حدیث قرطاس کے سابق فتویٰ پر ایک شبہہ اور اس کا جواباس کے متعلق تفصیلی مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں

حدیث قرطاس کے سابق فتویٰ پر ایک شبہہ اور اس کا جواب
اس کے متعلق تفصیلی مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں

مسئلہ: از حیات علی بھاؤ پوری۔ بھاؤ پور ضلع بستی
مکرمی حضرت مفتی صاحب قبلہ دام الطافکم۔ السلام علیکم
التماس اینکہ حدیث قرطاس کے بارے میں آپ کے فتویٰ کا مطالعہ کیا۔ بجز عبارت ذیل کے آپ نے بہت خوب تحریر فرمایا ہے وہ عبارت یہ ہے: ’’محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر کلام وحی الٰہی نہیں ہے تو یہ نص صریح
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌّ یُّوْحٰی
کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے باے میں اطمینان بخش مدلل جواب تحریر فرمائیں۔ فقط
باسمہ تعالیٰ والصلاۃ والسلام علٰی رسولہ الاعلٰی
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌّ یُّوْحٰی
ھُوَ کا مرجع قرآن عظیم ہے جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے
انہ ضمیر معلوم وھو القران کانہ یقول ما القرآن الاوحی
یعنی آیت کریمہ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌّ یُّوْحٰی میں ھو کا مرجع قرآن ہے۔ گویا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے: قرآن صرف وحی ہے‘ اور تفسیر روح البیان میں ہے:
: ان ھوای ماالذی ینطق بہ من القرآن الاوحی من اللّٰہ تعالٰی یوحی الیہ بواسطۃ جبرائیل علیہ السلام۔
۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحی الٰہی ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب وحی کیا جاتا ہے‘ اور مدارک میں آیت مذکورہ کی

تفسیر میں ہے:
وما اتاکم بہ من القرآن لیس بمنطق یصدر عن ھواہ ورایہ انما ھو وحی من عبداللہ یوحی الیہ۔
یعنی جو قرآن کہ رسول تمہارے پاس لائے ہیں وہ ایسا کلام نہیں ہے جو ان کی خواہش اور رائے سے ہو۔ وہ صرف وحی الٰہی ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے‘ اور تفسیر ابوالسعود میں ہے۔
: ان ھو ای ماالذی ینطق بہ من القرآن الاوحی من اللّٰہ تعالٰی
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جسے رسول قرآن بتاتے ہیں وہ صرف وحی الٰہی ہے اور تفسیر خازن میں ہے:
وما ینطق عن الھویٰ ای بالھوی والمعنی لایتکلم بالباطل وذٰلک انھم قالوا ان محمد یقول القرآن من تلقآء نفسہ ان ھوای ماھویعنی القرآن و قیل نطقہ فی الدین الاوحی من اللہ یوحی الیہ۔
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ کفار و مشرکین کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن اپنی طرف سے کہتے ہیں اس لئے آیت کریمہ کا یہ معنی ہوا کہ وہ باطل کلام نہیں فرماتے ہیں۔ قرآن اور بعض لوگوں نے کہا کہ ان کا ہر وہ کلام جو دین کے بارے میں ہو صرف وحی الٰہی ہے جو ان کی طرف وحی کیا جاتا ہے‘ اور معالم التنزیل میں ہے: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی کی تفسیر خازن کی مثل لکھنے کے بعد تحریر فرمایا ان ھو ما نطقہ فی الدین وقیل القرآن یعنی دین کے بارے میں رسول کا کلام اور بعض لوگوں نے کہا کہ قرآن صرف وحی خداوندی ہے جو رسول کی طرف وحی کیا جاتا ہے۔
ان معتبر تفسیروں سے واضح ہو گیا کہ آیت کریمہ
اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌّ یُّوْحٰی
میں ھو کا مرجع قرآن عظیم ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن وحی الٰہی ہے نہ کہ ہر کلام۔ اور تفسیر معالم التنزیل میں جو ھو کا مرجع نطقہ فی الدین بتایا تو اس سے بھی ہر کلام کا وحی الٰہی ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف دینی کلام کا وحی ہونا ثابت ہوتا ہے البتہ تفسیر جمل اور صاوی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال‘ اور سب احوال وحی الٰہی ہیں جیسا کہ ہمارے مقررین عام طور پر بیان کرتے ہیں‘ مگر اس کے بارے میں علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ وہ ظاہر کے خلاف ہے اس پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اس آیت کریمہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول و فعل کا وحی ثابت کرنا ایک وہم ہے اس لئے کہ ھو کا مرجع اگر قرآن کو تسلیم کیا جائے تو اس معنی کا خلاف ہونا ظاہر ہے‘ اور اگر ھو سے مراد حضور کا قول ہو تو ان کے قول سے وہی قول مراد ہے کہ جسے کفار و مشرکین شاعر کا قول کہتے تھے تو خداتعالیٰ نے رد کرتے ہوئے فرمایا: وَلَا بِقَوْلِ شَاعِرٍ اور وہ قول قرآن کریم ہی ہے۔ علامہ امام

