جب دیوبندیو کے کفر پر شبہ کرنے والا کافر ہے تو رائی برابر ایمان والا کس کو کہا جا سکتا ہے؟ نیز اس کی پہچان کیا ہے؟
بچی کے اغل بغل کے بال داڑھی میں شامل ہیں یا نہیں؟
مسئلہ:
از انصار نگر۔ ڈوگرہ۔ مظفر پور۔ مرسلہ ڈاکٹر محمد یونس مورخہ ۶؍ اپریل ۱۹۶۰ء
(۱) جب دیوبندیو کے کفر پر شبہ کرنے والا کافر ہے تو رائی برابر ایمان والا کس کو کہا جا سکتا ہے؟ نیز اس کی پہچان کیا ہے؟ (۲) حدیث شریف میں وارد ہے کہ مونچھیں کٹاؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ بچی کے اغل بغل کے بال داڑھی میں شامل ہیں یا نہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شامل نہیں ہیں کیونکہ بہت سے عالم اسے کٹواتے ہیں۔ اگر داڑھی میں شامل ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرتے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شامل ہیں جیسا کہ بہت سے عالموں کے فعل اور بہار شریعت جلد ۱۶؍ ص ۱۹۷ سے ثابت ہے کہ بچی کے اغل بغل کا بال کٹانا بدعت ہے اگر قائل آخر کا قول درست ہے تو یہ کس قسم سے ہے؟
الجواب:امام مذہب حنفی سیّدنا قاضی ابویوسف رضی اللہ عنہ کتاب الخراج میں فرماتے ہیں:
ایمارجل مسلم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوکذبہ او عابہ اوتنقصہ فقد کفر باللہ تعالٰی بانت منہ امرأتہ
جو شخص مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام (گالی)دے یا حضور کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے یا حضور کو کسی طرح کا عیب لگائے یا کسی وجہ سے حضور کی شان گھٹائے وہ یقینا کافر اور خدا کا منکر ہو گیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی۔
(شفاء شریف و بزازیہ)
درر و غرر اور فتاویٰ خیریہ وغیرہا میں ہے: اجمع المسلمون ان شاتمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کافرو من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پاک میں گستاخی کرے و ہ کافر ہے‘ اور جو شخص اس کے معذب یا کافر ہونے میں شبہ و شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ انہیں احکام شرعیہ کی روشنی میں حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دو سو اڑسٹھ علماء مکہ معظمہ و مدینہ منورہ، ہندوستان، بلوچستان،پنجاب، دکن، کوکن، بنگال اور بہار نے بالاتفاق فتویٰ دیا کہ جو شخص
دیوبندیوں کے کفریات مندرجہ
حفظ الایمان ص ۹ براہین قاطعہ ص ۵۱ تحذیر الناس ص ۴۰۳ پر
یقینی اطلاع رکھتے ہوئے ان کے کافر ہونے میں شک کرے تو وہ کافر ہے۔ انتہائی ضعیف الایمان مومن اصطلاح شرح میں رائی برابر ایمان والا کہا جاتا ہے۔ لیکن کافر یقینی کے کفر میں شبہ کرنے والا ضعیف الایمان نہیں رہ جاتا بلکہ وہ مسلوب ایمان ہو جاتا ہے۔ ہمیں کسی متعین رائی برابر ایمان والے کی پہچان حاصل نہیں۔ ہاں اتنا جانتے ہیں کہ جو شخص رائی برابر بھی ایمان رکھتا ہے وہ ضروریات دین میں سے کسی ایک بات کی تکذیب نہیں کر سکتا‘ اور اگر کسی ایک بات کی بھی تکذیب کر دے تو وہ بھی دوسرے کافروں کی طرح کافر ہے۔ کیونکہ تکذیب کی صورت میں اب اس کے پاس ایمان ہی نہیں رائی برابر تو بڑی چیز ہے۔
(۲) قائل ثانی کا قول درست ہے یہاں بدعت سے مراد بدعت سیئہ ہے۔
واللّٰہ ورسولہٗ اعلم۔
کتبہ: بدر الدین احمد الرضوی
۸؍ شعبان ۱۳۸۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۷۲/۷۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند