کیا حضرت ابوبکر نے حضرت فاطمہ کو ستایا (رضی اللہ عنہما)
بیشک جس نے فاطمہ کو ستایا اس نے حضور کو ستایا اور جس نے فاطمہ کو ایذا دی اس نے حضور کو وایذا دی اس مضمون کی حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں:
قال فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغضبھا اغضبنی وفی روایۃ یریبنی ما ارابھا ویوذینی مااذاھا۔
سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے تو جو شخص اس کو غضب میں لایا وہ مجھ کو غضب میں لایا‘ اور ایک روایت میں ہے کہ جو چیز مجھ کو اضطراب میں ڈالتی ہے جو چیز فاطمہ کو اضطراب میں ڈالتی ہے‘ اور جو چیز مجھ کو تکلیف دیتی ہے وہ چیز اس کو تکلیف دیتی ہے۔
(بخاری- مسلم مشکوٰۃ ص ۵۶۷)
یہ حدیث شریف حق ہے جس سے کسی مسلمان کو انکارنہیں ہو سکتا لیکن یہ سمجھنا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیّدہ کو ستایا یہ غلط ہے۔ ستانے کا مفہوم کیا ہے؟ جب حضرت سیّدہ نے حضرت ابوبکر سے فدک کا مطالبہ کیا تو انہوں نے وہ حدیث شریف سنائی کہ جس کی تصدیق بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ یہاں تک کہ حضرت علی بھی کرتے ہیں تو حضرت سیّدہ خاموش ہو گئیں کیا حدیث سنانا اور اس پر عمل کرنا سیّدہ فاطمہ کو ستانا ہے؟ کون مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ حدیث پر عمل کر کے مجھ کو ستایا گیا اور جب عام مسلمانوں کو حدیث رسول پر عمل کرنے سے تکلیف نہیں پہنچ سکتی تو حضرت فاطمہ زہراء جو حضور کی لخت جگر اور نور نظر ہیں ان کو حضور کی حدیث پر عمل کرنے سے کیوں کر تکلیف پہنچ سکتی ہے؟ اور اگر یہ بات مان لی جائے کہ حضرت سیّدہ کو حدیث رسول پر عمل کرنے کے سبب تکلیف پہنچی جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو خود حضرت سیّدہ پر الزام آتا ہے کہ ان کو حدیث رسول سے تکلیف پہنچی اور یہ بات سیّدہ کی ذات سے ناممکن ہے۔ ہاں بخاری شریف کی بعض روایتوں میں حضرت سیّدہ اور حضرت ابوبکر کے سوال و جواب کو نقل کرنے کے بعد حدیث کے راوی نے اپنے خیال کو اس طرح ظاہر کیا ہے:فغضبت فاطمۃ وھجرت ابا بکر فلم تزل مھا جرتہ حتی توفیت وعاشت بعد رسول اللّٰہ ستۃ اشھر
س حضرت فاطمہ ناراض ہو گئیں اور انہوں نے حضرت ابوبکر کو چھوڑے رکھا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور حضرت فاطمہ حضور کے بعد چھ ماہ باحیات رہیں۔ یہاں یہ بات خاص طو ر پر قابل توجہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت سیّدہ کی زبان سے نہیں نکلے ہیں بلکہ یہ حدیث کے راوی کا اپنا ذاتی خیال ہے جس کو انہوں نے اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے یعنی حضرت ابوبکر کی شکایت کسی روایت میں حضرت سیّدہ کی زبان سے ثابت نہیں ہے
‘نہ کوئی حدیث کا راوی یہ کہتا ہے کہ ہم نے حضرت ابوبکر کی شکایت جناب سیّدہ سے سنی ہے‘ اور چونکہ ناراضگی دل کا فعل ہے اس لئے جب تک اس کو زبان سے ظاہر نہ کیا جائے دوسرے شخص کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی البتہ آثار و قرائن سے دوسرے لوگ قیاس کرتے ہیں مگر ایسے قیاس میں غلطی ہو جانے کا بہت امکان ہے جیسے کہ ایک بار بہت سے صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت نشینی سے یہ نتیجہ نکالا کہ حضور نے ازواج مطہرات کو طلاق دیدی ہے مگر جب حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ طلاق نہیں دی ہے۔ اسی طرح فدک کے معاملہ میں بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت سیّدہ کی خاموشی اور ترک کلام سے راوی نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت سیّدہ ناراض ہیں حالانکہ یہ بات نہیں کہ ناراضگی ہی ترک کلام کا سبب ہو بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے والد گرامی کی حدیث سن کر وہ مطمئن ہو گئیں اس لئے پھر کبھی انہوں نے حضرت ابوبکر سے فدک کے معاملہ میں گفتگو نہیں کی‘ اور حضرت سیّدہ کے ناراض نہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ وہ برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گھر کے سارے اخراجات لیتی تھیں اور ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس حضرت سیّدہ کی تیمارداری کرتی تھیں اگر واقعی حضرت سیّدہ ناراض ہوتیں تو ان کی اور ان کی بیوی کی خدمات وہ ہرگز قبول نہ فرماتیں اور پھر حضور نے یہ فرمایا:
من اغضبھا اغضبنی
یعنی جوشخص اپنے قول یا فعل سے قصداً فاطمہ کو غضب میں لائے اس کے لئے وعید ہے۔ اس لئے کہ اغضاب کے معنی یہی ہیں اور پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضب میں لانے اور ایذا پہنچانے کا قصد ہرگز نہیں کیا بلکہ وہ بارہا مقام عذر میں فرماتے رہے:
یاابنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان قرابۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احب الی من ان اصل قرابتی۔
یاابنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان قرابۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احب الی من ان اصل قرابتی۔
قسم ہے خدا کی! اے رسول اللہ کی صاحبزادی! مجھے اپنی قرابت سے حضور کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی زیادہ محبوب ہے‘ اور اگر حضرت سیّدہ کا غضب میں ہونا بمقتضائے بشریت مان بھی لیا جائے تو یہ ان کا اپنا فعل ہے حضرت ابوبکر پر کوئی الزام نہیں اس لئے کہ اغضاب یعنی قصداً غضب میں لانے پر وعید ہے نہ کہ غضب پر۔ ہاں اگر اس لفظ کے ساتھ وعید ہوتی کہ من غضبت علیہ غضبت علیہ یعنی جس پر فاطمہ غصہ ہوں گی تو اس پر میں غصہ ہوں گا‘ تو اس صورت میں البتہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر الزام عائد ہوتا مگر اس طرح کے الزام سے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہیں بچ سکتے۔ اس لئے کہ حضرت سیّدہ بارہا ان پر غصہ ہوئی ہیں جیسا کہ رافضیوں کی معتبر کتاب جلاء العیون ص ۱۸۶ پر ہے: ایک بار حضرت سیّدہ زہراء مولیٰ علی سے ناراض ہوئیں تو حسن و حسین اور ام کلثوم کو لے کر اپنے میکہ چلی گئیں
بلکہ بعض مرتبہ اس قدر غصہ ہوتی تھیں کہ حضرت علی کو سخت وسست بھی کہہ دیا کرتی تھیں جیسا کہ رافضی مذہب کی مشہور کتاب حق الیقین کے ص ۲۳۳ پر ہے: حضرت سیّدہ نے ایک بار حضرت علی سے ناراض ہو کر یہ جملہ کہہ دیا ’’مانند جنین در رحم پردہ نشین شدہ و مثل خائباں در خانہ گریختہ‘‘ حمل کے بچہ کی طرح ماں کے پیٹ میں چھپ گئے اور نامردوں کی طرح گھر میں بیٹھ گئے۔
