🕌🕌🕌🕋🕋🕋🕋🕋⏳⏳⏳
🌹•┈┈❍﷽❍┈┈•🌹
⏳⏳⏳🕋🕋🕋🕋🕋🕌🕌🕌
قبرستان کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے نیز گاؤں میں قدیم مسجد موجود ہونے کے باوجود دوسری نئی مسجد بنانا کیسا ہے
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ
ایک گاؤں ہے اس گاؤں میں ایک مسجد ہے مگر گاؤں کے لوگ دوسری مسجد بنا رہے ہیں لیکن جس زمین پر مسجد بنا رہے ہیں اس زمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پرانے زمانے میں قبرستان تھا اور یہ بات گاؤں کے بیشتر لوگ بچے بوڑھے, مردو عورت, سنی, وہابی, حتی کہ کافرجانتے ہیں اور یہ بھی کہنا ہے کہ یہ قبرستان تھا اور جو لوگ پہلے اس زمین پر قابض تھے ان لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ قبرستان تھا مگر ان لوگوں نے اپنے بزرگوں سے اپنے باپ داداؤں سے صرف سنا ہے کسی نے وہاں مردہ دفن ہوتے نہیں دیکھا ہے تو کیا اکثریت کی بنیاد پر اس زمین کا قبرستان ہونا ثابت ہوتا ہے یا نہیں حالانکہ وہاں کھودنے پر انسانی ہڈیاں نکلتی ہیں لہذا
اس زمین پر مسجد بنائی جا سکتی ہے یا نہیں اور اس جگہ پر مسجد بنانے والوں کے لئے کیا حکم ہے اس مسجد میں نماز پڑھنے والوں کے لئے کیا حکم ہے ؟
نیز جہاں پر نئی مسجد بنائی جارہی ہے اسی گاؤں میں قدیم مسجد موجود ہے جو تقریبا پانچ چھ گھروں کے دوری پر ہے جہاں پر عام دنوں کی پنج وقتہ نمازوں میں بمشکل دس پندرہ افراد نماز پڑھنے کےلئے آتے ہیں اور کبھی کبھار وقت مقررہ پر اذان و اقامت بھی نہیں ہوپاتی حالانکہ علماء کرام زمانہ دراز سے نماز کےلئے لوگوں کی ذہن سازی بھی کرتے چلے آرہے ہیں مگر اس کے باوجود مسجد کبھی نمازیوں سے نہیں بھرتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ کیا نئی مسجد بنانے سے قدیم مسجد کی ویرانی یا سخت قلیل مصلیان کا باعث نہ ہوگی جبکہ دونوں یعنی قدیم و جدید مسجدوں کے مصلیان بھی وہی لوگ ہیں اور دوسرے مصلیان کی امید بھی بہت ہی کم ہے تو کیا ایک مسجد نہ بھرے پھر اتنی سی دوری پر دوسری مسجد کی تعمیر کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں اور اس کے باوجود دوسری مسجد تعمیر کرنے والوں کے متعلق کیا حکم ہے؟
قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
سائل💢دین محمد انصاری
پکری آراضی سنت کبیر نگر اترپردیش الھند
گروپ💢سنی رضوی فقہی گروپ
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**********************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
مذکورہ بالا مسئلے میں حکم یہ ہے کہ اگر واقعی میں وہ زمین جس کے بارے میں گاؤں کے اکثر و بیشتر افراد کا قول یہ ہے کہ یہ زمین قبرستان کی ہے نیز
وہاں کھودنے پر انسانی ہڈیاں نکلتی ہیں قرب و جوار کی زمین والے بھی اسے قبرستان سمجھتے اور مانتے ہیں تو ایسے روشن ثبوتوں کے بعد وقفی قبرستان ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں کیونکہ کتب فقہ میں تصریح ہےکہ عام وقفوں کے ثبوت کو صرف اور صرف شہرت کافی ہے شہرت کی بناء پر کوئی وقف ہونے کی گواہی دے تو مقبول ہے ۔
در مختار میں ہے: تقبل فیہ الشہادۃ فی الشھرۃ حفظ للاوقاف القدیمۃ من الاستحقاق “
﴿در مختار ج ۶ص ۶۱۹ کتاب الوقف﴾
ہدایہ میں ہے:امام الوقف صحیح انہ تقبل الشہادۃ بالتسامع”
﴿ھدایۃ ج ۱ کتاب الوقف ﴾
فتاوی قاضی خان میں ہے:
اذا شہد الشہود فیما تجوز بہ الشہادۃ بسماع و قالوا لم نعاین ذلک و لکنہ اشتھر عندنا جازت شھادۃ “
