کیا حدیث قرطاس کے بارے میں مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی ہے؟

کیا حدیث قرطاس کے بارے میں مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی ہے؟

چہار(۴) یہ کہنا بھی غلط ہے کہ لکھنے کا سامان نہ دینے کے سبب مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی اس لئے کہ حق تلفی اس صورت میں ہوتی جبکہ خداتعالیٰ کی جانب سے کوئی نئی بات آئی ہوتی اور امت کے لئے نفع بخش ہوتی۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ۔
۔ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمہارے اوپر پوری کر دی۔

(پ ۶ ع ۵)
یہ آیت کریمہ جو تقریباً تین ماہ پہلے نازل ہو چکی تھی اس سے قطعی طور پر معلوم ہوا کہ کوئی نیا حکم نہیں تھا‘ بلکہ کوئی امر دینی بھی نہیں تھا بلکہ صرف ملکی مصلحتوں کا اور نیک مشورہ تھا کہ وہ وقت اسی قسم کی وصیتوں کا تھا کوئی عقل مند اسے ہرگز نہیں مان سکتا کہ تیئس برس کی مدت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری نبوت کا زمانہ تھا اور آپ اپنی امت پر بے حد مہربان تھے اس مدت میں پورا قرآن ان کو پڑھایا اور بے شمار حدیثیں ارشاد فرمائیں مگر ایک اہم بات کہنے سے رہ گئی تھی جو اختلاف دفع کرنے کے لئے تریاق مجرب تھی حضور اسے لکھتے یا لکھواتے‘ مگر حضرت عمر کے کہنے سے رک گئے اور اس کے بعد پانچ روز تک ظاہری حیات کے ساتھ موجود رہے لیکن حضرت عمر کے ڈر سے اسے نہیں لکھوایا اور اہل بیت کی ہر وقت آمد و رفت رہتی تھی مگر ان سے زبانی بھی نہیں فرمایا جبکہ حضرت عمر وہاں ہر وقت موجود بھی نہیں رہتے تھے ’’ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ‘‘ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان ہے‘ اور اس بیہودہ خیال کے باطل ہونے پر عقلی دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تحریر لکھنے کا حکم اگر خداتعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر تھا تو جمعرات سے دو شنبہ پیر تک نہ لکھنے کے سبب حضور پر تساہلی کا الزام عائد ہوتا ہے جو شان رسالت کے سراسر خلاف اور باطل ہے۔
خداتعالیٰ کا ارشاد ہے
یٰٓـاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔
اے رسول! تیرے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل کیا گیا ہے تو اسے پہنچا دے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام تو نے پہنچایا ہی نہیں‘ اور اللہ لوگوں کے شر سے تجھ کو محفوظ رکھے گا۔
(پ ۶ ع ۱۴)
کیا اس آیت کریمہ کے ہوتے ہوئے جبکہ ظاہری حیات کے آخری ایام تھے۔ حضور حضرت عمر سے ڈر گئے اور خداتعالیٰ کے وعدہ پر کہ وہ لوگوں کے شر سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔ حضور نے یقین نہ کیا؟ معاذ اللہ من ذٰلک‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ خداتعالیٰ کا حکم نہیں تھا بلکہ آپ اپنی طرف سے لکھوانا چاہتے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمایا کہ نہیں؟ اگر جواب دیا جائے کہ رجوع فرما لیا تو اس صورت میں سارا اعتراض ہی ختم ہو گیا اور اس واقعہ نے بھی موافقات حضرت عمر میں سے ہو کر ان کی عزت کو اور چار چاند لگا دیئے اور اگر یہ کہا جائے کہ حضور نے رجوع نہیں فرمایا تو امت کی نفع بخش چیز کا چھوڑ دینا حضور پر لازم آیا اور یہ باطل ہے اس لئے کہ خداتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْ فٌ رَّحِیْمٌ۔
بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں

سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بڑے ہی شفیق و مہربان (پ ۱۱ ع ۵)
۔اور دوسری دلیل اس خیال کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ جو بات آپ لکھنا چاہتے تھے وہ یا تو کوئی نئی بات تھی جو تبلیغ سابق پر زائد تھی یا تبلیغ سابق کو منسوخ کرنے والی اور اس کے مخالف تھی اور یا تو تبلیغ سابق کی تاکید تھی، پہلی اور دوسری بات باطل ہے اس لئے کہ آیت کریمہ:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
کی تکذیب لازم آتی ہے اور تیسری صورت میں امت کی کوئی حق تلفی نہ ہوئی اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید خداتعالیٰ کی تاکید سے بڑھ کر نہیں ہے تو جن لوگوں کو خداتعالیٰ کی تاکید کا لحاظ نہیں ہو گا ان کو حضور کی تاکید سے بھی کچھ فائدہ نہ پہنچے گا‘ اور حدیث شریف سے اس بے ہودہ خیال کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جو ابتدائے جواب میں لکھی گئی ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بولنے سے پہلے حاضرین نے آپس میں جھگڑا کیا اور جو کچھ کہنا تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ پوچھا مگر حضور نے قلم و دوات منگانے اور لکھنے لکھانے سے خاموشی اختیار فرمائی اگر یہ بات قطعی ہوتی تو آپ ہرگز خاموش نہ ہو جاتے اور اگر اس وقت خاموش ہو گئے تھے تو اس کے بعد پانچ روز ظاہر حیات کے ساتھ موجود رہے جس کا اقرار رافضی لوگوں کو بھی ہے تو اس درمیان میں اسے ضرور لکھوا دیتے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ دینی معاملات میں سے کسی چیز کا لکھنا منظور نہ تھا بلکہ دنیوی معاملات میں کچھ کہنا تھا جس کی وصیت فرمائی کہ مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دو‘ ایلچیوں کی خاطر مدارات کرو اور تیسری چیز کہ جس سے اس حدیث شریف میں سکوت کا ذکر ہے غالباً حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی درستگی ہے۔ جیسا کہ دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے‘ اور اس بات پر کہ وہ دینی معاملہ نہ تھا دلیل یہ ہے کہ جب دوسری بار صحابہ کرام نے قلم دوات وغیرہ لانے کے بارے میں پوچھا تو حضور نے فرمایا: ذرونی فالذی انا فیہ خیرمما دعوتنی الیہ مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو کہ میں اپنے باطن سے مشاہدہ حق میں مشغول ہوں اور یہ حالت اس سے بہتر ہے کہ جس کی طرف تم بلا رہے ہو۔
اگر کسی دینی معاملہ یا تبلیغ کا پہنچانا منظور ہو تا تو بہتری کا معنی کیسے درست ہوتا؟ اس لئے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ انبیائے کرام کے حق میں وحی پہنچانے اور دینی احکام جاری

کرنے سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔
اور اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جب سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار اس عالم سے بے تکلفی کا جواب ارشاد فرمایا تو حاضرین کو حسرت و یاس دامن گیر ہوئی اور ناامید ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی تسلی کے لئے فرمایا
عندکم القرآن حسبکم کتاب اللّٰہ
مطلب یہ ہوا کہ حضور کے اس جواب سے تم لوگ مایوس نہ ہو تمہاری تعلیم اور تمہارے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلام اس گفتگو کے بعد صحابہ کرا م کی تسلی کے لئے فرمایا نہ کہ تحریر سے منع کرنے کے لئے‘ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس واقعہ کے وقت حاضر تھے اس پر رافضی سنی دونوں کا اتفاق ہے مگر حضرت عمر پر یا حاضرین مجلس میں سے کسی پر کہ جن لوگوں نے تحریر کی مخالفت کی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی پر انکار یا افسوس ہرگز منقول نہیں نہ آپ کے زمانۂ خلافت میں‘ نہ آپ کی پوری زندگی میں اور نہ آپ کی وفات کے بعد نہ کسی شیعہ سے اور نہ کسی سنی سے۔ لہٰذا اگر حضرت عمر اس معاملہ میں خطاوار ہیں تو حضرت علی بھی اس کام کی تائید میں ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس کے علاوہ کہ جو اس وقت کمسن تھے کسی کا افسوس اور کسی کی حسرت کسی پر ہرگز منقول نہیں ہوئی اگر کوئی بہت بڑی چیز فوت ہو گئی تو بڑے بڑے صحابہ اور کم ازکم حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر یقینا حسرت و افسوس ظاہر کرتے اور تحریر سے روکنے والوں کی شکایت زبان پر ضرور لاتے‘ اور اگر کسی کوشبہ ہو کہ جب کسی اہم بات کا لکھنا منظور نہ تھا تو حضور نے یہ کیوں فرمایا: لن تضلوا بعدی یعنی تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہو۔ معلوم ہوا دین کے بارے میں کوئی اہم بات تھی اس لئے کہ دین میں خلل پڑنا ہی گمراہی کے معنی ہیں۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ لفظ ضلال عرب کی بولی میں جیسا کہ دین کی گمراہی کے معنی میں آتا ہے۔ دنیا کے معاملات میں بدتدبیری کے معنی میں بھی بہت بولا جاتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا قول حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں منقول ہے:
اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍٍ
یعنی بے شک ہمارے باپ صریح غلطی پر ہیں۔
(پارہ ۱۲ رکوع ۱۲)
اور اسی سورۂ یوسف میں دوسری جگہ ہے
اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ‘
‘ یعنی بے شک آپ اپنی اسی پرانی غلطی پر ہیں۔
(پارہ ۳ ع ۵)
ظاہر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کافر نہ تھے کہ اپنے والد یعقوب علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو گمراہ سمجھتے۔ معاذ اللہ۔ مطلب ان کایہ تھا کہ دنیوی معاملات میں آپ بے تدبیری برتتے ہیں کہ ہم لوگوں سے جو ہر طرح کی خدمتیں کرتے ہیں الفت کم رکھتے ہیں اور جو لوگ چھوٹے ہیں اور خدمت کرنے سے قاصر ہیں