خلاصہ یہ ہے رافضی اور سنی دونوں کی معتبر کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے حضرت سیّدہ کا حضرت علی پر ناراض ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ ان کی ناراضگی حضرت علی سے وقتی اور عارضی ہوتی تھی پھر اس کے بعد آپ راضی بھی ہو جاتی تھیں تو ہم کہتے ہیں اوّل تو حضرت ابوبکر پر حضرت سیّدہ کی زبان سے ناراض ہونا ہی ثابت نہیں اور اگر حدیث شریف کے راوی کے خیال کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ناراضگی بھی عارضی اور وقتی تھی جیسا کہ رافضی اور سنی دونوں کی روایتوں سے ثابت ہے کہ مطالبہ فدک کے بعد حضرت سیّدہ نے حضرت ابوبکر سے بولنا چھوڑ دیا‘ تو آپ نے حضرت علی کو اپنا سفارشی بنایا۔ یہاں تک کہ حضرت زہراء آپ سے راضی ہو گئیں جیسا کہ سنیوں کی کتاب مدارج النبوۃ، کتاب الوفاء بیہقی اور شروح مشکوٰۃ میں یہ روایت موجود ہے‘ بلکہ محدث کبیر حضرت شیخ عبدالحق دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مطالبہ فدک کے بعد حضرت سیّدہ کے گھر گئے اور دھوپ میں ان کے دروازہ پر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ان سے راضی ہو گئیں۔
(اشعۃ اللمعات جلد سوم ص ۴۵۴)
اور رافضیوں کی کتاب محجاج السالکین میں ہے:
ان ابا بکر لما رأی ان فاطمۃ انقبضت عنہ وھجرتہ ولم تتکلم بعد ذٰلک فی امر فدک وکبر ذٰلک عند فاراد استرضاء ھا فاتا ھا فقال لھا صدقت یا ابنۃ رسول اللہ فیما ادعیت ولکنی رایت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقسمھا فیعطی الفقراء والمساکین و ابن السبیل جعل ان یوتی منھا قوتکم والصانعین بھا فقال افعل فیھا کما کان ابی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفعل فیھا فقال ذٰلک اللہ علی ان افعل فیھا ماکان یفعل ابوک فقالت واللّٰہ لتفعلن فقال واللّٰہ لافعلن فقالت اللہ اشھد فرضیت بذٰلک واخذت العھد علیہ وکان ابوبکر یعطیھم منھا قوتھم ویقسم الباقی فیعطی الفقراء اوالمساکین وابن السبیل۔
بیشک جب حضرت ابوبکر نے دیکھا کہ فاطمہ مجھ سے تنگ دل ہو گئیں اور چھوڑ دیا اور فدک کے بارے میں بات کرنا ترک کر دیا تو یہ ان پر بہت گراں ہوا انہوں نے
حضرت سیّدہ کو راضی کرنا چاہا تو ان کے پاس گئے اور کہا: اے رسول اللہ کی صاحبزادی! آپ نے جو کچھ دعویٰ کیا تھا سچا تھا لیکن میں نے حضور کو دیکھا کہ وہ فدک کی آمدنی کو فقیروں‘ مسکینوں اور اور مسافروں کو بانٹ دیتے تھے اسی میں سے آپ کو اور فدک میں کام کرنے والوں کو دیتے تھے تو حضرت سیّدہ نے کہا کہ کرو جیسا کہ میرے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے تو حضرت ابوبکر نے کہا: قسم ہے خدا کی! میں آپ کے اوسطے وہ کام کروں گا جو آپ کے والد گرامی کرتے تھے تو حضرت سیّدہ نے کہا: قسم ہے خدا کی! آپ ضرور ایسا ہی کریں گے پھر حضرت ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم! میں ضرور کروں گا تو حضرت سیّدہ نے کہا: اے خدا! تو گواہ رہنا پھر حضرت سیّدہ راضی ہو گئیں اور حضرت ابوبکر سے عہد لیا اور وہ فدک کی آمدنی سے پہلے حضرت سیّدہ وغیرہا کو دیتے تھے پھر باقی فقیروں، مسکینوں اور مسافروں کو بانٹ دیتے تھے۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۰۱/۱۰۰/۹۹/۹۸)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند