فتویٰ متعلق باغ فدک

فتویٰ متعلق باغ فدک

مسئلہ: از عبدالحق قادری غوثیہ منزل منڈی حویلی پونچھ (جموں کشمیر)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رافضی لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیا تھا جسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں غصب کر لیا اور حضور کا فرمان ہے کہ جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے مجھ کو ستایا تو اس حدیث شریف کی روشنی میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا کیا حال ہے؟
الجواب: بعون الملک العزیز الوھاب۔ بعض حصۂ زمین جو کفار نے مغلوب ہو کر بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا ان میں سے ایک فدک بھی تھا جس کی آمدنی حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال ازواج مطہرات وغیرہ پر صرف فرماتے تھے اور تمام بنی ہاشم کو بھی اس کی آمدنی سے کچھ مرحمت فرماتے تھے۔ مہمان اور بادشاہوں کے سفراء کی مہمان نوازی بھی اس آمدنی سے ہوتی تھی۔ اس سے غریبوں اور یتیموں کی امداد بھی فرماتے تھے۔ جہاد کے لیے سامان تلوار، اونٹ اور گھوڑے وغیرہ اسی سے خریدے جاتے تھے اور اصحاب صفہ کی حاجتیں بھی اس سے پوری فرماتے تھے۔ ظاہر ہے کہ فدک اور اس قسم کی دوسری زمینوں کی آمدنی مذکورہ بالا تمام مصارف کے مقابلہ میں بہت کمی تھی اسی سبب سے بنی ہاشم کا جو وظیفہ حضور نے مقرر فرما دیا تھا وہ زیادہ نہیں تھا اور سیّدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا جو حضور کو حد سے

زیادہ پیاری تھیں مگر آپ کی بھی پوری کفالت نہیں فرماتے تھے جس سے ثابت ہوا کہ اس قسم کی زمینوں کی آمدنی مخصوص مدوں میں حضور صرف فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا مال اسی کی راہ میں خرچ فرماتے تھے آپ نے ان کو ذاتی ملکیت نہیں قرار دیا تھا۔
پھر جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی فدک کی آمدنی کو انہیں تمام مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور خرچ فرمایا کرتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ کے زمانہ تک اسی طرح صرف ہوتی رہی۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق ‘حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت مولیٰ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سب نے فدک کی آمدنی کو انہیں مدوں میں خرچ کیا جن میں حضور خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد باغ فدک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں رہا پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اختیار میں رہا۔ ان کے بعد حضرت علی بن حسین اور حسن بن حسن کے ہاتھ آیا۔ ان کے بعد حضرت زید بن حسن بن علی برادر حضرت حسن بن حسن کے تصرف میں آیا رضی اللہ عنہم۔ پھر مروان اور مروانیوں کے اختیار میں رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آیا تو انہوں نے باغ فدک حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی اولاد کے قبضہ و تصرف میں دے دیا۔ باغ فدک کی اس تاریخ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا مگر لوگوں نے بلاوجہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر الزام لگا کر ان کو مطعون کیا۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۹۱/۹۰)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top