﴿قاضی خان علی ھامش عالمگیری ج ۴ کتاب الوقف﴾
جب وہ وقفی قبرستان ہے تو اس کے احکام احکام وقف کے مثل ہوئے اور شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ وقفی قبرستان کے کسی بھی حصے پر مسجد بنانا سخت ناجائز و حرام اور گناہ ہے
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
*” لا يجوز تغيير الوقف عن هيئته ۔*
ترجمہ: وقف کو تغییر کرنا جائز نہیں ہے اس کی صورت سے ۔
*(📕2 ج الباب الرابع عشر فی المتفرقات صفحہ 490)*
📑 درمختار میں ہے کہ
*” شرط الواقف كنص الشارع فى وجوب العمل به ” اھ*
*(📓 کتاب الوقف ج 6 ص 649 )*
فتاوی عالمگیری میں ہے
“سئل هو (ای الفاضی الامام شمس الائمة محمود الاوزجندی) عن المقبرة في القرى اذا ان درست ولم يبق فيها اثر الموتى لا العظم ولا غيره هل يجوز زرعها واستغلالها قال لا ولها حكم المقبرة كذا في المحيط یعنی شمس الائمہ امام محمود اوزجندی سے سوال کیا گیا کہ جب کوئی قبرستان بالکل مٹ جائے اور اس میں مردوں کا نشان باقی نہ رہے اور ناہی ان کی ہڈیاں اس وقت قبرستان پر کھیتی باڑی کرنا اور اسے پیداواری کاموں میں استعمال کرنا جائز ہے انہوں نے کہا ناجائز ہے اور قبرستان کےلئے اب بھی پہلے والے احکام باقی ہیں
فتاوی عالمگیری جلد: 2 ص362
رد المحتار میں ہے
الواجب ابقاء الوقف على ما كان عليہ
✒ رد المحتار ج 3 ص:227
تبیین الحقائق فی شرح کنز الدقائق میں ہے
’’إذا لزم الوقف فانہ لایجوز بیعہ ولا ھبتہ ولا التصرف فیہ بأي شیء یزیل وقفیتہ لقول النبی ﷺ فی ابن عمر رضی اللہ عنہ: لایباع ولایوھب ولایورث، ویری أبو حنیفۃ أنہ یجوز بیع الوقف، قال أبویوسف لو بلغ أبا حنیفۃ ھذا الحدیث لقال بہ‘‘۔ یعنی اگر وقف لازم ہوجائے تو نہ اس کی بیع جائز ہے اور نہ ہبہ اور نہ اس میں کسی طرح کا تصرف، جس سے اس کی وقفیت ختم ہو جائے، اس دلیل کی بنیاد پر کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وقف شدہ چیز نہ بیچی جائے گی اور نہ ہبہ کی جائے گی اور نہ وراثتاً کسی وارث کی طرف منتقل ہوگی ۔امام ابو حنیفہ کا خیال ہے کہ وقف شدہ چیز کی بیع جائز ہے، چنانچہ امام ابویوسف لکھتے ہیں کہ اگر امام ابوحنیفہ کو یہ حدیث پہنچی ہوتی تو وہ ضرور اس کے قائل ہوتے اور اپنا مذہب تبدیل کر دیتے۔
تبیین الحقائق فی شرح کنز الدقائق ج 4 ص 272
قال ابن القاسم لوان مقبرۃ من مقابر المسلمین عفت فبنٰی قوم علیھا مسجداً بعد لم یکن بذلک باسا لان المقابر وقف من اوقاف المسلمین لاتجوز لاحد ان یملکھا فاذا درست واستغنٰی من الدفن فیھا یصر فھا الی المسجد لان المسجد ایضًا وقفً من اوقاف المسلمین لایجوز تملیکہ لاحدٍ لان معنا ھما واحد
عمدۃ القاری۔ ص 179، ج 4
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ قبرستان وقف میں کوئی تصرف خلاف وقف جائز نہیں مدرسہ ہو خواہ مسجد یا کچھ اور
فتاوی رضویہ ج 9 ص 347
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ ”قبروں کے لیے زمین وقف کی تو وقف صحیح ہے اور اصح یہ ہے کہ وقف کرنے سے ہی واقف کی ملک سے خارج ہوگئی اگر چہ نہ ابھی مرده
دفن کیا ہو اور نہ اسے قبضہ سے نکال کر دوسرے کو قبضہ دلا ہو
بہار شریعت ج 1ص 87
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ وقفی قبرستان پر مسجد تعمیر کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے
