَ دخيل يُوشِكَ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا “
(ایضا ، ص۳۵۸ ، رقم الحدیث: ۱۱۷۷)*
ترجمہ: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں : خدا عَزَّوَجَلَّ تجھے قتل کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا
اور شوہر کے حقوق بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
” امور متعلقہ زن شوی میں مطلقا اس کی اطاعت کہ ان امور میں اس کی اطاعت والدین پر بھی مقدم ہے، اس کے ناموس کی بشدت حفاظت ، اس کے مال کی حفاظت ، ہر بات میں اس کی خیر خواہی، ہر وقت امور جائز میں اس کی رضا کا طالب رہنا، اسے اپنا مولی جاننا، نام لےکر [نہ] پکارنا، کسی سے اس کی بے جا شکایت نہ کرنا، اور خدا توفیق دے تو بجا سے بھی احتراز کرنا بے اس کی اجازت کے آٹھویں دن سے پہلے والدین یا سال بھر سے پہلے اور محارم کے یہاں جانا وہ ناراض ہو تو اس کی انتہائی خوشامد کرکے اسے منانا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ کر کہنا کہ یہ میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے یہاں تک کہ تم راضی ہو یعنی میں تمہاری مملوکہ ہوں جو چاہو کرو مگر راضی ہو جاؤ “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، حسن سلوک و حقوق العباد ، رقم المسئلۃ: ۱۴۷ ، ۲۴/۳۷۲ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*
اور دوسری جگہ ایک حدیث پاک یوں نقل فرماتے ہیں
” اور ایک حدیث میں ہے: “اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو اس کا حق ادانہ ہو گا “
(ایضا ، رقم المسئلۃ: ۱۵۷)*
آیات کریمہ ، حدیث پاک اور اقوال فقہاء سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ، نیک بخت عورتیں وہ ہیں جو شوہروں کا ادب کرتی ہیں ، اگر اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرتی ، عورت خود کو اپنے شوہر کی مملوکہ سمجھے وغیرہ فلہذا جب عند الشرع شوہر کی یہ شان ہے تو اس کی بے ادبی کرنا ، اس پر ہاتھ اٹھانا یا اسے مارنا بیوی کیلئے ہرگز جائز نہیں ، اگر ایسا کردیا ہے تو شوہر سے معافی مانگے اور سچی توبہ کرے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۲۵/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۱/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح:
عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد جنید العطاری النعیمی غفرلہ
المفتی بجامعۃ النور اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراتشی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب الصحیح فقط
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بجامعۃ النور کراتشی
الجواب صحیح
ابوالضیاء محمد فرحان القادری النعیمی غفرلہ