ان سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا اسی طرح یہاں بھی ’’تضلوا‘‘ سے مراد ملک کی تدبیر میں خطا ہے نہ کہ دین کی گمراہی‘ اور واضح دلیل اس پر یہ ہے کہ ۲۳؍ برس کی مدت میں قرآن کا نزول‘ اور احادیث کریمہ کا ارشاد ان کی گمراہی کے دفع کرنے کے لئے اگر کافی نہ ہو تو چند سطروں کی تحریر اس کام کے لئے کیسے کافی ہو سکتی ہے؟ اور بعض لوگوں کے دل میں یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کا معاملہ لکھنا چاہتے تھے مگر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے روک دینے سے یہ اہم معاملہ رہ گیا۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ خلافت کا معاملہ لکھنا ہرگز منظورنہ تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق حضور نے اسی مرض میں ارادہ فرمایا تھا جیسا کہ مسلم شریف جلد ۲ صفحہ ۲۷۳ میں ہے: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
ادعی لی ابا بکر اباک واخاک حتی الکتب لھما کتابا فانی اخاف ان یتمنی متمن ویقول قائل انا اولی ویابی اللّٰہ والمومنون الا ابابکر
اپنے والد ابوبکر کواور اپنے بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ان کے لئے وصیت نامہ لکھ دوں اس لئے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کوئی آرزو کرنے والا آرزو کرے یا کوئی کہنے والا کہے کہ میں افضل ہوں حالانکہ خدا اور مومنین علاوہ ابوبکر کے کسی کو قبول نہیں کریں گے‘ مگر ایسا ارادہ فرمانے کے بعد پھر حضرت عمر یا کسی دوسرے کی ممانعت کے بغیر حضور نے خودبخود لکھنا موقوف کر دیا۔
اور پھر اگر خلافت کے لئے وصیت ہی کرنی تھی تو اس کے لئے لکھنا ضروری نہ تھا بلکہ جو لوگ حجرۂ مبارک میں موجود تھے ان کے سامنے زبانی وصیت کر دینا ہی کافی تھا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے لکھنے سے منع نہیں کیا اور اگر منع کرنا فرض بھی کر لیا جائے تو اس سے امت کی کوئی حق تلفی ہرگز نہیں ہوتی۔ یہ رافضیوں کا وسوسہ ہے‘ اور وسوسہ کا کوئی علاج نہیں۔
۔ ھٰذا ماظھرلی وھو تعالٰی ورسولہُ الاعلی اعلم جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۴؍ ربیع الاخر ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۹/۱۱۸/۱۱۷/۱۱۶/۱۱۵)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top