اور اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنے والے ظالم و جفاکار مستحق نار و غضب جبار اور سخت مجرم و گنہ گار ہیں ان پر توبہ و استغفار لازم اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا اور اس میں بنے ہوئے وضو خانہ سے وضو کرنا درست نہیں ہے ۔
در مختار میں ہے: وکذا تکرہ فی اما کن (الی قولہ)و ارض مغصوبۃ “
الدر المختار مع رد المحتار جدید ج ۲ ص ۴۴
اور فتاوی عالمگیری میں ہے ۔
“ان غصب دارا فجعلتھا مسجدا لا یسع لاحد ان یصلی فیہ”﴿الفتاوی العالمگیریۃ ج۵ ص ۳۲۰﴾
اور بہار شریعت میں ہے
“زمین مغضوب میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے “﴿بہار شریعت مکروہات ج۱ ح۳ ص ۶۳۰﴾
اور رہی بات دوسری نئی مسجد بنانے کے متعلق تو عند الشرع یہ حکم ہے کہ
بلاضرورت شرعیہ اتنے قریب دوسری مسجد بنانا مناسب نہیں بالخصوص اگر اس مسجد کے بنانے سے پہلی مسجد ویران ہوجائے یا کم جماعت کا باعث بن جائے جیسا کہ سائل نے استفتاء میں بیان کیا ہے تو نئی مسجد بنانے والوں سے یہی کہا جائےگا کہ وہ نئی مسجد کے تعمیر کے بجائے مسجد قدیم کو آباد کریں کہ اس میں فرض کا ثواب ہے اور جدا مسجد بنانے میں نفل کا ثواب ہے اور آباد مسجد کو ویران کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے حتی الامکان مسجد کا آباد کرنا فرض ہے اور ویران کرنا حرام ہے ۔فتاوی رضویہ ج ۳ ص ۴۳۴
جب قدیم مسجد نماز پنجگانہ میں بھرتی نہیں بمشکل دس پندرہ افراد نماز پڑھنے کےلئے آتے ہیں اور کبھی کبھار وقت مقررہ پر اذان و اقامت بھی نہیں ہوپاتی تو ایسی صورت حال میں نئی مسجد تو نئی مسجد قدیم مسجد کی توسیع کو بھی ائمہ کرام و علماء عظام نے پسند نہ رکھا اس کا حکم فتاوی رضویہ ج ۶ص صفحہ ۴۷۳ پر موجود ہے
اور اگر نئی مسجد کے بنانے سے قدیم مسجد کی جماعت کم کرنا مقصود ہو اور بھی زیادہ گناہ ہے کیوں کہ یہ مسجد ضرار کے مشابہ ہو جائے گی ۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ نے اپنے ماتحت حکام کے نام ایک حکم جاری فرمایا کہ ہر محلہ میں مسجدیں بناؤ مگر ایسی مسجدیں نہ بناؤ جن سے پہلی مسجدوں کی جماعت توڑنا مقصود ہو تفصيله في آداب المساجد عن الكشاف. اور اگر واقعی نئئ مسجد کے بنانے سے یہی مقصود ہے کہ قدیم مسجد ویران ہو جائے اور اس کو ضرر پہنچ جائے تو حکما مسجد ضرار ہے اور مسجد ضرا مسجد نہیں ہوتی۔
حضرت العلام مولانا مفتی محمد خلیل خان قادری مارہروی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں:لہذا مسجد اللہ کےلئے بنانی چاہئے اور جب بنانے والے کی نیت کا حال معلوم ہوجائے تو وہ حکما مسجد ضرار کہلائے گی ورنہ مسجد ضرار کا حکم نہ دیں گے “﴿احسن الفتاوی المعروف فتاوی خلیلیہ ج ۲ص ۵۶۷ باب احکام المسجد و آداب المسجد﴾
اور مسجد کی ویرانی کے جو لوگ باعث و ذمہ دار ہوں یا ان کے کسی فعل سے مسجد ویران ہوجائے تو قرآن مجید کے الفاظ میں وہ ظالموں میں شامل ہیں اور ان کے لئے دنیا و آخرت میں عذاب عظیم کی وعید۔قال اللہ تعال
ی فی القرآن المجید
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا یعنی اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللہ کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔
پ ۱ سورہ بقرہ آیت مبارکہ ۱۱۴
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند ـ*(بتاریخ ۱۹/ستمبر بروز ہفتہ ۲۰۲۰/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