رازی کی اصل عبارت یہ ہے:
الظاھر خلاف ماھو المشھور عند بعض المفسرین وھو ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ماکان ینطق الاعن وحی الاحجۃ لمن توھم ھٰذا فی الایۃ لان قولہ تعالٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌّ یُّوْحٰی ان کان ضمیر القرآن فظاھر و ان کان ضمیرا عائدا الی قولہ فآلمرا دمن قولہ ھو القول الذی کانوا یقولون فیہ انہ قول شاعر و رد اللہ علیھم فقال ولابقول شاعر وذٰلک القول ھو القرآن۔
اور علامہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر قول کو وحی الٰہی مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حضور نے کبھی اپنے اجتہاد سے کچھ نہیں فرمایا اوریہ بھی ظاہر کے خلاف ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیوں میں اجتہاد فرمایا ہے‘ اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو یا شہد کو جب حضور نے اپنے لئے حرام فرما لیا تو آپ کریمہ نازل ہوئی یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ یعنی اے نبی! تم نے کیوں حرام فرما لیا۔
(پ ۲۸ سورۂ تحریم)
معلوم ہوا کہ اگر حضور کا حرام فرمانا وحی الٰہی ہوتا تو لِمَ تُحَرِّمُ نہ فرمایا جاتا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کچھ لوگوں کو غزوۂ تبوک میں شرک نہ کرنے کی اجازت دے دی تو آیت کریمہ: عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ نازل ہوئی یعنی اللہ تمہیں معاف کرے تم نے انہیں کیوں اذن دے دیا۔
(پ ۱۰ ع ۱۲)
ثابت ہوا کہ حضور کا ہر کلام وحی الٰہی نہیں، ورنہ حضور کے اجازت دینے پر لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ نہ فرمایا جاتا۔ علامہ امام رازی کے اصل الفاظ یہ ہیں:
ھٰذا یدل علی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یجتھد وھو خلاف الظاھر فانہ فی الحروب اجتھد وحرم ماقال اللّٰہ لم تحرم واذن لمن قال اللّٰہ تعالٰی: عفا اللہ عنک لم اذنت لھم۔ (تفسیر کبیر جلد ہفتم ص ۷۰۰)
علاوہ ان کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل وحی الٰہی نہیں ہے۔
مثلاً بخاری شریف جلد دوم صفحہ ۲۷۴ میں ہے: سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے (کسی مصلحت سے) عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائی تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: لَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ۔
(پ ۱۰ ع ۶۱)
اور کھجوروں کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مشہور ہے: انتم اعلم باموردنیاکم اور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھارہ دن تک طائف کا محاصرہ جاری رکھا

اور وہ فتح نہیں ہوا حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشورے پر حضور نے محاصرہ اٹھا لیا۔
(زرقانی جلد سوم ص ۳۳)
معلوم ہوا کہ طائف کا محاصرہ وحی الٰہی سے نہیں تھا ورنہ صحابی کے کہنے پر حضور محاصرہ ہرگز نہ اٹھاتے۔
ان تمام شواہد سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل وحی الٰہی نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں نے کہا کہ ان کا ہر قول وفعل وحی الٰہی ہے تو ان کا مطلب یا تو یہ ہے کہ دینی امور میں حضور کا ہر قول وفعل وحی الٰہی ہے جیسا کہ معالم التنزیل میں فرمایا اور یا تو ان لوگوں کا قول عام مخصوص منہ البعض ہے۔
ھٰذا ماظھرلی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ عزا سمہ و صلی اللہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۰؍ جمادی الاخری ۱۴۰۲ھ؁

(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۲۳/۱۲۲/۱۲۱/۱۲۰)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top